ساغر صدیقی کی قبر کا احوال


ساغر صدیقی کی قبر میانی صاحب قبرستان لاہور میں واقع ہے۔

ساغر صدیقی کے ایک دوست سید م سلیم یزدانی نے ساغر سے بہت مشکل سے اس کی کی ابتدائی زندگی کے متعلق کچھ معلومات حاصل کی تھی۔ محمد عبداللہ قریشی مدیر ادبی دنیا نے ساغر کے آخری مجموعہ کلام ”مقتل گل“ میں یزدانی صاحب سے ساغر کی مختصر آپ بیتی کو لے کر کتاب میں شائع کردیا۔ ساغر نے یزدانی صاحب کے سوالوں کے جواب میں اپنی سرگزشت کچھ یوں بیان کی ”میری زندگی زنداں کی ایک کڑی ہے۔ 1928 ء کے کسی ماہ میں پیدا ہُوا ہوں۔گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارنپور اور انبالہ کی آغوش میں گزرا۔ انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت، کہاں اور کیسے پیدا ہُوا ہوں؟ یہ میرے لئے ”کسی مقدس سرائے کے غلیظ باڑھے میں“ کے سوا کچھ بھی نہیں ’یا‘ علی بابا چالیس چور ’کے پرسرار غار کی کہانی ہے۔ میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟

بہرحال شاید میری تسکین قلبی کے لیے کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو۔ اسی طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحب فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہُوا بازو، کالی کملی میں چھپائے، احساس کے اُلٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سُنا۔ البتہ ایک پرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔

1936 ء میں جب ذرا سوچ بوجھ کا زمانہ آیا تو ایک ویران مکان کی افسردہ دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے لکڑی کے پرانے صندوقوں میں دیمک چاٹتی ہوئی کتابیں دیکھیں۔ شاید ان کے پڑھنے والے 1857 ء کی گھٹاؤں میں ڈوب چکے تھے۔ ہاں رات کی تاریکی میں ایک کگر پر روشنی پھیلانے کی جستجو کرتا ہوا ایک دیا میرے مشاہدے کی پہلی چیز تھی، اس گھر میں مُجھ سے پہلے حاجی محمد حنیف اور خواجہ محمد حسین نام کے دو بزرگ آباد تھے۔ یہ کتابیں شاید انہیں کی تھیں۔ یہ بزرگ انبالہ شہر کی سماجی زندگی میں اچھی خاصی شہرت کے حامل تھے۔ اور ان کی پکی اور بیل بوٹوں والی قبر کا کوئی پتھر شاید آج بھی وہاں کے قبرستان کے کسی کونے میں موجود ہو۔

میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی۔ ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا، بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گذارشات کو میرے انداز بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر سے گزارا ہے۔ جو کچھ ملتا اس پر بخوشی قناعت کرتا۔

اس وقت کے تمام اردو روزناموں زمیندار، احسان، انقلاب کا مطالعہ میرا شغل تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو۔ میں نے شروع میں ناصر حجازی تخلص رکھا، تقریباً دوماہ بعد مجھے یہ تخلص واضح دکھائی نہ دیا۔ تب میں نے اپنا تخلص ساغر صدیقی پسند کیا، جواب تک موجود ہے۔ دس بارہ برس کی عمر میں، مَیں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا۔ میں چھوٹی عمر میں بھی بیس بائیس سال کا سنجیدہ نوجوان معلوم ہوتا تھا، میری عمر سولہ سال کی تھی جب 1944 ء میں امرتسر کی جامعہ السنہ شرقیہ ہال بازار میں جو کہ علوم شرقیہ کی بہترین درس گاہ تھی، ماہانہ طرحی مشاعرے ہوتے تھے، ان میں شرکت کرنا میرے لئے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی۔

1944 ء ہی میں اردو مجلس کے نام سے ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ ایک بزم قائم ہوئی۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی اس کے اغراض و مقاصد تھے۔ اس کے مشاعروں میں بھی باقاعدہ شریک ہوتا رہا ہوں۔ امرتسر میں عرشی امرتسری، شمس مینائی مرحوم، فرخ امرتسری مرزا مرزا ہمارے لئے ایرانی آسی امرتسری، مرزا بیضا خان مروی ایرانی، عیسی امرتسری اِن لوگوں نے میری صلاحیتوں اور خوبیوں کو بہت سراہا۔

1945 ء میں ولی صابر علیہ الرحمتہ کے مشہور کلیر کے عرس میں شرکت کی۔ کلیر میں عرس مبارک کے موقع پر تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان کے تمام اہل فن اکٹھے ہوتے تھے۔ عرس کے آخری ایام میں کاشانہ احباب سہارنپور ایک بزمِ شعروسخن منعقد کرتے تھے جس میں چیدہ چیدہ شعراکرام شامل ہوتے تھے۔ انور صابری نے اس محفل میں میرا تعارف کروا دیا۔ دلی میں نواب سائل قلعہ معلیٰ اردو کے نقش آخری تھے۔ ان کو کلام سنایا۔ تحسین کے پھول سمیٹے اور مرقد غالب کی زیارت کی۔

امرتسر میں دوسری جنگ عظیم کے باغی آزاد فوج کے تین جرنیلوں کے استقبال کے لئے جلیانوالہ باغ میں تقریبا تیس چالیس ہزار کے مجمع میں میں نے زندگی میں پہلی بار اسٹیج پر آکر نظمیں پڑھیں۔ اس جلسہ میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک شعر اور مصرع مجھے یاد ہے جو یوں تھا :

ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن

اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو

تہذیب نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو

امرتسر میں امین گیلانی پہلے ادبی دوست تھے۔ نفیس خلیلی مرحوم، ظہیر کاشمیری، احند راہی، مرزا جانباز سے نشست و برخاست رہی۔ ساحر لدھیانوی، نریش کمار شاد، لطیف انور گورداس پوری مرحوم جن کا میں عل۔ و ادب جے میدان میں بے حد احترام کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں۔ میری یاداشت کا ابتدائیہ ہیں۔ سید عطاءاللہ شاہ بخاری جیسے جید علماء کے دست شفقت سے سرفراز ہوا۔ ۔ ”

ساغر صدیقی پر اورینٹل کالج لاہور کے ایک طالب علم نے ایم اے کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے۔ اس مقالے سے ساغر کے حالات زندگی کے متعلق بہت سی معلومات ملتی ہے۔

تقسیم ہند کے بعد ساغر صدیقی لاہور آ گے اور پھر ہمیشہ اسی شہر میں رہے۔ لاہور آ کر آپ نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں بھی شرکت کی۔ بلکہ ساغر کی خواہش تھی کہ یہ ترانہ فلمایا جائے اور سینما میں بھی دکھایا جائے۔ ساغر نے فدا شاہ جہان پوری اور نعیم شاہ کے ساتھ مل کر ترانہ لکھا اور فلمایا اور ریجنٹ سینما میں یہ سکرین پر دکھایا گیا۔ ساغر نے فلم ”انقلاب کشمیر“ بھی بنائی۔ اس کے علاوہ ساغر ہفت روزہ ”تصویر“ کے اڈیٹر رہے اور پھر اس کے بند ہونے پر ہفت روزہ ”فلمی اخبار“ کا ڈیکلیریشن منظور کروایا۔

اس کے فقط تین شمارے ہی نکل سکے اور اس کا ڈیکلیریشن غلام جیلانی نیازی نے خرید لیا۔ پھر ساغر کے حالات آہستہ آہستہ خراب ہونا شروع ہوا ہوئے اور آخرکار ساغر صدیقی نشے کی لت کا شکار ہو گئے۔ مگر ساغر نے خود نشے کو اختیار نہیں کیا ڈاکٹر مالک رام لکھتے ہیں ”1952 ءکی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور خاص ہمدردی سے انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔

سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ساغر کے دوستوں میں سے بیشتر نے ان کے ساتھ‍ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اور اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو میں آنا جانا چھوڑ دیا۔

اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت ”بے خود“ رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور وہ بالکل آوارہ ہو گیا۔ نوبت بایں جا رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پانو۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔

” عبداللہ قریشی نے بھی اس کی گواہی دی ہے کہ لوگوں نے ساغر کا کلام چوری کیا وہ فرماتے ہیں“ فلمی دنیا کے لوگ اسے گھیر گھار کر لے جاتے ہیں اور اس کے ذہین دماغ کا رس گیتوں کی صورت میں نچوڑ لیتے ہیں۔ وہ خود اتنا بے پرواہ ہے کہ کوئی چیز سنبھال کر نہیں رکھتا۔ ”ساغر نے کئی معروف گیت لکھے جیسا کہ مہدی حسن کا گایا ہوا :

چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا ا ندھیرا ہے

بقول ڈاکٹر عصت اللہ زاہد 1958 ء میں ساغر نے جب اپنی یہ غزل :

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا

ایک مشاعرے میں پڑھی تو جگر صاحب نے یہ کہہ کر اپنی غزل پھاڑ دی کہ حاصل مشاعرہ غزل تو ساغر نے سنا دی ہے۔

اسی طرح ساغر کی یہ غزل بھی بے حد مشہور ہے :

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں

ساغر کا ایک اور ایسا کام ہے جو شاید اس کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ معروف کلام ”دما دم مست قلندر“ ساغر صدیقی کی ہی تخلیق ہے۔ ساغر نے کئی نعتیں بھی لکھیں جو ریڈیو پر چلیں مگر ساغر کو صرف ایک مرتبہ رائلٹی ملی وہ بھی تین ماہ ترسانے کے بعد۔ اگر ساغر کو اس کے کلام کی رائلٹی مل جاتی تو ساغر کو کبھی اتنی مشکلات نہ دیکھنی پڑتیں۔ ساغر اپنے نشے کی وجہ سے جیل میں بھی تین ماہ رہا اس کے دوست چاہتے تھے کہ اسے جیل سے پاگل خانے بھیج دیا جائے مگر مجسٹریٹ کے سامنے ساغر کے انکار پر ایسا نہ ہوسکا۔

یونس ادیب نے ساغر صدیقی کی دلچسپ سوانح عمری ”شکست ساغر“ کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب سے ساغر کی زندگی پر روشنی ڈلتی ہے۔ اس کتاب میں بیشتر ایسے واقعات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساغر اس بے حس معاشرہ میں رہ کر بھی اس جیسا نہیں بنا ساغر کو جب بھی کچھ ملتا تو وہ اس کو بانٹ دیتا۔ ساغر کے حالات کا قدرت اللہ شہاب صاحب کو بتایا گیا مگر انہوں نے اختیار کے باوجود کوئی مدد نہ کی۔ اسی طرح ڈاکٹر مالک رام نے ایک واقعہ درج کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساغر اگر چاہتا تو اپنی زندگی سنوار سکتا تھا مگر وہ موقع پرست نہ تھا، مالک رام لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے ساغر سے ملنے کی خواہش کی مگر جب اہلکار ساغر کو تلاش کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے تو بقول ڈاکٹر صاحب ساغر نے کہا ”

بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہش مند تھے اور ادھر یہ ”پگلا شاعر“ یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:

ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔ جب اہلکار اس پر بھی نہ ٹلے تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیا اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:

ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی

یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے

اور پولیس افسر سے کہا یہ صدر صاحب کو دینا وہ سمجھ جائیں گے۔ ”بعض کے مطابق ساغر نے یہ والا شعر لکھا تھا :

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

ساغر کا آخری وقت بہت مشکل میں گزرا۔ یونس ادیب نے ان الفاظ میں ساغر کے دینا سے جانے کا احوال لکھا ہے ”لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ یہ جولائی کے دوسرے ہفتے کی بات ہے۔ ایک دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری درواز ے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔

میں ٹریفک چیر کر اُس کی طرف بڑھا تو اُس نے دھونکی کی طرح چلتے ہوئے سانس کو روک کر مجھے دیکھا اور کہا ’میں تمہں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کُرتا کیوں پہن لیا ہے‘ اور چھڑی دکھا کر بولا سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔ یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اُکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکی تو دم لے کر کفن نما سفید کُرتے کو چھو کر بولا، مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔ میں نے جلدی سے پوچھا ’لیکن تم ہو کہاں؟ ‘ اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اُتار کر پرے پھینک دی اور بولا ’اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ ‘

ٹریفک کے شور میں ساغر کی آواز ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ پھر وہ میر ے آخری سوال کا جواب دیے بغیر لوہاری کے اندر اپنے لرزیدہ جسم کو کھینچ کر لے گیا۔

رات کو مجھے دیر تک نیند نہ آئی اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔ اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا۔ بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑ ے کے نیچے پڑ ے ہیں۔

میں کام جاری نہ رکھ سکا اور طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔ دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔

حالانکہ سارا شہر اُسے خون تھوکتے ہوئے اس طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے لوگ روسن اکھاڑ ے میں جمع ہوں اور خونیں منظر دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہوں۔ جس میں ساغر کفن پہنے بوجھل سانسوں کے ساتھ نیم جان ہو کر اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا۔ اُس کے کفن پر خون کے دھبے اس طرح جگمگا رہے تھے جیسے خنجر بکف جلاد اُس پر ٹوٹ پڑ ے ہوں۔ اس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارہ کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔

اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھے لیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کُرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔

اسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟ اُس کی آخری آرام گاہ پر لگا ہوا ایک کتبہ پڑھ رہا ہوں۔ جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں

’ عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اُس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔ ‘

لیکن اُس کے کسی مداح نے اُس کے کتبے پر یہ الفاظ لکھوائے ہوئے ہیں ’ساغر کا قاتل یہ معاشرہ ہے‘ اور نیچے ساغر کا یہ شعر درج ہے۔

سُنا ہے اب تلک واں سونے والے چونک اُٹھتے ہیں

صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے۔ ”

ساغر کی قبر پر کچھ عرصہ قبل حاضری دی۔ آج قبر کی حالت بہت بدل چکی ہے۔ اب تو یہاں میلہ بھی لگتا ہے۔ کیسا عجب ہے یہ سماج کہ اپنی زندگی میں سڑکوں پر ننگے پیر پھرنا والا یہ درویش جو اکثر خالی پیٹ سوتا تھا آج اس کی قبر پر لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ ناجانے اس کے مہربان دوست اس کی زندگی میں کہاں تھے۔ انہوں نے کیوں ساغر کو نشے سے نہ بچایا۔ ساغر کے قتل میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ میں کافی دیر ساغر کی قبر سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔

ساغر ویسے بھی میرا محبوب شاعر ہے۔ وہاں پر ایسا محسوس ہوا جیسے ساغر کی زندگی کی فلم آنکھوں کے سامنے چلنا شروع ہو گئی ہو۔ خون تھوکتا ساغر اور اس پر ہنستے لوگ۔ ساغر 1974 ء میں مرا مگر ہم تو اب تلک نہ بدلے ہم نے کئی ساغر اسی طرح مار دیے۔ آج اس کی قبر پر ٹائلیں ہیں مگر اس کا ساغر کو کیا فیض وہ تو تمام عمر فٹ پاتھ پر رُلتا رہا۔ یہ سچ ہے کہ ساغر کا اپنی بربادی میں خود بھی بڑا ہاتھ ہے مگر اس کو اس حال تک پہچانے والے اس کے گرد پائے جانے والے درندے تھے، جنہوں نے دوستی جیسے مقدس رشتے کو داغ دار کیا۔ جنہوں نے ساغر کے کلام سے کمائے مال سے تا عمر عیش کی اور وہ آج بھی اس کی قبر پر فاتحہ تک پڑھنے کے روادار نہیں۔

ساغر نے اپنے متعلق سچ کہا تھا

میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).