امریکا میں عمران خان کی ریلی کا فائنانسر کون ہے؟


پاکستان کے وزرائے اعظم جب امریکہ کینیڈا اور انگلینڈ سمیت دنیا میں کہیں بھی سرکاری دورہ کرتے ہیں تو عمومی اور روایتی طور پر اس ملک میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کی چند سو انتہائی با اثر شخصیات کو رات کے کھانے پر مدعو کیا جاتا ہے، خرچہ پاکستانی سرکار اٹھاتی ہے اور وزیر اعظم پاکستان ایک رسمی تقریر میں دہراتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے۔ تقریر سننے، کھانا کھانے اور رہنما کے ساتھ تصویر بنوانے کے بدلے رسماً ایسے موقعوں پر یہ مخیر اوورسیز پاکستانی دل کھول کر عطیات دے دیتے ہیں۔ اور اس طرح ایک پر تکلف تقریب تکلف کے ساتھ ہی انجام کو بھی پہنچ جاتی ہے۔

لیکن اس بار نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہزاروں پاکستانیوں سے خطاب کر کے ایک نئی روایت ڈالنے کے خواہشمند ہوئے ہیں اور اکیس جولائی بروز اتوار کو اس تقریب کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے کسی بھی وزیر اعظم کے لیے پہلا موقع ہو گا کہ وہ امریکہ میں ہزاروں پاکستانیوں سے مخاطب ہو۔

وائس آف امریکا کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق عمران خان کو پاکستانی نژاد امریکیوں کی جانب سے تجویز بھیجی گئی تھی کہ وہ امریکہ آ کر پاکستانیوں سے ملاقات کریں۔ جس پر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ غیر ملکی دورے کر کے پاکستانی حکومت کوئی فضول خرچی نہیں کرنا چاہتی۔ جس کے بعد انہیں مالی معاونت کی یقین دہانی کروائی گئی اور وہ مان گئے اور اب اس سلسلے میں ”سب کچھ ان کی خواہش کے مطابق ہو رہا ہے ان کی نگرانی میں ہے اور جیسا وہ چاہتے ہیں اسی قسم کے انتظامات کیے جا رہے ہیں“

پاکستانی حکومت اس ایونٹ کی کوئی ذمہ داری نہیں لے رہی۔ سرکاری سطح پر بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت امریکی دورے میں اسراف کے حق میں نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس عوامی خطاب کے لیے پرائم منسٹر ہاوس میں حکومتی سطح پر لوگوں کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وائس آف امریکہ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پرائم منسٹر ہاوس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے انچارج وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق ہیں۔ اس کمیٹی میں شاہ محمود قریشی زلفی بخاری علی زیدی اور دیگر ایسے ”ہائی آفیشلز“ شامل ہیں جو عمران خان کے ہمراہ امریکہ کے دورے پربھی ہوں گے۔

”میں جان بولٹن سے کئی بار کہہ چکا تھا کہ پاکستان کا افغانستان کے امن عمل میں اہم ترین کردار ہے۔ صدر ٹرمپ سے بھی کئی بار اس سال کے آغاز پر ملا اور یہی کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس لیے ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستانی وزیر اعظم کو امریکہ آنے کی دعوت دینا بات چیت کے لیے خوشگوار راستہ کھول سکتا ہے۔ “ امریکی انتظامیہ کو یہ تجویز دینے والے سید جاوید انور ہیں جو ٹیکساس میں رہنے والے پاکستانی نژاد امریکیوں میں ایک مخیر اور با اثر شخصیت ہیں۔ مڈلینڈ ٹیکساس میں انہیں آئل ٹائکون کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں گزشتہ سال ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کو فنڈنگ دے کر پاکستانی امریکن کے طور پر بھی ابھرے ہیں۔ اور اب پاکستانی امریکن کمیونٹی میں عمران خان کے عوامی خطاب کو مکمل طور پر فنڈ کرنے کے ان کے اعلان پر انہیں داد موصول ہو رہی ہے۔ وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا ”پہلے مجھے بتایا گیا کہ مسٹر مودی آ رہے ہیں اس لیے ابھی نہیں بلا سکتے اور پھر جون میں انہیں دعوت دی گئی مگر وہ آ نہ سکے۔ اور اب جولائی میں یہ سب ہو رہا ہے“۔

سید جاوید انور کے مطابق خان صاحب کو پاکستانی امریکیوں سے خطاب کرنے کا آئڈیا پسند آیا تھا۔ اور پھر انہوں نے احکامات جاری کیے ”ان کی کوآرڈینیشن تو ضروری ہے نا، پتہ نہیں ان کا کیا پروگرام ہے لیکن عمران روزانہ لوگوں سے بات کر رہے ہیں زلفی بخاری اور دیگر لوگوں سے ڈائریکٹ رابطے میں ہیں کیونکہ اوور آل تو انہی کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا ہے۔ “

دوسری طرف امریکہ میں سیاسی جلسہ منعقد کرنا پاکستان میں ایسا کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم انڈس نامی تھنک ٹینک سے منسلک عنبر جمیل کہتی ہیں کہ ”امریکی معاشرہ انتہائی سٹرکچرڈ اور اصولوں کی بنیاد پر قائم معاشرہ ہے جہاں احتساب اور شفافیت کا مظبوط نظام رائج ہے اس لیے اس قسم کی تقریب کے انعقاد سے پہلے ضروری ہے کہ اکاونٹس، ریگولیٹری اور قانونی ضابطے مکمل کیے جائیں اس لیے بہت سے مراحل ہیں جن سے گزر کر ہم اس ایونٹ کو منعقد کروا سکیں گے اس کے لیے پراجیکٹ مینیجمنٹ کے تمام اصول لاگو ہوں گے جن پر ہمیں عمل کرنا ہو گا۔ “

انڈس ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کا مشن پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو مظبوط بنانا ہے۔ جاوید انور کہتے ہیں کہ اس قسم کے تاریخی ایونٹ کو امریکہ میں ممکن اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھا کہ کسی تنظیم سے رابطہ کیا جاتا اور انڈس اس سلسلے میں بہترین انتخاب تھا۔ جس کے بعد سید جاوید انور اور انڈس نے مل کر ایسی جگہ منتخب کی جہاں کئی ہزار لوگ جمع کیے جا سکیں۔

جس جگہ کو عمران خان کی اس عوامی تقریب کے لیے چنا گیا ہے اسے آج کل کیپیٹل ون ایرینا کہتے ہیں ماضی میں یہ جگہ ایم سی آئی سینٹر اور پھر ویرائزن سنٹر کے ناموں سے بھی پہچانی جاتی تھی۔ انڈور یا چار دیواری میں قائم کیا گیا یہ ایرینا یا سٹیڈیم کھیلوں کے مقابلوں اور کانسرٹس وغیرہ کے لیے مشہور ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے بیچوں بیچ ایک میٹرو سٹیشن کے عین اوپر واقع اس سٹیڈیم میں ایک وقت میں بیس ہزار افراد سما سکتے ہیں۔ مائک ٹائیسن کی زندگی کا آخری باکسنگ مقابلہ یہیں منعقد ہوا تھا۔ لیڈی گاگا بیونسے جسٹن ٹمبر لیک جینیفر لوپیز اور کئی دیگر فنکار یہاں پرفارم کر چکے ہیں۔ دلائی لامہ مشیل اوبامہ جیسے عالمی رہنما اس ایرینا میں عوام سے روبرو ہو چکے ہیں۔ چار دیواری میں قائم یہ عالمی سطح کا وہ سٹیڈیم ہے جہاں ایک دن باسکٹ بال ہوتا ہے اور دوسرے دن اسی جگہ آپ کانسرٹ اور تھیٹر یا کسی رہنما کو مجمعے سے خطاب کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایک نجی جگہ ہے جہاں کرائے کی خطیر رقم کے عوض چند بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

سید جاوید انور کے مطابق اس جگہ کا کرایہ ”دو لاکھ ڈالر سے کچھ ہی کم ہے اور اس ایونٹ کی تمام لاگت قریباً پانچ لاکھ ڈالر ہے جس میں لائٹنگ ساونڈ سسٹم۔ بڑی ایل ای ڈی سکرینز، پراڈکشن، انشورنس اور سب سے بڑی بات سیکیورٹی شامل ہے“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2