حرف انکار، ضمیر اور آزاد عدالت


ہمارا ایک سب سے بڑا مسئلہ ”کنفیوژن“ ہے۔ دنیا کے ہر بڑے مسئلے پر ہمارے ہاں کنفیوژن پا یا جاتا ہے۔ اس کنفیوژن کا شکار صرف عوام ہی نہیں، بلکہ دانش ور، حکمران اشرافیہ، اکیڈمیا، سکا لرز اور لیڈرز بھی ہیں۔ اس کنفیوژن کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ایک بڑی مثال سیکولر ازم ہے۔ دنیا بھر کے جمہوری ممالک اور بڑی زبانوں کی ڈکشنریوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سیکولر ازم کا مطلب مذہبی رواداری ہے، اور انصاف کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایک ریاست تمام مذاہب کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔

مذہب اور عقیدے کی بنیادی پر اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو اس کنفیوژن میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ سیکولرازم لادینیت ہے۔ یہ کنفیوژن بڑھتے بڑھتے اب ایک مقدس حقیقت کا روپ دھار چکا ہے، اور اس کے خلاف بات کرنے والا قابل گردن زنی ہے۔ دوسری مثال سوشلزم ہے۔ پوری دنیا کے ماہر معاشیات، ماہر سماجیات، سائنس دان، اور دانشور اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سوشلزم ایک معاشی اور سیاسی فلسفہ ہے، جس کا مذہب سے کوئی تصادم نہیں۔

پاکستان میں سوشلزم کو کفر قرار دیا گیا ہے، اور یہ واحد اسلامی ملک ہے، جس کے ایک سو چودہ علما نے یہ تحریری فتوی دیا کہ سوشلزم اسلام کے خلاف ہے۔ اس کنفیوژن کو سرکاری آشیر باد سے مقدس حیثیت دے دی گئی۔ یہ کنفیوژن کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ آج کل اس کی ایک اور عظیم مثال ”آزاد عدلیہ“ کا تصور ہے۔ آزاد عدلیہ کیا ہوتی ہے، اور اسے کیسے کام کرنا چاہیے، اس سوال پر عوام، دانش ور اور حکمران اشرافیہ کی ایک بہت بڑی تعداد کنفیوژن کا شکار ہے۔

پاکستان آئینی طور پر ایک پارلیمانی جمہوریت ہے۔ ملک میں کثیر جماعتی پارلیمانی نظام ہے، جس کی بہت ساری روایات برطانیہ کی ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام سے مستعار لی گئی ہیں۔ آزاد اور خود مختار عدلیہ کا تصور اور نظام بھی بنیادی طور پر برطانیہ سے ہی آیا ہے۔ آزاد عدلیہ کا تصور کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ دنیا میں یہ ضرورت اور مطالبہ صدیوں سے موجود ہے۔ آزاد عدلیہ کی اس طویل کہانی کا آغاز تقریباً تین سو سال پہلے ہوتا ہے۔

تین سو سال قبل برطانیہ میں ایک ایسا مقدمہ سامنے آیا، جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ سن سولہ سو با نویں یہ مقدمہ نولز ٹرائل کے نام سے مشہور ہوا۔ برطانوی ہاؤس آف لارڈ نے اس مقدمے کے دو جج حضرات چیف جسٹس ہالٹ اور جسٹس ایری کو ہاؤس آف لارڈز کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے فیصلے کی وضاحت کرنے کا حکم دیا۔ دونوں جج حضرات کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے، تاہم انہوں نے اپنے فیصلے کی مزید وضاحت کرنے یا اس کی وجہ بتانے سے انکار کر دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے آج تک نہیں سنا کہ کسی جج سے یہ کہا گیا ہو کہ وہ اپنے دیے گئے فیصلے کی وجہ بتائے۔ میں قانونی طور پر ہاؤس آف لارڈز کی اس کمیٹی کے اس مطالبے کا پابند نہیں ہوں۔ جج نے یہ موقف اپنی خصوصی حیثیت یا بطور جج خود کو حاصل شدہ استثنا کے تحت نہیں اختیار کیا، بلکہ انہوں نے اپنے ایک ایسے فیصلے کی وضاحت یا صفائی پیش کرنے سے انکار کر دیا، جو حاکم وقت کو پسند نہیں تھا۔ ان دو جج حضرات نے یہ کام ایک ایسے دور میں کیا، جب بادشاہ سے اختلاف رکھنے والوں کو لندن ٹاور میں قید کیا جاتا تھا، یا ان کا سر قلم کیا جاتا تھا۔

ان جج حضرات نے محسوس کیا کہ اگر انہوں نے انکوائری ٹریبونل کو وضاحت پیش کی تو ان کی اپنی آزادی اور آنے والے ججوں کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ ان ججوں کے حرف انکار سے عدالتی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس انکار کے نتیجے میں آگے چل کر سترہ سو ایک کا ایکٹ پاس ہوا۔ اس ایکٹ کے تحت برطانوی ججوں کی خود مختاری اور آزادانہ حیثیت کو باقاعدہ قانون کا حصہ بنایا گیا۔ اس وقت تک برطانیہ میں ججوں کی تقرری اور خدمات جاری رکھنے کا انحصار حکمرانوں کی مرضی اور خوشنودی پر تھا۔

اس ایکٹ کے تحت ججوں کی تقرری، تنخواہ اور ان کی ملازمتوں کے تحفظ کی قانونی ضمانت فراہم کی گئی۔ اسی اصول و قانون کے زیر اثر برطانیہ سے آزادی کے بعد امریکہ اور کینیڈا میں ججوں کو آزادی اور خود مختاری کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔ اس نئے ایکٹ کے تحت جو اصول تسلیم کیے گئے ان کے مطابق پہلی چیز ججوں کی آزادانہ تقرری اور مدت ملازمت کا تحفظ تھا۔ ایک دفعہ ایک جج کا تقرر ہو گیا تو حکومت کا اس بات پر کوئی اختیار نہیں رہتا کہ وہ جج کتنا عرصہ تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔

بیشتر ممالک میں ایک جج تقرری کے بعد ریٹائرمنٹ تک اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت دوسرا اصول معاشی تحفظ کا تسلیم کیا گیا۔ کسی بھی سماج میں عدلیہ کی آزادی کے لیے ججوں کو معاشی سیکورٹی فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کامن لا میں شامل بیشتر ملکوں میں ججوں کی تنخواہ اور مراعات کی جانچ پڑتال کے لیے خود مختار کمیشن بنائے جاتے ہیں۔ ججوں کے معاوضے اور ان کے معاشی تحفظ کے لیے ایسا ٹھوس اور پر کشش بندو بست کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اچھے قانونی دماغ اور با کردار لوگ اس پیشے کی طرف آتے ہیں۔

عدلیہ کی آزادی کی کہانی کا سب سے اہم حصہ ججوں کی انتظامی اور فیصلہ کرنے کی آزادی ہے۔ آزاد عدلیہ کا مطلب یہ ہے کہ جج ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے آزاد ہوں۔ خصوصی طور پر حکومت کی دوسری دو شاخوں یعنی انتظامیہ اور مقننہ کے دباؤ سے محفوظ ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ جج حضرات خود اپنے ادارے کے دباؤ اور نا جائز اثر سے بھی آزاد ہوں۔ اگرچہ بیشتر ممالک میں حکومتیں نظام انصاف کو چلانے کے اخراجات ادا کرتی ہیں، لیکن ان کا اس بات پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا کہ جج کیسے کام کرتے ہیں، یا کون سا جج کون سے کیس کی سماعت کرتا ہے، اور سماعت کب ہوگی، اس سلسلے میں عدالت اپنی پالیسیوں اور طریقہ کار کا خود تعین کرتی ہے، سینیئر جج پورے عدالتی عمل کو سپر وائز کرنے کے باوجود فیصلے کے عمل کو متاثر نہیں کر سکتے، کیوں کہ دوسرے ساتھی ججوں کے اثر رسوخ سے آزاد ہونا بھی آزاد عدلیہ کی بنیادی شرط ہے۔

انتظامی آزادی کا سوال آزاد عدلیہ کے باب میں اہم ترین سوال ہے۔ اس سوال پر کامن لاء کے بیشتر ممالک میں جو اصول طے ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے مقدمات کی سماعت کے لیے جج کا انتخاب، سماعت کا شیڈول، مقدمات کی فہرست جن کی سماعت کی جانی ہے، کورٹ روم الاٹ کرنا اور دوسرے تمام فریضے عدالت کے اپنے کنٹرول میں ہونے ضروری ہیں۔ آزاد عدلیہ کے لیے ضروری ہے کہ جج حضرات فیصلے کرنے میں آزاد ہوں، اور ان پر کسی قسم کا اثر یا دباؤ نہ ہو۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ جج حضرات دباؤ ڈالنے والی تمام قوتوں یعنی حکومت، سیاست دان، صاحب اختیار ادارہ یا شخص، رشتہ دار، ہمسائے، مقد مے میں دلچسپی رکھنے والے فریقین، دوسرے ساتھی جج، چیف جسٹس، جوڈیشل باڈیز، بار ایسوسی ایشنز اور وکلا تنظیموں سے آزاد ہوں۔ ہمارے ہاں نظام انصاف فی الوقت اس طرح کی سہولیات اور تحفظ سے بہت دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی شخصیات اور با اثر ادارے عدلیہ پر دباؤ ڈالنے یا ان کی آزادی پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔

یہ صورت حال آئین اور قانون کے علاوہ سوچ اور مائنڈ سیٹ میں بنیادی تبدیلیوں کا تقاضا کرتی ہے، جو ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کے قیام کو یقینی بنا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلی کے ذریعے ایسے امیدواروں کا انتخاب ضروری ہے، جو جج ہونے کے معیار پر پورا اتر سکیں، جن میں حرف انکار کی جرت ہو، اور جو ضمیر کے بجائے قانون و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments