قربان ہونے والے کی آپ بیتی


\"husnain

میرا تعلق ایک پہاڑی علاقے سے تھا۔ وہاں بہت سبزہ ہوتا تھا۔ جب میں بہت چھوٹا سا تھا تو میرے ماں باپ نے مجھے سیدھی اور نوکیلی چٹانوں پر چڑھنے اور اترنے کے گر بھی سکھا دئیے تھے۔ میرے سب بہن بھائی اور میں وہاں میلوں دوڑتے پھرتے۔ پھر ہماری ماں کی آواز پر ہم جلدی سے اس کے پاس پہنچ جاتے۔ موسم جب ٹھنڈا ہوتا تو ہماری ماں ہم سب کو اپنے آس پاس جمع کر لیتی، ہم لوگ جب اکٹھے ہوتے تو ہمیں ٹھنڈ لگنا بند ہو جاتی۔ پھر ہمارے جسم پر بڑے بڑے بال بھی اسی لیے تھے کہ ہمیں موسم کی شدت سے محفوظ رکھ سکیں۔ گرم موسم میں ہم پانی کی تلاش میں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک گھومتے پھرتے اور جہاں کہیں کوئی جھرنا نظر آتا ہم خوب سیر ہو کر پانی پی لیتے۔

اندھیرے کا وقت ہم لوگ اس دو ٹانگوں والے جانور کے یہاں گزارتے تھے جو ہمیں کبھی کبھی خوراک بھی دیتا تھا۔ وہ ہم سے زیادہ طاقتور تھا۔ وہ ہماری طرح چار ٹانگوں پر چلنا پسند نہیں کرتا تھا اور بڑے مزے سے دو ٹانگیں استعمال میں لاتا تھا۔ جب میں چھوٹا تھا تو میں نے ماں سے کئی بار پوچھا تھا کہ یہ جانور ایسے کیوں چلتا ہے، وہ یہی کہتی تھی کہ طاقتور کی چال پر سوال نہیں کیا جا سکتا، اس کے ارادے دیکھو اور بس اپنے آپ کو بچاؤ، اگر تم بچ سکو تو اس سوال کا یہی جواب اپنے بچوں کو بھی دے دینا۔ میں بہت حیران ہوتا تھا۔ اس کی اوپر والی دو ٹانگیں تو بالکل مختلف تھیں اور ان کی مدد سے وہ بہت سے کام بھی کرتا رہتا تھا، اس کا کھانا پینا، ہمیں مارنا یا پیار کرنا، ہمارے آگے سبزہ یا پانی رکھنا سب انہیں ٹانگوں سے ہوتا تھا۔ میری ماں اور باپ کے گلے میں سرخ رنگ کا پھندا بھی اس نے انہیں ٹانگوں سے ڈالا تھا۔ رات کو وہ انہیں ایک جگہ کھڑا کر دیتا تھا، وہ گردن ہلاتے تو انہیں درد ہوتا، اسی لیے وہ ساری رات ایک جگہ ہی کھڑے رہتے اور ہم سارے بچے بھی وہیں ان کے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ صبح وہ انہیں کھول دیتا تو ہم سب بھی خوشی سے چھلانگیں مارتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ دوڑتے پھرتے تھے۔

\"goat-1\"

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ وہ دو ٹانگوں والا جانور اپنے جیسے چار پانچ اور جانوروں کے ساتھ وہاں آیا اور ہم سب کے منہ کھول کھول کر کچھ دیکھنے لگا۔ پتہ نہیں میرے ماں باپ کے منہ میں کیا ایسا نظر آیا کہ انہیں اور بہت سے دوسرے بچوں کے ماں باپ کو انہوں نے ایک طرف الگ اکٹھا کر دیا، میں نے بہت شور مچایا، ماں کو آوازیں دیں، دوسرے بچے بھی شور مچا رہے تھے لیکن کوئی بھی ادھر سے ادھر آ یا جا نہیں سکتا تھا۔ میرے باپ کی باری تھوڑی دیر میں آئی تھی تو اس نے ہمیں بتایا کہ اس کے ماں باپ کو بھی یہ جانور ایسے ہی لے گئے تھے۔ وہ کہتا تھا کہ یہ لوگ شاید ہمیں مار کر کھا جائیں گے۔ عجیب سی بات تھی۔

یہ دو ٹانگوں والے ہمیں کیسے مار سکتے ہیں۔ نہ ان کے سینگ ہیں، نہ ان کے دانت تیز ہیں، نہ انہوں نے کسی کو ہمارے سامنے مارا ہے، شاید میرا باپ جھوٹ بولتا تھا۔ مجھے اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔ میں نے اپنے باپ کے ایک اور دوست سے پوچھا، اس کو ابھی لے کر نہیں گئے تھے مگر وہ جانتا تھا کہ اس کی باری آنی ہے، وہ خوفزدہ کھڑا تھا، اس نے چھوٹا سا جواب دیا۔ ”ان کے پاؤں سونگھو“۔ میں کوشش کر کے ان میں سے ایک کے نزدیک گیا اور اس کے پاؤں سونگھے، اس نے پاؤں پر جو چیز باندھی ہوئی تھی اس میں سے ہماری ہی کھال کے جیسی خوشبو آ رہی تھی۔ میں دوڑتا ہوا آیا اور باپ کے دوست کو بتایا کہ پتہ نہیں کیا ہے لیکن اس کے پاؤں پر کوئی چیز چڑھی ہے جس میں سے ہماری خوشبو آتی ہے۔ وہ اتنی پریشانی میں بھی ہنسنے لگا۔ وہ کہتا تھا کہ گھامڑ، یہ ہمیں کھانے کے لیے اپنے پاس رکھتے ہیں اور جب ہمیں مار دیتے ہیں تو ہماری کھال کو الگ الگ طریقے سے پاؤں میں باندھ لیتے ہیں، اسے جوتا کہتے ہیں۔ یہ انہیں مٹی اور پتھروں سے بچاتا ہے، جیسے ہمارے پاؤں میں شروع سے جوتے فٹ ہوتے ہیں، ان کے یہاں ایسا نہیں ہوتا۔

اب مجھے اپنے باپ کی بات کا یقین ہو چکا تھا اور میں باقاعدہ خوف محسوس کر رہا تھا۔ میری آنکھیں خوف سے باہر نکل آئیں اور میں زور زور سے چلا رہا تھا۔ لیکن جب میں نے آس پاس دیکھا تو سارے چھوٹے بچے میری والی حرکتیں ہی کر رہے تھے۔ شاید انہوں نے بھی یہ جوتے والی اور کھانے والی بات سن لی تھی۔ لیکن وہ دو ٹانگوں والے بڑے آرام سے اپنا کام کر رہے تھے۔ آخر جب ایک بھی میرے ماں باپ کے جتنی عمر کا نہ بچ سکا تو ان سب کو لے کر وہ چلے گئے۔ بہت دور ایک بڑا سا جانور خاموش کھڑا تھا، اس کے چار بڑے بڑے پاؤں تھے اور ایسے تھے جیسے کوئی بڑا سا پتھر ہو کالے رنگ کا۔ اس جانور کا پیٹ کھل جاتا تھا، انہوں نے اس کے پیٹ کو کھولا اور میرے ماں باپ اور ان کے ساتھیوں کو اس میں ڈال دیا۔ میں دوبارہ شور مچانے لگا کہ یہ جانور میرے ماں باپ کو کھا گیا ہے، پھر مجھے ایک ساتھی نے بتایا کہ یہ پچھلے سال بھی ہوا تھا، یہ جانور بہت تیز دوڑتا ہے اور کھاتا بھی کسی کو نہیں ہے، ثبوت کے طور پر اس نے مجھے دکھایا کہ یہ دو ٹانگوں والے پچھلے برس بھی اسی پر سوار آئے تھے اور اب کی بار بھی اسی کے پیٹ میں بیٹھ کر جا رہے ہیں۔ عجیب سی بات تھی۔ سمجھ میں آ گئی تو چپ ہو گیا۔ ماں باپ پھر واپس نہیں آئے۔

بہت سے موسم گزر گئے۔ دو ٹانگوں والا بس وہی جانور آتا رہا جو کبھی کبھی ہمیں سبز کھانا اور پانی دے دیتا تھا۔ جب باہر گرم موسم ہوتا یا اوپر سے پانی برس رہا ہوتا ان دنوں میں ہم باہر نہیں نکل سکتے تھے، تب وہ ہمیں خود سب کچھ لا کر دیتا تھا۔ پھر میرے بھی دو بچے ہو گئے۔ وہ تھوڑے بڑے ہوئے تو میں نے انہیں سب کچھ تفصیل سے سمجھا دیا۔ وہ بہت حیران ہوئے لیکن سمجھ گئے، کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔

اب کی دفعہ وہی دو ٹانگوں والے آئے، کسی کا منہ بھی نہیں کھولا، مجھے میرے بچوں سمیت اسی بڑے سے جانور کے پیٹ میں ڈالا اور روانہ ہو گئے۔ وہ جانور بہت تیز دوڑتا تھا اور بہت عجیب سی آوازیں بھی نکالتا تھا۔ ہم سب شدید گرم موسم میں ایک دوسرے سے چپکے کھڑے تھے۔ پانی کہیں دور دور تک نہیں تھا۔ اس جانور کا پیٹ اتنا گرم تھا کہ میرے ساتھ کے دو تین تو وہیں تھک کر لیٹ گئے۔ پھر جب ہمیں اس کے پیٹ سے نکالا تو وہ نہیں اٹھے۔ شاید وہ بوڑھے ہو گئے تھے۔ ہمارے یہاں کے بوڑھے بھی ایسے ہی ایک دن لیٹ جاتے تھے اور دوبارہ نہیں اٹھتے تھے۔

ہم سب کو ایک بڑی سی جگہ لے جا کر رکھ دیا گیا۔ یہاں دو ٹانگوں والے جانور ہم سے بھی زیادہ تھے۔ ہمیں سبز کھانا اور پانی بھی دیا لیکن وہ اتنی گرم جگہ تھی کہ میں جو کچھ بھی کھاتا وہ اندر ہی نہیں جاتا تھا۔ میرے بچوں کو ایک اور دو ٹانگوں والا لے گیا تھا، انہوں نے بھی جاتے ہوئے بہت آوازیں نکالیں مگر میں جانتا تھا کہ انہوں نے چلے ہی جانا ہے، کسی بھی دو ٹانگوں والے کے پاس، تو میں چپ رہا۔ ان کی آنکھیں دور تک مڑ مڑ کر مجھے ڈھونڈتی رہیں۔ پھر وہ اور دور چلے گئے۔

\"goat-kid\"

دو تین بار اندھیرا ہوا، پھر روشنی نکلی، میں اندھیرا ہونے پر کچھ کھا لیتا تھا، روشنی بہت زیادہ ہوتی تھی اس میں بس پانی پیتا رہتا۔ پھر ایک دن ایک دو ٹانگوں والا آیا۔ اس کے بچے بھی اسی کے جیسے تھے۔ لیکن چھوٹے چھوٹے تھے، بالکل میرے بچوں کی طرح لگتے تھے۔ اس کے بچوں نے مجھے بہت پیار سے دیکھا، اپنی اوپر والی دو ٹانگیں میرے اوپر پھیریں، میں بہت خوش ہوا۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے ان دو ٹانگوں والوں سے ایسے ہی ڈرایا گیا تھا، یہ تو بہت محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان بچوں نے مجھے اور میرے ایک اور ساتھی کو اپنے ساتھ لیا اور وہ بڑا دو ٹانگوں والا ہم سب کو لے کر چل پڑا۔

بچوں نے لے جا کر مجھے بہت مزے کا سبز کھانا کھلایا۔ جو پانی انہوں نے پلایا وہ ایسا ہی ٹھنڈا تھا جیسا وہاں پہاڑوں پر ہوتا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور مختلف آوازیں نکالتے تھے۔ اندھیرا ہونے پر دو ٹانگوں والے بچوں نے ہمارے گلے میں پھندے ڈالے اور ہمیں لے کر نکل پڑے۔ بہت سے دوسرے بچے بھی ہمارے جیسے جانوروں کو لیے گھوم رہے تھے۔ بچے ہمیں دوڑا رہے تھے، مزے مزے کے سبز کھانے کھلا رہے تھے، ایک بچہ کوئی نیا سا کھانا لایا، چھوٹے چھوٹے بیج تھے کوئی، وہ بھی ہم دونوں کھا گئے۔ پھر انہوں نے ہم سب جانوروں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے دوڑایا، خود بھی ساتھ ساتھ دوڑتے رہے۔ میں اب بہت تھکا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ انہوں نے ہمیں کچھ پانی پلایا اور وہیں کسی جگہ سے کوئی رنگدار سی کھال کے ٹکڑے خرید کر ہمیں پہنا دئیے۔ اب ہم دونوں کے اوپر بہت سے رنگ کی کھال تھی، ہم ایسے چمک رہے تھے جیسے پہاڑوں میں کبھی کبھی زمین چمکتی تھی۔ یہ دو ٹانگوں والوں کے بچے زیادہ اچھے ہوتے ہیں، یہ ہمارا خیال بھی زیادہ رکھتے ہیں۔ میں اپنے ساتھ والے سے یہ سب کچھ کہہ رہا تھا۔

کچھ اندھیرے اور روشنیوں تک اتنے اچھے کھانے کھا کر میں بہت آرام مانگنے لگا تھا۔ اب مجھ سے چلا بھی نہیں جاتا تھا اور میں ہر وقت بیٹھا رہتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ بچے بہت اچھے ہیں اور یہ ہمیں اپنے پاس رکھنے کے لیے لائے ہیں۔ میں یہاں بہت خوش تھا، مجھ جیسا دوسرا بھی ہر وقت کھاتا رہتا تھا اور بے غم تھا۔

پھر ایک دن روشنی ہوئی تو بڑا دو ٹانگوں والا ہمارے پاس آیا، اس کے ساتھ دو اس کے جیسے اور بھی تھے۔ انہوں نے ہمارے سامنے بہت سارا پانی رکھ دیا۔ میں نے بھی پی لیا اور مجھ جیسا دوسرا بھی پی گیا۔ وہ جو دو ساتھ آئے تھے، انہوں نے مجھ جیسے دوسرے کو پکڑا اور نیچے لٹا دیا۔ وہ اس کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئے تھے۔ مجھے یہ اب بہت عجیب لگ رہا تھا لیکن میں سمجھا کہ یہ ہمیں کوئی کھانا کھلانا چاہتے ہیں۔ اس کی ٹانگیں بھی انہوں نے پکڑ لی تھیں اور اس کا منہ دوسری طرف کو کیا ہوا تھا۔ وہ عجیب سی ڈری ہوئی آوازیں نکال رہا تھا۔ اب مجھے بھی ڈر لگا، میں نے بچوں کو آوازیں دیں۔ بہت زیادہ آوازیں دیں تو وہ باہر نکل آئے۔

وہ بہت خوشی سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ انہیں خوش دیکھ کر مجھے بہت عجیب سا لگا۔ ادھر مجھ جیسے دوسرے نے ایک عجیب سی آواز نکالی، میں نے ادھر دیکھا تو وہ اسے شکار کر چکے تھے۔ ان کے دانت بھی ایسے نہیں تھے، نہ ان کے سینگ تھے، لیکن اوپر کی دو ٹانگوں میں انہوں نے کوئی چمکتی ہوئی چیز پکڑی ہوئی تھی جس سے وہ شکار کر چکے تھے۔ مجھ جیسے دوسرے کی زبان دانتوں سے نکل کر ایک طرف دب چکی تھی، اس کی آنکھیں بس ایک طرف کو دیکھتی تھیں اور اس کی ٹانگوں نے ایک دو بار جھٹکا کھایا لیکن پھر وہ آرام سے لیٹ چکا تھا۔ اس کا خون اس کے اردگرد بکھرا ہوا تھا اور وہ دوبارہ نہ اٹھنے کے لیے لیٹ چکا تھا۔ بچے تالیاں بجا رہے تھے۔

اب وہ دونوں میری طرف آئے، میں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے مجھے بھی ویسے ہی لٹا دیا۔ مجھے میرے باپ کی بات یاد آئی۔ وہ ٹھیک کہتا تھا۔ میں نے بچوں کو آواز دی، وہ قریب آ گئے۔ میں خوش ہو گیا کہ یہ مجھے بچا لیں گے۔ لیکن ان میں سے ایک نے میری دو ٹانگیں پکڑ لیں اور ایک نے مجھے کانوں سے پکڑ کر زمین سے لگا دیا۔ میں عجیب سی آوازیں نکالنے لگا، وہ بچے اسی دو ٹانگوں والے جانور کے تھے جس کے بارے میں مجھے ماں نے خبردار کیا تھا، کہتی تھی کہ طاقتور کی چال پر سوال نہیں کیا جا سکتا، اس کے ارادے دیکھو اور بس اپنے آپ کو بچاؤ، اگر تم بچ سکو تو اس سوال کا یہی جواب اپنے بچوں کو بھی دے دینا۔

میرے بچوں کے ساتھ بھی یہی ہونا ہے، میں ارادے جان گیا لیکن انہیں بھی نہ بچا پایا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments