وزیر اعظم کا دورہ امریکہ: پس منظر اور پیش بندی


پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان ماہ رواں کے تیسرے ہفتے امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں یہ دورہ امریکہ کی دعوت پر کیا جارہا ہے۔ یہ دورہ کئی ایک حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈوملڈ ٹرمپ جو ہر حال میں رواں سال دسمبر تک ہر حال میں افغانستان سے اپنی فوجوں کا مکمل انخلا چاہتے ہیں تاکہ اگلے سال امریکی صدارتی انتخابات سے قبل اپنی سیاسی برتری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی انتخابی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کر لیں۔

پاکستان جو اس وقت افغانستان میں موجود مختلف سیاسی گروہوں کو یکجا کرنے میں اپنا کردار بخوبی نباہ رہا ہے اور اسی سلسلے میں بھور بن مری میں افغان گروہوں کی ایک کامیاب کانفرنس بھی ہوئی ہے اور ساتھ ہی دوھا میں افغان طالبان گروپوں کی میٹنگ بھی ہوئی اب تک کی صورت حال کے مطابق امریکہ نے روس اور چین سمیت پاکستان کی اہمیت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہے جو اس بات کا اعادہ ہے کہ افغان مسئلہ کا حل پاکستان کی بھرپور شمولیت کے بغیر ممکن نہیں اسی لئے امریکہ نے پاکستانی قیادت کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا گیا ہے اور وزیراعظم عمران خان کا دورہ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا دونوں سربراہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کا ایجنڈا صرف افغان مسئلہ تک محدود رہے گا تو اس کا جواب ہے کہ جب بھی دو سربراہ آپس میں ملتے ہیں خاص طور پر جب پاکستان اور امریکہ کی قیادت ملتی ہے تو ایجنڈا خطہ کی عمومی صورت حال کے علاوہ پاکستان کی اندرونی داخلی صورت حال تک بھی پھیل جاتا ہے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت میں ایک اہم ملک ہے اور اس خطہ میں جو بھی نئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں وہ بھی ملاقات میں بات چیت کا مرکز رہیں گی اس وقت بھارت کا بظاہر افغان بات چیت سے باہر رکھنا یا رہنا ایک اہم ایشو بھی ہے اب عمران خان کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کے پیچھے کیا ہے آیا ایسا محض وقتی طور پر پاکستان کو خوش کرنے کی کوشش ہے کہ حقیقتاً اس بات کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ بھارت کا اس مسئلے سے کچھ لینا دینا ہی نہیں مگر ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہ بھارت کے افغان حکومت کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہیے ہیں اور افغان حکومتوں میں بھی بھارت کے لئے ایک نرم گوشہ رہا ہے۔

پاکستان میں حافظ سعید کی گرفتاری نے بھی سوال کھڑے کیے ہیں جونہی حافظ سعید کی گرفتاری ہوئی ہے صدر ٹرمپ کا ٹویٹ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کی موجودہ داخلی سیاسی صورت حال اور اس میں نیب کی اپوزیشن راہنماؤں کی گرفتاریاں اور عمران حکومت کا اپوزیشن کی جماعتوں سے دوری اور اپوزیشن جماعتوں کا حکومت پر احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیوں سے پیدا شدہ داخلی سیاسی عدم اتحاد کی فضا بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ عمران خان کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا کہ امریکہ کبھی بھی آئسولیشن میں رہ کر کوئی کام نہیں کرتا امریکی ادارے ہمیشہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں کیونکہ امریکہ کبھی بھی کسی بھی حکومت کو اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے باہر رکھ کر نہیں دیکھتا اور موجودہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں سیاسی دوری بھی عمران خان حکومت کے لئے اس دورہ میں اپنے اثرات ضرور چھوڑے گا اور پاکستانی حکومت کی پوزیشن کو مضبوط نہیں کرے گا لہذا عمران خان کو اس بات کا بھی خیال رکنا ہوگا۔

عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں سربراہ سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں کہیں آوٹ آف بکس امور پر بھی اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں یہاں عمران خان کو بہت ہی احتیاط سے کام لینا ہوگا کیونکہ پاکستان کے اقتصادی معماملات بڑی حد تک امریکہ کی خوشنودی سے جڑے ہوئے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر امریکہ کی گرفت بڑی مضبوط ہے لہذا ہم جو حال ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاشی معاہدے میں شامل ہوئے ہیں اس کی کامیابی کا انحصار امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات پر ہے جبکہ ہماریرواں اقتصادی صورت حال میں بھی دگر گوں ہےاور ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔

بظاہر عمران خان اس دورہ میں قدر کمزور حیثیت میں اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے جارہے ہیں تو انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ وہ پاکستان کے بین الاقوامی اصولی موقف کا بھر پور دفاع کر سکیں۔

ٹرمپ کوئی روایتی سیاست دان نہیں ہیں وہ ایک رائٹ ونگ انتہا پسندانہ حمایت سے برسراقتدار آئے ہیں اسے میں عمران خان کو انہیں اپنے موقف پر لانے میں بہت محنت کرنا ہوگی اور کوئی بھی ایسی بات جو پاکستان کے موقف جو کمزرو کرئے اسے اپنی بھرپور صلاحیتوں سے جذبات سے باہر رہ کر بچنا ہوگا۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ صدر ٹرمپ روایت سے ہٹ کر کوئی بیان دے سکتے ہیں اس میں پاکستانی وزیراعظم کے لئے کچھ سپیس نکل سکتی ہے مگر اس سپیس کو اپنے حق میں لانا انتہائی تدبر اور بہترین ڈپلومیسی ہی سے ممکن ہو سکے گا۔

مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے دفتر خارجہ نے وزیر اعظم کا کس طرح کی بریفنگ دی ہے مگر اگر تو انہوں نے اپنی پرانی روش پر ہی وزیراعظم کی تیاری کرائی ہے تو پھر نتیجہ بھی پرانا یعنی امریکی دباؤ کا بڑھنا اور ڈو مور والا ہی ہوگا مگر اگر وزیراعظم نئی حکمت عملی سے امریکہ آرہے ہیں تو پھر عین ممکن ہے کہ امریکی دباؤ والی پالیسی قدر متوازن رہے اور امریکہ کے ساتھ ہمارا موقف بھی اعلامیہ کا حصہ بن جائے۔

امریکہ اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کی تاریخ بے شک ستر برس کی ہے مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی اہمیت کو صرف اپنے وقت ضرورت ہی میں اہمیت دی ہے ایسے میں جبکہ اب امریکہ افغانستان سے اپنا مکمل انخلا چاہتا ہے اور پاکستان کی اس کو ضرورت ہے تو ہمارے پاس ایک سلور لائننگ ضرور ہے کہ ہم بھی اس صورتحال میں پاک امریکہ تعلقات کو کوئی نئی راہ دے سکیں اور امداد کے ساتھ تجارتی میدان میں سہولتیں حاصل کر لیں۔ باقی اس دورہ سے کسی بہت بڑے بریک تھرو کی توقع رکھنا کوئی دانشمندانہ سوچ نہ ہو گی۔

امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی نے وزیراعظم سے ملاقات کے ُلئے واشنگٹن ڈی سی میں ایک بڑا ہال بک کروا رکھا ہے جہاں عمران خان کمیونٹی سے خطاب بھی کریں گے۔

اس دورہ کے لئے پس پردہ سفارتی ماہرین حکمت عملی مرتب کر چکے ہیں جو ٹرمپ عمران سربراہ ملاقات کے بعد واضح بیانیہ کی صورت میں سامنے آ جائے گی تو صورت حال واضح ہوسکے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ ایران کشیدہ صورت کس کروٹ بیٹھتی ہے پاکستان کو اس کونفلکٹ سے اپنے آپ کو ہر صورت بچانا ہوگا وگرنہ خدشہ ہے کہ امریکہ اگر ایران کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھاتا ہی تو ہمیں اس میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اس میں استعمال طور پر شامل نہ کرسکے اگر ایسا ہوا تو ہمارے استحکام کو براہ راست کاری ضرب لگ سکتی ہے اور ہم ایک مصیبت سے نکلتے نکلتے ایک اور تنازعہ کا حصہ بن سکتے ہیں لہذا ہمیں امریکہ کی کسی بھی ایران مخالف جارحیت سے دور رہنا ہو گا اور اس سلسلے میں ایک واضح موقف بھی اپنانا ہوگا۔

ایسا ممکن نہیں کہ اس ملاقات میں پاک چین تعلقات کا تذکرہ نہ ہو پاکستان کی چین کے ساتھ سی پیک کے حوالے سے ایک طویل مدتی شراکت داری ہے جو جنونی ایشیا میں ترقی اور اس کی نئی بین الاقوامی تجارتی منڈیوں تک رسائی کے ساتھ علاقے کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔ امریکہ بظاہر اس پر کوئی زیادہ بات نہیں کرتا لیکن پس پردہ امریکہ اس منصوبے ہر تحفظات ہیں اور خطے میں چینی بالادستی کا حامی نہیں ہے جناب وزیراعظم کو سی ہیک کے حوالے سے بھی محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

مجموعی طور پر اس دورے سے کوئی بڑی امیدیں وابستہ کرنا خام خیالی ہی ہوگی۔ اگر عمران خان دانشمندانہ طریقے سے مذاکرات کا پھیلاؤ اہم اور فوری امور تک رکھنے میں کامیاب ہوئے اور اپنی خطے میں اہمیت کو امریکی صدر کے ذہن اجاگر کر پائے تو میری دانست میں یہ کامیاب دورہ تصور ہوگا۔ میری جناب وزیراعظم سے درخواست ہوگی کہ وہ دورے سے پہلے اور دورے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران اور اپوزیشن ممبران کے ساتھ براہ راست بات کریں اور ان کا اعتماد حاصل کریں۔ یہ پاکستان کے حق میں ایک بہت بڑا پلس پوائنٹ ہو گا اور امریکہ میں اس بات کو بہت اہمیت بھی دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).