جناب وزیراعلیٰ! ویڈیو کا ڈائریکٹر، پروڈیوسر کون تھا؟


منگل کو یکم ساون تھی اور لاہور میں بادل یوں برسے گویا برسوں سے برسنے کو ترسے ہوں، ماضی کے بہت سارے مواقع کی طرح ہر سڑک اور گلی میں چھوٹے موٹے دریا بہنے لگے، یہ کامن سینس کی بات ہے کہ کسی بھی شہر میں بارش اس کے پانی کی نکاسی کی صلاحیت سے جتنی زیادہ ہو گی پانی اتنا ہی زیادہ اور اتنی ہی زیاد دیر کھڑاہو گا۔ لاہور میں ایسی طوفانی بارشیں مون سون میں بھی دو، چار مرتبہ ہی ہوتی ہیں جو شہرکو ڈبو کے رکھ دیتی ہیں، جن کی ویڈیوز بنتی ہیں، سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ لوڈ ہوتے ہیں، الیکٹرانک میڈیا والے بریکنگ نیوز چلاتے ہیں اور اخبارات کی سرخیاں بنتی ہیں۔

 میں لاہور کے بارے میں جانتا ہوں کہ اگر یہاں آپ برساتی پانی کی نکاسی کا ایسا نظام چاہتے ہیں کہ منگل کو ہونے والی بارش کا تمام پانی رکے بغیر نکل جائے تو اس سہولت کے لئے آپ کو سیوریج کی اپ گریڈیشن پر کم از کم( روپے کی ڈی ویلیوایشن کے بعد ) سات سو ارب روپے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ سال کے چار، پانچ یا دس دنوں میں شہر کی سڑکوں پر تین، چار گھنٹے پانی کھڑا نہ ہو کیا ہمیں اس سہولت کی اتنی بڑی قیمت دینی چاہیے؟

میں ایک میڈیا پروفیشنل ہوں او رجانتا ہوں کہ عوامی مسائل کا حل حکمرانوں کی ایشوز پر درست اپروچ میں چھپا ہوا ہے اور یہ بھی از حد ضروری ہے کہ عام وزیروں سے وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم تک حکومتی ذمہ داروں کی میڈیا پروجیکشن ایسی ہو جو عوام میں امید پیدا کرے۔ مجھے اس شخص کی تلاش ہے جس نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار کو قائل کیا کہ وہ شہباز شریف بننے کی ناکام اداکاری کریں، انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی قیمتی گاڑی میں باہر نکلیں اور کچھ سادہ کپڑوں میں کھڑی کی گئی خواتین پولیس اہلکاروں کو اپنی گاڑی میں لفٹ دینے کی ریکارڈنگ کروائیں۔

 شہباز شریف اگر لانگ بوٹ پہن کر پانی میں اتر کر قابل تعریف کام نہیں کرتے تھے تو یقین کیجئے کہ آپ کی اس محنت کا حاصل حصول بھی سستی شہرت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس تحریر کو اگر نوکری کی درخواست نہ سمجھاجائے تو پی ٹی آئی کو کچھ پروفیشنل میڈیا ایکسپرٹس کی خدمات حاصل کر لینی چاہئیں جو ’کانٹینٹ‘ کے بھی ماہر ہوں اورکسی بھی میڈیا ایکٹیویٹی کے اثرات اور نتائج کو جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جی ہاں، سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی بھی ایکٹیویٹی کو اس ماہرانہ نظر سے دیکھنا از حد ضروری ہے کہ آپ کے کمپی ٹیٹرز (یعنی مخالفین) اس کا پُھلکا بنا کر تو نہیں اُڑا دیں گے۔

 وزیراعلیٰ کی ویڈیو بنانے والا شخص اس حد تک حاوی نظر آ رہا تھا کہ عثمان بُزداراس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے جو ان کے بارے میں اس ابتدائی تاثر کو تقویت دے رہا تھا کہ وہ خود کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ احتیاط بہتر رہی کہ وہاں باوردی اور مسلح پولیس والے ہٹو بچو کی صدائیں لگاتے ہوئے نظر نہیں آئے مگر اس امر کا بھی خیال رکھاجانا چاہیے تھا کہ دوسرا ویڈیو بنانے والا پہلے کیمرے کے فریم میں نہ آئے اور ڈائریکٹر بھی اس موقع پر خاموش رہتا تو بہتر تھا۔

سکرپٹ اور ڈراماٹائزیشن کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ اس سے پہلے اسی سکرپٹ کی فلم بنا کر شہباز شریف ہٹ کروا چکے ہیں۔ اب ضرورت یہ تھی کہ فلم کے سیکوئل میں پہلے سے زیادہ تھرل ہو مگر یہ تو پہلے والی فلم کے مقابلے میں کہیں زیادہ پھُس پھسی رہی یعنی وزیراعلیٰ اپنی ساڑھے چار، پانچ کروڑ کی گاڑی سے نیچے ہی نہیں اُترے۔ تیسری بڑی خامی یہ تھی کہ وزیراعلیٰ کچھ خواتین کو لفٹ دے رہے ہیں، آپ خود سوچئے کہ ایک فلم میں ایک مرد کچھ خواتین کو اپنی قیمتی گاڑی میں لفٹ کی پیش کش کر رہا ہو اور وہ خواتین چادروں میں منہ چھپا کے گاڑی میں بیٹھ رہی ہوں تو یہ کوئی اٹریکٹو سکرین پلے نہیں ہے۔

بہت سوں نے کہا کہ اس طرح کے موسم میں اس طرح لاہور کے لونڈے لپاڑے گاڑیاں لے کر نکلتے ہیں، ہاں، اگر سکرپٹ میں کسی بوڑھے کی مدد شامل کر لی جاتی اور برسات میں اسے محنت مزدوری کرتے ہوئے گلے سے لگا لیا جاتا تو باقاعدہ کلیپ مل سکتی تھی، یہ ایک نازک نکتہ ہے اُمید ہے جس کا آئندہ خیال رکھا جائے گا۔ سکرپٹ کی چوتھی بڑی خامی یہ سمجھ لیں کہ وزیراعلیٰ اس بارش کے دوران عوام کو سہولت فراہم کرنے والے نچلے درجے کے سرکاری اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے اور انہیں شاباش دیتے ہوئے نظر نہیں آئے، ایک ہیرو کو کمزوروں اور ماتحتوں کے لئے شفیق، ہمدرد اور مہربان نظر آنا چاہیے۔

اگلی بڑی خامی کی طرف بڑھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو سیف سٹی پراجیکٹ کے ہیڈکوارٹرز میں لے جایا گیا، پولیٹیکل ڈراماٹائزیشن میں خیال رکھئے، اپنی تعریف کرواتے ہوئے اپنی مخالفین کی تعریف کا پہلو ہرگز مت نکلنے دیں اور نہ ایسا موقع دیں کہ ان کے کارنامے یاد کیے جائیں، اس مقام پر شُوٹنگ کی دو خامیاں رہیں پہلی یہ کہ سیف سٹی کا منصوبہ شہباز شریف کا بنایا اور لگایا ہوا ہے جو اس موقع پر سب کو یاد آ گئے اور دوسری یہ سیف سٹی کے کیمرے پانی نکالنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے تھے، اس سے تاثر جاتا تھا کہ آپ مسئلہ حل کرنے کی بجائے صرف تماشا دیکھنے گئے۔

 وزیراعلیٰ کو واسا کے ہیڈکوارٹرز میں لے جانا چاہیے تھا جہاں باہر میڈیا کی ڈی ایس این جی قطار اندر قطار جمع ہو جاتیں۔ وہاں ہونے والی بریفنگز کے لمحہ بہ لمحہ ٹیکرز جاریکیے جاتے اور یہ تاثر دیا جاتا کہ واسا نے لاہور سے جتنا پانی نکالا ہے وہ اصل میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے واسا کے دفتر میں بیٹھ کے خود راوی تک پہنچایا ہے۔ اچھے فلم ساز یا ڈراما میکر اپنی تخلیق میں تمام مسالوں کا خیال رکھتے ہیں اور اس فلم میں مولاجٹ اور نوری نت مسالہ غائب تھا۔

 پی ٹی آئی کے ووٹر سپورٹر یہی سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بیوروکریسی ناکام بنا رہی ہے۔ اس موقعے پر ضروری تھا کہ کچھ افسران کو کھینچا جاتا، جلدی پانی نکالنے پر زور دیا جاتا جس کے دو فائدے ہوتے کہ جہاں سسٹم کی کمی اور کوتاہی جہاں شہباز شریف پر ڈالی جاتی وہاں اپنا ملبہ اور کچرا بھی بیوروکریسی پر پھینک دیاجاتا مگر اس کے برعکس کمزور سکرپٹ رائٹرنے انجمن ستائش باہمی یا اپنی ذاتی پی آر کے چکر میں کمشنر کے نام تعریفی خط جاری کروا دیا جس نے بہت سارے دوسرے افسران کو ناراض کر دیا جو واقعی فیلڈ میں جانفشانی سے کام کر رہے تھے جبکہ کمشنر صاحب تو بوٹ پہنے یہ انفارمیشن جمع کر رہے تھے کہ وزیر اعلیٰ کہاں جا رہے ہیں تاکہ وہاں پہنچ کر چہرہ دکھا سکیں۔

اس خط میں دی گئی شاباش کو وہ لوگ کبھی تسلیم نہیں کریں گے جو بارش کے پانی میں پھنسے رہے، جن کی گاڑیاں اور گھر ڈوبے رہے۔ ایک اچھا ڈائریکٹر ہمیشہ جزیات کا خیال رکھتا ہے، جب وزیراعلیٰ سے گاڑی ڈرائیو کروائی جا رہی تھی تو ان سے لازمی طور پر سیٹ بیلٹ بندھوائی جاتی تاکہ ان کا تاثر ایک مہذب، قانون پسند شہری کے طور پر اُبھرتا۔

مجھے اگر وہ شخص مل جائے جو ڈائریکٹر، پروڈیوسر کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دے رہا تھا تو میں اس سے بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی تھیم ضرور ڈسکس کروں جو میں نے برس ہا برس کے تجربے سے سیکھا ہے۔ میں بین الاقوامی سطح کے ایک اجلاس میں موجود تھا کہ ایک سرکاری ادارے کے عہدے دارنے شکایت کہ وہ کام تو بہت کرتے ہیں مگر ان کی پبلسٹی اور مارکیٹنگ نہیں ہے، سامنے ایشئن ڈویلپمنٹ بنک کے وائس پریذیڈنٹ بیٹھے تھے، ا نہوں نے جواب دیا کہ جب آپ پبلک ڈیلنگ والے کاروبار اور معاملات کرتے ہیں تو کوئی اشتہار آپ کی مارکیٹنگ نہیں کر سکتا، جو آپ کی پراڈکٹ یا سروسز سے مطمئن اور خوش ہوتا ہے وہ خود بخود آپ کا سفیر بن جاتا ہے۔

آپ کی اچھی کارکردگی اور خدمات ہی آپ کی مارکیٹنگ اور پبلسٹی ہے، اگر آپ اس سسٹم کو بہتر بنا دیں گے تو آپ کو ایسے ڈراموں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک خدارا سستے، تھرڈ کلاس اور سفارشی سکرپٹ رائٹرزکی بجائے اچھے ڈائریکٹرز کی خدمات حاصل کریں تاکہ ہمیں آپ کی کچھ اچھی اور پروفیشنل ویڈیوز دیکھنے کو مل سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).