دولتِ اسلامیہ کے امریکی سنائپر رسلان مراٹووِچ ایسینوو کون ہیں؟


عدالت

شام میں حراست میں لیے گئے امریکی شہری پر امریکی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے دولتِ اسلامیہ کے ایک گروہ کے لیے سنائپر کے فرائض سرانجام دیے۔

رسلان مراٹووِچ ایسینوو پر الزام ہے کہ انھوں نے دہشت گردوں کے گروہ کی مالی امداد کی ہے اور دہشتگردوں کو تربیت دی ہے۔

رسلان کا تعلق قزاقستان سے ہے اور انھوں نے بعد میں امریکہ کی شہریت حاصل کی تھی۔ انھیں کرد افواج نے پکڑ کر ایف بی آئی کے حوالے کر دیا تھا۔

جمعرات کو رسلان کو امریکہ واپس لایا گیا اور نیویارک میں وفاقی جج کے سامنے پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

دولت اسلامیہ کے آخری گڑھ سے شہریوں کا انخلا

’اتحادی دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو واپس لیں‘

‘دولت اسلامیہ کو شکست‘، عروج و زوال کی کہانی

عراق، شام میں کتنے غیرملکی جنگجو باقی رہ گئے؟

انھیں دولت اسلامیہ کا پہلا جنگجو تصور کیا جا رہا ہے جنھیں شام سے امریکہ واپس لا کر ان پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ انھوں نے ابھی تک باضابطہ طور پر خود پر لگائے گئے الزامات کا اقرار یا اعتراف نہیں کیا۔

تفتیشی افسران کا کہنا ہے کہ دسمبر 2013 میں 42 سالہ رسلان نیویارک کے علاقے بروکلِن میں اپنا گھر چھوڑ کر ترکی کے دارالحکومت استنبول چلے گئے تھے۔

کورٹ کی دستاویزات کے مطابق وہاں سے انھوں نے شام کا سفر کیا اور دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے عہدے میں مسلسل ترقی کے بعد وہ امیر یا چیف بن گئے اور اسلحے کی ٹریننگ کروانے کی ذمہ داری ان کو سونپی گئی۔

تفتیشی حکام کا کہنا تھا کہ شام میں رہتے ہوئے رسلان امریکہ میں موجود لوگوں سے رابطے میں رہے اور 2015 میں بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا ‘ہم دنیا کی بدترین دہشتگرد جماعت ہیں جو وجود میں آئی۔’

کورٹ کی دستاویزات کے مطابق رسلان نے مبینہ طور پر امریکہ میں ایک شخص کو بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ انھیں یہ نہیں پتا تھا کہ وہ شخص نیویارک پولیس کا مخبر تھا۔

ایک بیان میں امریکی وکیل رچرڈ ڈوناہیو نے کہا ‘رسلان نے امریکہ کی شہریت حاصل کی تھی اور بروکلِن میں رہتے تھے۔ انھوں نے اس ملک کی پرواہ نہ کی جس نے انھیں شہریت دی اور دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر کے شام میں اس کے پرتشدد مقاصد سرانجام دیتے رہے اور دوسروں کو ان مقاصد کے لیے بھرتی کرنے کی کوشش کی۔’

‘ہمارے انسداد دہشتگردی کے استغاثہ اور قانون نافذ کرنے والے ساتھی دولتِ اسلامیہ کے پرتشدد ایجنڈے کی حمایت کرنے والے رسلان جیسے لوگوں کو سزا دلوانے کے لیے مسلسل کام کرتے رہیں گے۔’

سیریئن ڈیموکریٹک فورسز، جس کی پشت پناہی امریکہ کرتا ہے، میں شامل عرب اور کرد جنگجوؤں نے مارچ میں شام میں واقع دولتِ اسلامیہ کے آخری گڑھ کا قبضہ کر لیا اور وہاں سے رسلان کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔

دولتِ اسلامیہ

لگ بھگ 1000 کے قریب غیرملکی جنگجو جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کی تحویل میں ہیں اور ان میں سے کئی لوگوں کے آبائی ممالک نے ان کے واپس آنے اور ٹھوس ثبوت جمع کر کے انھیں سزا دلانے کے قابل ہونے سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے۔

فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی ممالک پر زور دیا کہ وہ جہادیوں کو واپس بلا کر انھیں کٹہرے میں لائیں ورنہ وہ شام سے فرار ہو کر دہشت گردی کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

مئی میں عراق نے چار فرانسیسی شہریوں کو دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے پھانسی کی سزا سنا دی۔ فرانس نے یہ کہہ کر ان شہریوں کو واپس بلانے سے انکار کر دیا کہ انھیں مقامی عدالت کا سامنا کرنا چاہیے۔

برطانیہ نے دو شہریوں کو وطن واپس بلانے سے انکار کر دیا کیونکہ ان پر الزام تھا کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے ‘دا بیٹیلز’ نامی گروہ کا حصہ تھے جس نے 27 مغربی یرغمالیوں کا سر قلم کیا۔

امریکہ نے اپنے کئی شہریوں کو واپس بلایا جس میں رسلان کے علاوہ دولتِ اسلامیہ کے پیروکاروں کو انگریزی پڑھانے والا ایک شخص، کئی ایسی خواتین جنھوں نے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں سے شادیاں کر رکھی تھیں اور ایک ایسا شخص بھی شامل تھا جسے کسی لڑائی کا حصہ بننے سے پہلے ہی پکڑ لیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp