فیل یا کم نمبر لینا جرم نہیں


مجھے یہ خبر پڑھ کہ دلی خوشی ہوئی کہ بھارت کے شہر بھوپال میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس نے دسویں جماعت میں فیل ہونے والے اپنے بیٹے کو مارنا تو دور کی بات ڈانٹا تک نہیں اور اُلٹا اس کے اعزاز میں ایک شاندار پارٹی کا اہتمام کر کے اس کے تمام دوستوں کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ اس پارٹی میں نہ صرف پٹاخے پھوڑے بلکہ پارٹی میں حصہ لینے والوں اور آنے والے مہمانوں میں مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔ اس فیل ہونے والے بچے کے والد کا کہنا تھا کہ میں اس طرح اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ آئندہ مزید محنت کرے۔ کیونکہ فیل ہونے کے بعد بچے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور اکثر فیل ہونے والے بچے نفسیاتی طور پراور گھریلو دباؤ کی وجہ سے انتہاہی قدم اٹھانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔

بس یہی بات ہمارے والدین کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی اَنا کی تسکین اور ناک اونچی کرنے کے عزم کا غصہ اپنے فیل یا کم نمبر حاصل کرنے والے بچے پر نا نکالیں، والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی مشین بنانا چاہتے ہیں۔ ماں باپ دونوں ہی بچوں پر زیادہ نمبر لانے کے لیے زور ڈالتے ہیں اور اپنے بچوں کو کسی سپر مین بنانے سے کم پر تو راضی نہی ہوتے، ہمیشہ پہلی پوزیشن اور زیادہ نمبر لینے کی دوڑ ہمارے نونہالوں کی زندگیوں میں کتنی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں اس کے بارے بالکل نہیں سوچتے۔

فیل ہونے یا کم نمبر حاصل کرنے والے بچے کی حوصلہ افزائی اور اصلاح کرنے کی بجائے سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کے علاوہ بار بار طنزیہ اور غصے سے بھر پور جملوں کا استعمال کرتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے تم سے زیادہ نمبر حاصل کیے، فلاں نے پہلی پوزیشن لی، تم ہو ہی نالائق، تم وقت ضائع کرتے ہو، تم نے ہماری امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔ ان تلخ جملوں اور طعنوں سے بچوں کے اندر احساس کمتری، عدم اعتماد، احساس گناہ، احساس شرمندگی کے جذبات و احساسات پیدا ہوتے ہیں۔

نتیجتاَ بچے میں ڈپریشن، اداسی اور مایوسی پیدا ہوتی ہے یا وہ پھر جارحانہ اورغصیلی طبعیت کا مالک بھی بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں بہتری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بچے میں جو صلاحتیں موجود ہوتی ہیں وہ ان سے بھی محروم ہو جاتا ہے حالانکہ بندہ یہ بات دعوے سے کہتا ہے کہ 95 فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جو پڑھنے کے نہایت شوقین ہوتے ہیں لیکن ظاہر بات ہے ہر ایک کی ذہنی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی۔

کبھی آپ نے سوچا کہ رزلٹ نکلنے سے پہلے جس بچے کی باتوں میں شوخی، لہجے میں معصومیت اور طبعیت میں ظرافت ہوتی ہے جس کی باتوں اور رویے سے گھر کے افراد میں خوشی کی لہریں دوڑ جایا کرتی ہیں۔ رزلٹ نکلنے اور فیل یا کم نمبر حاصل کرنے کے بعد ان کے رویوں میں تبدیلی اور اپنی جان کے دشمن بن بیٹھنے کے خیالات کیوں گردش کرنے لگتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ بچوں کو اس حد تک پہنچانے اور پڑھائی، نمبرات و پوزیشن کی دوڑ میں بچے کو نفسیاتی مریض بنانے میں ماں باپ کا بڑا کردار ہے۔

پتا نہیں اسناد میں اعلی نمبرات کو ہم نے قابلیت کی ضمانت کیوں سمجھ لیا ہے؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت کا معیار اچھے نتائج پر نہیں، کتاب میں موجود پوشیدہ علوم تک رسائی پر ہوتا ہے۔ علمی دانشمندی یہی ہے کہ نمبر کم ہوں یا زیادہ ’ذہانت کچھ اور ہی ہے، نہ کم نمبروں سے ذہانت کا پتہ چلتا ہے اور نہ زیادہ نمبروں سے ذہانت کی خوبی کا ادراک ہوتا ہے

والدین کی یہ خواہش کہ ان کا بچہ اچھا پڑھے، زیادہ نمبر حاصل کرے، پوزیشن لے اور یہ خواہش ناجائز بھی نہیں۔ مگر اس خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے بچوں کو روبوٹ بنا دینا اور ان سے ان کا بچپن چھین لینا، زیادہ نمبر لینے اور صرف ٹاپ پوزیشن کی تربیت اور حکم جاری کرنا اور بچے کی ناکامی یا کم نمبروں کو قبول نہ کرنا بالکل قابل قبول عمل نہیں۔ ہمیشہ اول نمبر لینے اور کامیابی حاصل کرنے کی اس ریس میں بعض اوقات بچہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور اسی خوف کی بِنا پر اپنی جان کو داؤ پہ لگا دیتا ہے۔

خدارہ اپنے بچوں پر رحم کیجئے اور انھیں اس ذہنی تشدد کا شکار اور نفسیاتی مریض مت بنائیں۔ کیونکہ ایک صحت مند دماغ ہی کچھ سیکھ سکے گا ورنہ تعلیم ٹھونسنے والا نظام لا حاصل ہے اور برائے مہربانی

اصلاح کا دَر بھی ہمیشہ کھلا رہنے دیں اور بچے کی اصلاح بھی خیر خواہی، پیار اور مشفقانہ روئیے سے کریں نہ کہ سوتن کا بچہ سمجھ کرسلوک کیا جائے۔ یہ والدین ہی پر منحصر ہے کہ اپنے بچے کو مستقبل کا آئن اسٹائن بنادیں یا چاہیں تو طعنوں کی موت مار دیں۔

والدین سے درخواست ہے کہ اپنے بچے کی مدد کیجیے۔ اگر نتیجہ بہت برا آیا ہے تو وقتی طور پر بچے کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ بعد میں کسی وقت آرام و سکون سے بیٹھ کر بچے سے گفتگو کیجیے۔ ہوسکتا ہے بچے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو۔ بچے کے مسائل سمجھنے کی کوشش کیجیے اور انہیں حل کرنے میں اس کی مدد کیجیے تاکہ آئندہ امتحانات میں بہتر نتائج دے سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).