ایک ویڈیو پہلے بھی آئی تھی


وطن عزیز کے مطلع سیاست و صحافت پر جج ارشد ملک صاحب سے منسوب ویڈیو سکینڈل چھایا ہوا ہے۔ موصوف وہ ہستی جلیلہ ہیں۔ جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نیب کے ایک کیس میں سزا سنائی ہے۔ اور اس سزا کی بنا پر نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں پس دیوار زنداں ہیں اور ان کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنی جا رہی ہے۔ مذکورہ ویڈیو کو مریم نواز شریف نے پریس کانفرنس میں لوگوں کے سامنے رکھا۔ جس میں جج صاحب اپنے ہی دیے گئے فیصلے کو دباو، دھونس، بلیک میلنگ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے ملزم پارٹی کو اس فیصلے کے اثرات بد سے بچنے کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل سمجھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر پر آتے ہی حکومتی ترجمانوں نے شدومد سے اس کی اصلیت پر سوالات کے تیر برسانے شروع کیے اور اس کی فرانزک جانچ کرا نے کا دعوی کیا۔ لیکن اچانک ہی اس موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے اس بات پر آگئے کہ حکومت کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ مرہم نواز شریف کی پریس کانفرنس کے جواب میں جج صاحب نے شتابی سے اتوار کے روز دفتر کھول کر ایک پریس ریلیز جاری کی۔ جس میں ان کی گفتگو کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگایا۔

اور بعد ازاں اعلی عدلیہ سے اپنے خلاف ایکشن لینے پر اپنے بیان حلفی میں شریف خاندان پر بلیک میلنگ، دھونس، لالچ، رشوت کی پیشکش کرنے کا الزام لگایا۔ موصوف کا بیان حلفی تضادات کا مجموعہ اور اک طرح سے ان کے اپنے خلاف ئہ چارج شیٹ ہے۔ جس میں وہ بطور جج اپنے کنڈکٹ کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتے۔ لہکن ان تمام واقعاتی اور منطقی تضادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جج صاحب کی درخواست پر مریم نواز شریف چھ افراد پر مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عشروں پہلے ملتان میں جج صاحب کی مبینہ نامناسب ویڈیو بنانے والے کردار میاں طارق کو بیٹے سمیت ایف آئی اے نے گرفتار کر لیا ہے اور شتابی سے اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ انہی جج صاحب کے قلم سے سزا یافتہ نواز شریف کا کوئی نام نہیں لے رہا سوائے اپوزیشن کے۔

لیکن ویڈیو کس نے بنائی؟ کیوں بنائی؟ اس کو لوگوں کے سامنے کون لایا؟ کیوں لایا؟ یہ اور ان جیسے دیگر سوالوں کی بال کی کھال اتاری جا رہی ہے۔ اور ایف آئی اے اتنی متحرک ہے کہ لگتا ہے جیسے قومی غیرت داوپرلگی ہوئی ہے۔

اک طرف مار دھاڑ اور پکڑ دھکڑ کا یہ سماں ہے اور دوسری طرف کچھ عرصہ پہلے میڈیا پر آنے والی ایک ویڈیو پر مکمل سکوت طاری ہے جس میں چئرمین نیب کو اک عفیفہ سے خوش گپیوں میں مصروف دکھایا گیا تھا۔ وہ ویڈیو آن ائیر ہوئی۔ کچھ گھنٹے شدومد سے زیر بحث آئی اور پھر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح منظر نامے سے غائب ہوگئی یا کر دی گئی۔ مقام حیرت ہے کہ نہ اس ویڈیو کے فرانزک آڈٹ کا غلغلہ بلند ہوا۔ نہ اس ویڈیو کو بنانے والی ہستی سے پوچھ گچھ ہوئی جو کہ خود ویڈیو میں موجود ہیں۔

نہ اس کے پس پردہ محرکات تک پہنچنے کی سعی کی گئی۔ نہ محتسب اعلی سے سوال ہوا۔ نہ اس مبینہ بلیک میل گروہ کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس ویڈیو نے ٹارگٹ پورا کر لیا تھا تو اس کو طاق نسیاں پہ رکھ دیا گیا۔ اور نئی ویڈیو مقتدر حلقوں کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے تو اس کو فوکس کر کے اس سے جڑے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے۔ رہی بات عدل اور نظام عدل کی توقیر کی تو وہ نہ کل ہماری ترجیح تھی اور نہ آج ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).