حمایت علی شاعر محبت کا سمندر تھے


حمایت علی شاعر کا شعر ہے

وہ خواب تھا یا بیداری تھی

وہ رات بہت ہی بھاری تھی

میرے عزیز دوست بلند اقبال پر یقیناٌ وہ رات بہت ہی بھاری تھی جس رات نے ان کو ان کے ڈیڈی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا اور انہوں نے اپنی فیس بک وال پر لکھا۔ ڈیڈی چلے گئے۔ آنکھیں لے گئے۔ آنسو چھوڑ گئے۔ بلند اقبال اپنے شاعر والد سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے جس اپنائیت سے آخری دنوں میں ان کی خدمت کی وہ قابلِ رشک بھی ہے اور قابلِ صد تحسین بھی۔ میں نے زندگی میں بہت کم بچوں کو اپنے والدین کی اتنی خدمت کرتے دیکھا ہے۔ پچھلے سال 2018 میں حمایت علی شاعر کی سالگرہ پر ان کے ہاتھوں سے ایوارڈ لینے کے بعد میں نے ایک مختصر تقریر کی تھی۔ ان کی یاد میں وہ تقریر آپ سب کی خدمت میں حاضرِ ہے۔

۔ ۔ ۔

خواتین و حضرات!

آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ میں انعام و اکرام و ایوارڈ لینے سے بہت کتراتا ہوں لیکن جب بلند اقبال نے مجھے بتایا کہ وہ حمایت علی شاعر کی سالگرہ منا رہے ہیں اور اس دن وہ مجھے حمایت علی شاعر ادبی ایوارڈ دینا چاہتے ہیں تو میں نے وہ ایوارڈ بڑی خوشی سے قبول کر لیا کیونکہ اس ایوارڈ کا تعلق میری ادبی خدمات سے کم اور حمایت علی شاعر کی شاعری اور شخصیت سے زیادہ ہے۔

خواتین و حضرات!

حمایت علی شاعر صرف ایک شخص کا نام نہیں ایک سوچ کا ’ایک فکر کا‘ ایک آدرش کا اور ایک خواب کا نام بھی ہے۔

حمایت علی شاعر سیکولر سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی سیکولر سوچ کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کے نام بلند اقبال، روشن خیال اور اوجِ کمال رکھا۔ ان ناموں سے مجھے اپنے چچا عارفؔ عبدالمتین یاد آ گئے جنہوں نے اپنے بئٹے کا نام نوروز عارف اور بیٹی کا نام تحسین عارف رکھا تھا۔

حمایت علی شاعر ایک ترقی پسند فکر رکھتے ہیں۔ انہوں نے نوجوانی سے بڑھاپے تک مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی باتیں کیں اور مظلوموں اور مجبوروں کی حمایت کی تا کہ معاشرے میں جبر اور استحصال کم ہو اور عدل و انصاف میں اضافہ ہو۔

حمایت علی شاعر کا آدرش ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کا بول بالا ہو اور سب انسان باعزت زندگی گزاریں۔

حمایت علی شاعر ایک خواب عزیز رکھتے ہیں اور وہ خواب امن کا آشتی کا اور سکون کا خواب ہے۔

حمایت علی شاعر نے تمام عمر جہالت اور تعصب کی تاریکی میں علم اور دانائی کی شمع روشن کی۔

حمایت علی شاعر نے ہمیشہ دکھی انسانیت کو بہتر زندگی کی امید دلائی اور سب انسانوں کو یاد کروایا کہ۔ ؎ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔

حمایت علی شاعر کو انسانیت کی روشن مستقبل پر پورا یقین ہے۔ وہ کبھی یاسیت کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی شاعری اور شخصیت ان کی مثبت ’توانا اور پرامید سوچ کے آئینہ دار ہیں۔

یہ میری خوش بختی ہے کہ میں نے آج ان کے مبارک ہاتھوں سے ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ میں اس ایوارڈ کو ساری عمر فخر سے یاد کروں گا۔

خواتین و حضرات!

اس ایوارڈ کا تعلق بلند اقبال سے بھی ہے جو میرے عزیز دوست ہیں۔ میں بلند اقبال کی دل کی گہرائیوں سے عزت کرتا ہوں۔ وہ ایک طبیب بھی ہیں ادیب بھی ہیں اور میرے حبیب بھی ہیں۔ مجھے ان کی دوستی پر فخر ہے۔ میں نے بہت کم ایسے بیٹے دیکھے جنہوں نے بلند اقبال کی طرح اپنے والد کی خدمت کی ہو۔ وہ بڑی محبت سے انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے ہیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ اگر میری اماں زندہ ہوتیں تو وہ بھی اسی طرح ڈیڈی کا خیال رکھتیں چونکہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو وہ ذمہ داری میں نے قبول کی ہے۔

بلند اقبال اپنی والدہ سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے پہلا افسانہ لکھا اور پھر لکھتے ہی چلے گئے اور افسانوں کے دو مجموعے۔ فرشتے کے آنسو۔ اور۔ میری اکیاون کہانیاں۔ چھپوائیں۔

بلند اقبال نے ٹی وی پروگرام۔ پاس ورڈ۔ کے ایک سو سے زیادہ پروگرام نشر کیے اور اب وہ میرے ساتھ مل کر۔ دانائی کی تلاش۔ پیش کرتے ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ دانائی کے سفر میں وہ میرے ہمسفر ہیں۔

میں اس موقع پر بلند اقبال کی بیگم شجیہ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو بلند اقبال کے سب دوستوں کا بڑی خوش دلی سے استقبال کرتی ہیں۔ شجیہ نے جس طرح اپنے سسر حمایت علی شاعر کی اپنے والد کی طرح خدمت کی اس کی مثال ملنا نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر بلند اقبال کو شجیہ جیسی بڑے دل کی سخی بیوی نہ ملی ہوتیں تو وہ اپنے والد کا اس طرح خیال نہ رکھ سکتے۔

میں حمایت علی شاعر سے جب بھی ملا ان کی شاعری اور شخصیت سے بہت متاثر ہوا کیونکہ وہ محبت کا ایک سمندر ہیں۔ ان کی شاعری پوری انسانیت کے لیے ان کا محبت نامہ ہے۔

میں بلند اقبال کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے حمایت علی شاعر کی سالگرہ کے موقع پر مجھے اس ایوارڈ کے لیے چنا۔ ’

حمایت علی شاعر اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی سیکولر سوچ ان کی ترقی پسند فکر ان کے انسانی حقوق کے آدرش اور ان کے امن کے خواب ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ وہ ہم سب کو تحریک دیتے رہیں گے کہ ہم ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے اور کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail