امارات اور سعودی عرب کی جدا ہوتی راہیں


عرب اتحاد میں اختلافات کی پہلی خبر ماسکو سے آئی تھی اب نیویارک ٹائمز نے باقاعدہ اداریہ لکھ ساری کہانی کھل کر بیان کردی ہے۔ کویت اومان اور اردن تو اس پاگل پن کے پہلے ہی مخالف تھے اب نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں

متحدہ عرب امارات کے بالغ نظر حکمران ولی عہد شیخ محمد بن زائد النیہان نے جنگ یمن سے جان چھڑا کر امن کی راہ اپنائی ہے۔ یہی مشرقی وسطی میں امن وامان بحال کرنے کا راستہ ہے۔

‎کیا مشرقی وسطی کا سیاسی منظر بدل رہا ہے؟

‎عرب اتحادی اپنی راہیں الگ کررہے ہیں۔ کیا جنگ یمن پر متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب سے اپنی راہیں جدا کر رہا ہے؟ کیا متحدہ عرب امارات کا حکمران خاندان آل سعود سے الگ ہو رہا ہے؟ یمن پر جنگ مسلط کرنے اور “برادر” قطر کا غیر قانونی محاصرہ کرنے اور شام کی اسد حکومت کے خلاف 5 سالہ خانہ جنگی جیسی ناکام علاقائی مہم جوئی کے لیے دونوں ولی عہد یک جان دو قالب رہے ہیں۔ یمن پر جنگ مسلط کرنا ہویا قطر کی ناکہ بندی سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نام نہاد عرب اتحاد بنانے میں پیش پیش تھے جن میں انہیں صرف بحرین اور اس کے خلیفہ حکمران خاندان کی حمایت حاصل رہی ہے۔

شام کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں بحرین، متحدہ عرب امارات اور قطر بروئے کار تھے کہ ایک شام سعودی عرب نے قطر کو 15 ناروا مطالبات کی فہرست تھما دی حکم عدولی پر اس کا محاصرہ جاری ہے۔ ایک نہر کھود کر اس کا زمینی رابطہ ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ قطر اپنی کامیاب حکمت عملی ، ترکی اور ایران کی مدد سے ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے۔

‎جنگ یمن میں متحدہ عرب امارات کا عملی کردار سعودی عرب سے زیادہ رہا ہے۔ سعودی عرب یمن پر فضائی حملوں میں پیش پیش ہے۔ ‎جبکہ زمینی محاذ پر متحدہ عرب امارات کی افواج آگے آگے رہی ہیں۔ لیکن مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکامی کے بعد متحدہ عرب امارات کا جوش و خروش بتدریج مدھم پڑتا جا رہا ہے۔ اب متحدہ عرب امارات اس لا حاصل جنگ سے لاتعلق ہوتا جا رہا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یمنی انصاراللہ ، حوثی لڑاکے بھی متحدہ عرب امارات کو پسپائی کا راستہ فراہم کررہے ہیں جبکہ سعودی عرب کے ساتھ سارے محاذ گرم ہورہے ہیں۔ سعودی عرب پر ڈرون حملوں میں شدت آ رہی ہے۔ یمنی میزائلوں سے مختلف سعودی شہروں کو نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ فوجی تنصیبات اور ہوائی اڈے خصوصی ہدف ہیں۔ لیکن متحدہ عرب امارات کے ساتھ غیر علانیہ جنگ بند ہوچکی ہے۔

‎روسی فوجی ماہرین کا دعوی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے محاذ جنگ سے پسپائی شروع کردی ہے۔ یمنی بندرگاہ سے 20 ٹینک بحری جہاز کے ذریعے واپس منگوالیے ہیں۔ یہ ٹینک یمنی حکومت پر زمینی حملوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہے تھے واضح رہے کہ وسط جون میں حوثی افواج کے ترجمان نے دھمکی دی تھی کہ متحدہ عرب امارات جنگ سے باہر نہ نکلا تواس کے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے جائیں گے۔

‎اب تو عالم یہ ہے کہ منصور ہادی جس کے لیے یمن پر جنگ مسلط کی گئی تھی، اب ریاض اور عدن کی بجائے امریکہ منتقل ہوچکا ہے۔ اسی طرح اگر متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں اورہوائی اڈوں پر میزائیل اور ڈرون حملے شروع ہوجاتے تو چند دنوں میں سارے غیرملکی بھاگ جاتے اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا یہ مجموعہ عرب اتحاد خانہ ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔ ادھر برج الخلیفہ کی روشنیاں تاریکیوں میں ڈوبتیں ساتھ ہی متحدہ عرب امارات کا اقتصادی اور معاشی جاہ و جلال بھی سمندر برد ہو جاتا۔ اس لئے جنگ بندی اور لاحاصل یمن جنگ سے یک طرفہ علیحدگی ہی آبرومندانہ راستہ تھی جو متحدہ عرب امارات کے حکمران محمد بن زاید نے اپنایا ہے۔ امن کی راہ ہی متحدہ عرب امارات کے لئے خوشحالی کی شاہراہ ہو گی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سخت گیر اور سفاکانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جامعہ مدینہ سے فارغ التحصیل استاد نے دوران گفتگو ولی عہد کا پورا نام لینے پر تڑپ ‎ کہا اس کو “ابن سلمان” کہیں محمد (صلعم) کا متبرک نام اس فاسق و فاجر سے منسوب نہ کریں جو حجاز مقدس میں فحاشی اور بدکاری کے اڈے بنا رہا ہے، فسق و فجور اور جوئے خانے بنا رہا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے خبر نہیں دی اداریہ لکھا ہے کہ

“خطے کے لئے خطرناک اور ظالمانہ ، یمن میں جنگ جیتی نہیں جا سکتی، سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں جاری مداخلت میں سب سے بڑی زمینی فوج متحدہ عرب امارات کی ہے۔ حیرت انگیز پیش رفت یہ ہوئی ہے۔ امارات اپنی زیادہ تر فوج یمن سے نکال لی ہے۔

یمن میں خانہ جنگی اب انسانی المیہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یمن جنگ کے لئے عالمی سطح پر شدید نفرت کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ نے اسے دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دے کر اس کی سنگینی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ امارات کا اپنی فوج میں کمی لانا اس اعتراف کے مترادف ہے کہ یہ جنگ محض جان ومال کا ضیاع ہے۔ یہ اقدام عقل وخرد کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔

امارات نے یمن سے اپنی فوج نکالنے کا عوامی سطح پر اعلان نہیں کیا جس کی یقیناً وجہ یہی ہے کہ وہ سعودیوں کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ عرب امارات نے یمن میں 5000 دستے بھجوائے تھے جن کا مقصد اس لشکر کی تربیت تھا جو افواج اور ملیشیا کی صورت حوثیوں سے لڑائی کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ امارات نے نہ صرف اپنے دستے نکال لئے ہیں بلکہ حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر اور بحراحمر کے گرد حدیدہ کی بندرگاہ سے بھاری اسلحہ بھی ہٹا لیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں گزشتہ سال بڑی لڑائی لڑی گئی تھی۔ گزشتہ دسمبر میں اقوام متحدہ کی نیم دروں نیم بروں قسم کی ثالثی کا نتیجہ حدیدہ میں عارضی جنگ بندی کی صورت سامنے آیا تھا جس سے متحدہ عرب امارات کو ایک بہانہ یا جواز مل گیا اور افواج نکال لی گئیں۔

یہاں بھی اب مذاکرات کے ذریعے سال ہاسال کی خانہ جنگی میں کامیابی نہ ہونے کے باعث کوئی حل نکالنے کی کوشش جاری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں اس عسکری اتحاد میں زمینی کارروائی میں قائدانہ یا مرکزی کردار دراصل متحدہ عرب امارات کا تھا۔ سعودی عرب نے بھی اس کی قیادت میں کارروائی کی۔

یمن پرانی، نئی اور علاقائی کئی طرح کی لڑائیوں کا مرکب و مرکز بن چکا ہے۔ عرب بہار سے اس نے نمو پائی۔ مضبوط صدر کو نکال باہر کیا اور عوامی ریلا حوثی باغیوں کی شکل میں ایک نئی شکل سے ابھر کر سامنے آیا۔ جنوب کی طرف اس پیش قدمی کو روکنے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں عرب ریاستوں اوران کی حامی ملیشیاءکے لشکر دوسری جانب سے برآمد ہوئے تاکہ اس عوامی ریلے کو اپنی بادشاہتوں کی مضبوط فصیلوں سے ٹکرانے سے قبل ہی پاش پاش کردیں۔ امریکہ نے بادشاہوں کو تھپکی دی کہ وہ باغیوں کو کچل دینے میں ان کے ساتھ ہے۔

حوثیوں کی مدد کا الزام ایران پر لگایاگیا کہ وہ سعودی قیادت میں عسکری اتحاد کے خلاف باغیوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ اور انہیں تیرتفنگ سے نواز رہا ہے۔ یہ تنازعہ سعودی عرب اور ایران میں ایک نئی کشمکش اور خفیہ جنگ کا باعث بن گیا۔

سعودی عرب کی طرف سے بمباری نے غریب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہزاروں لاکھوں نہتے شہری، غریب لوگ اپنی جان بچانے، خوراک اور علاج کے لئے دربدر ہونے لگے۔ نقل مکانی کے اس سفر میں کئی دردناک داستانیں تاریخ کے سینے میں دفن ہوگئیں۔ حوثیوں اور ان کے خلاف برسرپیکار اتحاد دونوں پر ہی انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات دھرے گئے ہیں۔ جمال خشوگی کے لرزہ خیز قتل کی گونج بھی اسی تنازعے کے شور شرابہ میں ایک چیخ بن کر ابھری اور پھر دیگر چیخوں میں کہیں کھو گئی۔

پانچ سال میں پورے مشرق وسطی کو یورپ بنانے اور اس سے بھی آگے نکل جانے کے عزم کا اظہار کرنے والے جواں سال سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان یمن تنازعہ میں قائد بن کر سامنے آئے۔ ان پر کئی طرح کے الزامات عائد ہوئے۔

امریکی صدر نے کانگریس کی اپریل میں یمن میں مداخلت سے متعلق قرارداد کو ویٹو کردیا تھا۔ اب پھر سے ایک کوشش ہورہی ہے کہ سعودی عرب کو ہتھیار فراہم نہ کیے جائیں۔ امریکہ میں اس جنگ کے خلاف بڑھتی نفرت نے بھی متحدہ عرب امارات کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ اس آگ سے اپنا دامن بچالے۔

امریکہ اور ایران میں بڑھتی کشیدگی کے بیچوں بیچ یو اے ای نے اپنے دستے ملک واپس بلا لئے ہیں۔ جو بوقت ضرورت کام آسکیں گے۔ یمن کا تنازعہ مشرق وسطی میں جاری طاقت کی جنگ ہے۔ اختیار اور وسائل میں مناسب تقسیم کا منصفانہ انتظام ہی اس تنازعہ کا حل ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے منصفانہ مذاکرات درکار ہیں۔ یہ تجویز بھی دی جارہی ہے کہ سعودی عرب کو خود ہی پہل کرکے باغیوں سے مذاکرات کے ذریعے معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ نئی صورت حال میں بحرین کا حکمران خلیفہ خاندان اور مصر کا فرعون جدید جنرل سیسی ولی عہد ابن سلمان کے ساتھ رہ گئے ہیں۔ یا پھر نام نہاد مسلم فوجی اتحاد کے سربراہ جنرل راحیل شریف جا بجا سیلوٹ کرتے پھرتے ہیں۔ مشرقی وسطی سے آل سعود کی بساط پلٹ رہی ہے۔ دوست نگاہیں بدل رہے ہیں۔ اور تو اور ٹرمپ مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے۔ مال ہتھیائے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).