’پاکستانی میڈیا کے ہر میڈیم کو زور یا زر سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘


رپورٹر

میڈیا اور میڈیا اونرشپ مانیٹر کے نام سے شائع کی گئی تازہ تحقیق میں پاکستان کو میڈیا پلورلزم کے حوالے سے ایک خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔

تحقیق کے مطابق پاکستانی میڈیا کے چار میں سے تین میڈیمز میں جو میڈیا ہاؤسز پچاس فیصد سے زیادہ ناظرین کو کور کرتے ہیں، وہ تینوں میڈیمز میں الگ الگ چار افراد تک محدود ہیں۔ جبکہ ایک میڈیم (ریڈیو) میں پہلے چار میڈیا ہاؤسز 35 فیصد ناظرین کو کور کرتے ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق ٹیلی ویژن چینلز میں جیو، اے آر وائی، پی ٹی وی اور سما ٹی وی جبکہ نیوزپیپرز میں جنگ، ایکسپریس، نوائے وقت اور خبریں اور آن لائن میڈیم میں ڈان ڈاٹ کام، جنگ گروپ، ایکسپریس گروپ اور ڈیلی پاکستان شامل ہیں جو پچاس فیصد سے زیادہ ناظرین کو کور کرتے ہیں۔

ریڈیو کیٹیگری میں پہلے چار ریڈیو چینلز 35 فیصد سامعین کو کور کرتے ہیں، جن میں ایف ایم 100 پاکستان، ریڈیو آواز، ایف ایم مست 103 اور چوتھے نمبر پر ایف ایم 101 اور ریڈیو پاکستان شامل ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق تینوں میڈیمز میں الگ الگ ملک کے پچاس فیصد سے زیادہ ناظرین کو صرف چار بڑے ذرائع ابلاغ کے ادارے کور کرتے ہیں اور اگر ان چار اداروں کے مالکان پر زور یا زر کے ذریعے دباؤ ڈالا جائے تو زیادہ تر عوام کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں وسیع بنیاد پر میڈیا کو مالکانہ حقوق چاہئیں تاکہ خبر کے ذرائع میں تنوع آ سکے۔

اس تحقیق میں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ خود اکثر میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے بارے میں پاکستانی عوام کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں

پاکستانی میڈیا کا تسلی بخش علاج

آزادی کا کوڑے دان: سوشل میڈیا

پیارا میڈیا اور آرمی چیف

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان میڈیا مالکان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے بیرونِ ملک تو اپنی تمام تفصیلات حکومتوں کے ساتھ شئیر کی ہیں لیکن پاکستان میں اُنھوں نے اپنے ذرائع آمدن اور شئیرز کے بارے میں کوئی معلومات شئیر نہیں کیں۔

میڈیا

یہ تحقیق پاکستان میں ایک ایسے وقت میں شائع کی گئی ہے، جب یہاں صحافتی برادری کے مطابق میڈیا پر سنگین قدغنیں لگی ہوئی ہیں

یہ تحقیق پاکستان میں ایک ایسے وقت میں شائع کی گئی ہے، جب یہاں صحافتی برادری کے مطابق میڈیا پر سنگین قدغنیں لگی ہوئی ہیں۔

میڈیا اور میڈیا اونرشپ مانیٹر کے نام سے جمعرات کو اسلام آباد میں تحقیق شائع کرتے وقت مباحثے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا، جس میں پاکستان کے نامور صحافیوں اور صحافی ٹرنڈ سیاستدانوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا ایک طاقتور میڈیم ہونے کے باوجود اب بھی کمزور ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میڈیا کا مالک کون ہیں اور کون در اصل چلارہا ہے؟

میڈیا اتنا طاقتور ہونے کے باوجود بھی اتنا کمزور ہوگیا ہے، کہ آپ کا چینل بند ہو جائے تو آپ اپنا چینل اُس وقت تک نہیں کھول سکتے ہیں، جب تک آپ معافی نہ مانگ لیں۔‘

اس مباحثے میں بات کرتے ہوئے خاتون صحافی فوزیہ شاہد نے پاکستانی میڈیا میں پیشہ ورانہ صحافیوں کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے ناتجربہ کار صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پیشہ ور صحافی کبھی بھی کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’جو جرنلسٹ ہے، وہ ڈیکٹیشن نہیں لے گا، ہمیں جس کمی کا سامنا ہے وہ پرفیشنل صحافیوں کی عدم موجودگی ہے۔‘

یہ تحقیق عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اور فریڈم نیٹ ورک پاکستان نے مشترکہ طور پر جاری کی ہے۔

فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں پالیسی بنانے والے، حکومت، میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کے لیے ایسا مواد آیا ہے، جس کو اُن کے بقول سامنے رکھ کر مستقبل کے لیے اچھی اور جامع پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp