سریے والا وڈیرہ


سنا ہے کسی نے چنگیز خان سے پوچھا کہ کیا زندگی میں کبھی کسی پے ترس بھی آیا؟

چنگیز خان نے جواب دیا، ہاں ایک بار۔ دریا کنارے ایک ماں کو دہائی دیتے دیکھا۔ اس کا شیر خوار بچہ دریا میں گر کے بہہ رہا تھا۔ مجھے بہت ترس آیا۔

سوال کرنے والے نے مودبانہ پھر پوچھا کہ تو اپ نے کیا کیا؟

چنگیز خان نے کہا، رحم۔ میں نے نیزہ بڑھا کے بچے کے آر پار کیا اور بچہ نکال کے ماں کی گود میں ڈال دیا۔

واہ رے۔ خان تیری رحم دلی!

صدیاں گزر چکیں۔ لیکن اج بھی سرداروں، حاکموں اور خانوں کی سوچ نہیں بدلی۔ بے بس، کمزور اور غریب کو پیر تلے رکھنے والی ذہنیت اج بھی مکمل رعونت سے موجود ہے۔

کل سروں کے مینار بنانے والا۔ آج زمانے گزر جانے کے بعد بھی ظلم کی علامت کے طور پے زندہ ہے تو شاید آج کے دور میں ”سریے والا وڈیرہ“ لاکھ انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرے، اس کے قہقہے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ رحم کا نہیں قہر کا پرستار ہے اور تاریخ اسے بھی نہیں بھلائے گی۔

ظلم ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں ہوتا آیا ہے لیکن تاریخ نے ان ظالموں کو امر کر دیا جو بطور حاکم خلقِ خدا کے لئے باعثِ ایذا بنے۔ جنھوں نے لب کشائی پے زن بچہ کوہلو میں پلوا دیا۔ اذنِ حق کے تقاضے پر گدھے کی کھال میں سی کے تندور میں پھنکوا دیا یا دیواروں میں چنوا دیا۔

ایذا دہی کے طریقے اور اوزار بھی قدیم دور سے رائج ہیں۔

لیکن اج تو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی حفاظت اور احترام کے لئے تنظیمیں موجود ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر اُف ہیومن رائٹس موجود ہے جسے ہر وہ ملک تسلیم کرتا ہے جو اقوام متحدہ کا ممبر ہے۔

پاکستان۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اقوام متحدہ کا رکن ہے، جو ایک اسلامی ملک تو ہمیشہ سے تھا لیکن اب تو خالصتاً ”ریاستِ مدینہ“ کی جدید مثال بننے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی قوم اسی خواب کی تکمیل دیکھنے کو بے تاب ہے۔ لیکن ایسے میں ”سرئیے والا وڈیرہ“ اس ثابت شدہ سنگین الزام کے ساتھ اگر اپنے کیے پر شرمسار ہونے کے بجائے اپنے احباب اور سیاسی ساتھیوں کے ہمراہ قہقے لگاتا نظر ائے تو کیا یہ امید رکھی جائے کہ عوام اس سوچ کے حامل صاحبِ اقتدار عناصر کے عتاب سے محفوظ رہے گی؟ سزا تو ایک جانب۔ جب انسانی حقوق کے لئے فوکل پرسن ہی مقرر کر دیا گیا ہے تو بس یہی کہہ سکتے ہیں۔

شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی

صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).