میرے دل میں ایک چھید اور ہو گیا


بیٹی مرگئی ہے اس کی!
کیا؟ کس کی بیٹی مر گئی؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
وہی جس کے آپریشن کے لئے ہم نے پیسے جمع کیے تھے۔ کام والی کی 13 سالہ بیٹی مر گئی۔
گذشتہ ماہ جب لاہور سے واپس آئی تو میری دوست نے مجھے بتایا، جس کام والی کی بیٹی دل کے عارضے میں مبتلا تھی اور آپریشن کے لئے ہم ادھر ادھر سے پیسے جمع کررہے تھے وہ آپریشن کے چند روز بعد مرگئی۔

میں اُن دنوں لاہور تھی۔ مظلوم حنا جس کو برین ہیمرج ہوگیا تھا۔ وہ بھی ماں کے دکھ کم کرتے کرتے خود ہار گئی۔ اس کے علاج کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کے بعد پتا چلا کہ جنرل ہسپتال لاہور میں اس کی دیکھ بھال نہیں کی جارہی۔ سوچا جوان بچی کی زندگی کا سوال ہے مجھے جانا چاہیے۔

وہاں جاکر ڈاکٹرز سے ملی۔ آئی سی یو میں پڑی حنا اب کومے میں تھی۔ ایک نظر دیکھنے سے اندازہ ہوگیا کہ ڈاکٹرز نے اسے ڈیڈز لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ اور پھر میرے کانوں نے نرس اور ڈاکٹرز کی وہ گفتگو بھی سنی جس میں خوشی خوشی بہت سے بیڈ خالی ہونے کا ذکر تھا۔

میرے جانے سے وہاں بس اتنی بہتری آئی کہ حنا کی بہن کو نرسنگ اسسٹنٹ دلوا دیا۔ ڈاکٹرز میرے سولات سے کچھ گھبرا گئے تھے کیونکہ پہلے صرف برین ہیمرج کا بتایا گیا تھا لیکن جس روز میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے کس چیز کا علاج کیا ہے، اس روز یہ انکشاف ہوا کہ حنا کے سر میں ٹیومر تھا۔ اس کی بہن یہ سن کر حیران رہ گئی۔ کیونکہ انہیں اس کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ پھر اس نے میری موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سب کہا جو اس سے پہلے وہ دل میں دبائے بیٹھی تھی۔ کئی گھنٹے میں خاموشی سے اس کی ڈاکٹر سے تکرار سنتی رہی۔ وہ سچ کہہ رہی تھی۔

ڈاکٹرز نے حنا کوٹیسٹ کیس کی طرح ٹریٹ کیا تھا۔ پتا نہیں کیا کیا تجربے کیے کہ اب وہ زندہ لاش کی طرح پڑی تھی۔ اس کے سر کی ہڈی اس کی ماں کے گھر فریج میں پڑی تھی اور اس کے برین کا ایک حصہ ڈیڈ ہوچکا تھا۔

میں وہاں پہنچی تو نرسنگ سٹاف کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ حنا رات ایمرجنسی میں منتقل ہوگئی تھی اور وہ مجھے ادھر ادھر بھیجتی رہیں کہ فلاں بیڈ پر ہوگی اور فلاں پر دیکھیں۔ جب صورتحال سمجھ آئی تو میں نے نرسز کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی کہ کم از کم مریض سے متعلق ریکارڈ تو رکھو کہ کون ہے اور کہاں ہے۔

بہرحال ڈاکٹرز کو پیغام دیا گیا کہ یہاں کوئی خاتون رپورٹس مانگ رہی ہیں تاکہ اپنے جاننے والے کسی ڈاکٹر کو دکھا دیں۔ وہ رپورٹس تو مجھے نہ دی گئیں یہ کہہ کر کہ یہ ہسپتال کی پالیسی نہیں لیکن حنا کی بہن کو سائڈ پر لے جاکر تسلی دی گئی کہ اب کوئی شکایت نہیں ہوگی آپ کو ضرورت نہیں تھی کہ کسی کو اسلام آباد سے بلواتیں۔ ہم ہر طرح سے خیال رکھیں گے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ڈاکٹرز نہیں قصائی ہیں وہاں۔ عنقریب ہم زندہ لاش حنا کو دفنانے کا اعلان سنیں گے جسے کچھ روز قبل ہسپتال سے نکال دیا گیا جب اسے بیڈ سار بن گئے۔ وہ اب بھی کومے میں ہے۔ باقی داستان اس کی بہن اسے دفنانے کے بعد سنا دے گی۔

میرے لاہور جانے سے پہلے ایک روز میں گھر سے نکلی تو ایک دبلی پتلی سی عورت نے مجھے آواز دی۔ ”باجی کام چاہیے؟“
پہلے میں نے اگنور کردیا کیونکہ آئے روز ایسی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ کام کے بہانے دور دراز سے گینگ آتے ہیں اور دو چار روز گھر گھر کام کرکے معلومات جمع کرتے ہیں کہ کس گھر مال پانی ہے تو واردات کریں۔

گیٹ کھولتے ہوئے یونہی میں نے پلٹ کر اسے دیکھا تو پتا نہیں کیا تھا کہ اسے آواز دے ڈالی۔
رکو۔ کہاں کرتی ہو کام؟ میں نے پوچھا تو وہ پلٹ آئی۔
جی میں جس باجی کے گھر کام کرتی تھی وہ باہر چلی گئی ہے۔ اب کام ڈھونڈ رہی ہوں۔

اس روز میں اسے ساتھ لے کر پڑوس میں دوست کی طرف چلی گئی۔ کچھ دیر معلومات لیں کہ کون ہے اور کہاں سے ہے۔ پتا چلا بیوہ ہے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ میاں ایکسیڈنٹ میں فوت ہوا اور تب سے ایک خاتون نے اسے سہارا دے رکھا تھا جو اب ملک چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
میرے امتحان چل رہے تھے۔ جاب تھی نہیں اور حالات ایسے نہ تھے کہ فوری طور پر اس کی کوئی امداد کرتی سو اسے دوست کے حوالے کیا کہ جو ہوسکے مدد کردو اگر کام دے سکتی ہو تو کوئی کام دے دو۔

وہ کہنے لگی کہ اس وقت تو تمہیں ضرورت ہے کہ پیپرز بھی ہیں اور بے شمار مسائل میں گھری ہوئی ہو۔ اسے رکھ لو کچھ ریلیف مل جائے گا۔
نہیں۔ ابھی میں اسے نہیں رکھ سکتی۔ آپ کچھ راشن پانی کے لئے اسے دیں تو پھر دیکھتے ہیں کہ مزید کیا ہوسکتا ہے۔ میں نے سمعیہ کو درخواست کی اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہوگئی۔

اس دوران پتا چلا کہ اس کی بیٹی بیمار رہتی ہے اور جب ٹیسٹ کروائے گئے تو معلوم ہوا کہ بچی کا فوری آپریشن کرنا ہے۔
بس اللہ اجر دے سمعیہ کو۔ جس نے کچھ رقم جمع کرکے اسے دی۔ لیکن پتا نہیں کیوں۔ غریب کے بچوں کو علاج راس نہیں آتا۔ وہ چند روز بعد ماں کے ہاتھوں میں دم توڑ گئی۔
اللہ۔
پتا نہیں کیسے کفن دفن کیا۔ جب سمعیہ نے بتایا تو لگا جیسے میرے دل میں ایک چھید اور ہوگیا!

پھر وہ میرے گھر آئی۔ اس کا چہرہ رو رو کر سیاہ ہو چکا تھا۔ جو شوخی پہلی بار ملاقات میں دیکھی وہ اب نہیں تھی۔ تیرہ سال کی بڑی بیٹی کا دکھ اسے مار گیا تھا۔ وہ کہتی ہے۔ باجی میں اس ایک کمرے کے مکان میں تین چھوٹے بچوں کو باہر سے تالا ڈال کر نکل آتی ہوں شام تک ادھر ادھر پھرتی ہوں کوئی کام مل جائے کر لیتی ہوں کچھ راشن بچوں کے لئے لے جاتی ہوں لیکن۔ اس ایک کمرے کے گھر میں اس کی یادیں بکھری ہیں۔ باجی۔ میں اپنی بچی کو بھلا نہیں سکتی!

میں نے اسی کی ہم عمر اپنی بیٹی فاطمہ کو دیکھا اور میرے سینے میں درد کی لہر اٹھی۔
بہت دیر تک سوچتی رہی کہ یہ بچاری تو سوگ بھی نہ کرسکی کہ گھر بیٹھ گئی تو باقی تین بھی مر جائیں گے۔
پھر سوچا۔ اللہ غریبوں کو بچے دیتا ہی کیوں ہے؟

آج اس نے بتایا کہ جن گھروں میں وہ کام کرتی ہے۔ ان میں سے ایک گھر کی مالکن سعودیہ میں رہتی ہے اور کچھ عرصے کے لئے آئی ہے۔ دو کنال کی کوٹھی ہے اور مجھے صفائی کا صرف دو ہزار کہتی ہے۔
میں نے پوچھا کتنے کمرے ہیں؟ کہنے لگی صرف ایک پورشن میں چھ کمرے ہیں بڑے بڑے۔

اسے منع کیا کہ مت کرو اس کا کام تو کہنے لگی باجی بچی کی بیماری پر بنک سے قرض لیا تھا۔ کمرے کا کرایہ جمع ہے روز مالک مکان مانگتا ہے۔ سوچا یہاں سے دس ہزار ملیں گے تو اسے دوں گی۔ جب اس نے دس ہزار کے بدلے میں کام کی تفصیل بتائی تو دل ڈوب گیا۔ بچاری کی آدھی جان رہ گئی تھی صدمے سے اور وہ مال دار تبلیغ دین کی داعی اسے فی کام دو ہزار دے رہی تھی اتنے بڑے گھر کا۔

باجی کل ان کے بچوں نے ڈھیر سارا فروٹ پلیٹوں میں چھوڑ دیا تھا تو میں نے ایک جگہ جمع کردیا کہ وہ فریج میں رکھیں گی لیکن۔ باجی انہوں نے سارا فروٹ بن میں پھینک دیا! یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں اس کے بچوں کی بھوک چمک رہی تھی۔ اس کی کمر سے لگے پیٹ کو دیکھا اور گلاس دودھ کر ڈال کر اسے تھما دیا۔

سنو۔ میں بہت زیادہ نہیں کرسکتی لیکن تم اپنے بچوں کے لئے یہاں سے جو لے جانا چاہو لے جایا کرو۔ ابھی گنجائش نہیں لیکن آتی رہو کچھ نہ کچھ گھر کا راشن پانی مل جائے گا تمہیں۔ لیکن خدارا۔ اپنے بچوں کو یوں گھر میں بند کرکے مت آو۔ میرے دل کو وہم آتا ہے کہ کیا خبر کیا ہوجائے۔

میں اسے دلاسے دیتی رہی لیکن سچ تو یہ ہے کہ میرے حوصلے ٹوٹ گئے۔ دل کی دھڑکنوں کی بے ترتیبی بتا رہی ہے کہ مجھ میں سکت نہیں رہی۔ اتنا درد جمع ہوگیا کہ دل ڈوبنے لگا ہے۔
پتا نہیں۔ قیامت کو اور کتنا وقت چاہیے برپا ہونے کے لئے!
میں نے بھی ایک دن اپنی بچی کو روتے دیکھا تھا اپنی تنگی کے سبب اور اس روز میں ساری دنیا کو آگ لگا دینا چاہتی تھی۔ یہاں وہ اپنی بیٹی کی لاش لئے میرے سامنے کھڑی تھی اور پوچھتی ہے۔ باجی کوئی کام ہے تو بتاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).