جون ایلیا اور بٹوارہ


میرا گمان ہے کہ برصغیر کا بٹوارہ اب ہمارے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اہمیت کھو چکا ہے- اس کی سادہ سی دلیل یہ ہے کہ وہ نسل جس نے بٹوارے کو اپنا موضوع بنایا، اب تقریباً کلاسیک کا رتبہ حاصل کر چکی ہے (منٹو، انتظار حسین، قرۃ العین حیدر وغیرہ)۔ ان میں سے منٹو نے جنوری 1955، قرۃ العین حیدر نے اگست 2007 اور انتظار حسین نے فروری 2016 میں انتقال کیا۔

فیض احمد فیض نے اگر ہندوستان کے دو لخت ہونے کو اپنی شاعری کا حصّہ بنایا تو اسے رومان کی چادر سے ڈھانپا کیوں کہ ہجرت ان کی واردات (issue) نہیں تھی، ان کا مسئلہ ideology تھا، آدرش تھا، جسے انہوں نے اپنے ملائم لہجے میں خوبی سے پیش کیا، پھر ان کا تعلق اسی مٹی سے تھا جہاں اب پاکستان ہے۔ اس لیے ان کی بے پناہ شاعری کی ستایش وہ بھی کرتے ہیں جو چیزوں کو جغرافیے کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں، نظریے یا آدرش کی نہیں… یہ کوئی معیوب بات نہیں، ہم زبان و ہم علاقہ ہونا ہمیشہ نفسیاتی سہارے کا سبب بنا ہے…

میں نے جون ایلیا کے ساتھ تھوڑا سا وقت بتایا ہے، میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ انہیں اس بات کا قلق تھا کہ ان کہ تخلیقی جوہر کو سراہا نہیں گیا، اس لیے نہیں کہ وہ خود کو کوئی بہت عظیم شاعر منوانا چاہتے تھے بلکہ اس لیے کہ ان کی باتوں کا ادراک معاشرے میں مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا تھا –

جون کی شاعری میں ترشی اور کاٹ کی دو بڑی sources ہیں (جن سے دیگر موضوعات جنم لیتے ہیں): پہلی، ان کی ذاتی زندگی کے بھونچال پرور معاملات؛ دوسرا، ہجرت سے جڑے مسائل جو ان کی تخلیقات میں وفور کے ساتھ پائے جاتے ہیں- لیکن ان کے مداح اور ناقدین نے دوسرے پہلو کو یکسر، شاید دانستہ نظر انداز کیا ہے اور اس کی وجہ جون کو نظر انداز کرنا نہیں بلکہ بٹوارے سے نظریں چرانا ہے

ذرا دیکھیے کون ایسے جمال آگیں شعر ہجرت کے غم میں کہہ سکتا ہے، صرف جون:

میں جو بگولہ بن کر بکھرا وقت کی پاگل آندھی میں

کیا میں تمہاری لہر نہیں ہوں گنگا جی اور جمنا جی

ہم ہیں رسوا کنِ دلّی و لکھنؤ، اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو

میر دلّی سے نکلے، گئے لکھنؤ، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

اب وہ اپنا مکان کس کا ہے

ہم تو اپنے مکاں کے تھے بھی نہیں

ہم جن گھروں کو چھوڑ کے آئے تھے ناگہاں

شکوے کی بات ہے وہ اگر خیریت سے ہیں

ہے نسیمِ بہار گرد آلود

خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

اور یہ شعر جس نے مجھے کئی برس سے بے تاب کیا ہوا ہے، اپنے متن کی وجہ سے نہیں، وجہ یہ ہے کہ میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک شاعر کا تخیل (imagination) اور اس کا ہنر (craft) کس طرح تخلیق کے وسیلے سے حیرت ناک استعارے تجسیم کرتا ہے، وہ استعارے جو آپ کو طویل عرصے تک تشریح کے صحرا میں گرد اڑانے پر مجبور کیے دیتے ہیں

میں، اور اس شہر کی طرف آتا؟

اسپِ وحشت نے بد رکابی کی

                              ہاے بد رکابی! واہ جون!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).