عالمی عدالت کا خوش آئند فیصلہ؟


کسی بھی عدالت کا کوئی فیصلہ آتا ہے تو عموماً ایک فریق خوش ہوتا ہے تو دوسرا رنجیدہ و نا شاد۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے متعلق عالمی عدالتِ انصاف کا حالیہ فیصلہ اس حوالے سے دلچسپی کا حامل ہے کہ پاکستان اور ہندوستان، ہر دو ممالک کی سیاسی و سفارتی قیادتوں اور میڈیا نے اس پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے اسے اپنی اپنی فتح قرار دیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کی اخلاقی و سفارتی جتنی بھی اہمیت مان لی جائے وہ سب درست ہے لیکن ساورن اسٹیٹس کی کورٹس کو جس نوع کی قوتِ نافذہ حاصل ہوتی ہے وہ اس کے پاس بہرحال عنقا ہوتی ہے۔

اس لیے عالمی عدالتِ انصاف بالعموم فریقین کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے یا پھر اگر کوئی صریح زیادتی پر ہوتو اسے عالمی دباؤ یا تنقید کا ہدف بنوانے کے لیے واضح موقف لیتی ہے۔ فریقین بالعموم اپنے ایسے موقف کے حق میں بھی دلائل دے رہے ہوتے ہیں جو بادئی النظر میں تسلیم کیا جانا ممکن نہیں ہوتا اسے ایک طرح سے نفسیاتی حربہ کہا جا سکتا ہے کہ سو مانگیں اور ففٹی لے لیں۔

بھارت سرکار کو بھی یہ معلوم تھا کہ اس کا جاسوس جس طرح رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اُس کی فوری بریت و رہائی ممکن نہیں تھی۔ جہاں تک فوجی عدالتوں کی سنائی گئی سزاؤں کا تعلق ہے پوری دنیا میں ان کے لیے گرمجوشی یا پذیرائی نہیں پائی جاتی ہے پاکستان کا عدالتی نظام جتنا بھی متنازع یا قابلِ تنقید ہے اس نے بہرحال یہ اہتمام کر رکھا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو ملک کی اعلی سویلین عدالتوں میں چلینج کیے جانے کی گنجائش موجود ہے اس امر کو عالمی عدالتِ انصاف نے بہ نظرِتحسین دیکھا ہے اور یہ امید اپنے فیصلے میں دلائی ہے کہ اس کی اپیل نہ صرف یہ پاکستان کی متعلقہ ہائیکورٹ میں ہو سکے گی بلکہ دوسری اپیل سپریم کورٹ میں بھی قابلِ سماعت ہو گی۔

پاکستان یقیناً اس امر پر خوشی کا اظہار کر سکتا ہے کہ بھارت نے اپنے جاسوس کی بریت یا رہائی کے لیے جو بنیادی مطالبات کیے تھے وہ یکسر مسترد کر دیے گئے ہیں گویا عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن یادیو کے مسلمہ جاسوس ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اس سے پاکستان کو سیاسی و سفارتی سطح پر یہ فائد ہ پہنچا ہے کہ پوری دنیا کی مہذب اقوام میں انڈیا کا یہ پروپیگنڈہ جس مضبوطی سے چل رہا تھا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص بھارت میں پیہم مداخلت یا دہشت گردانہ کارروائیوں کا مرتکب بنتا رہتا ہے اُسے کم از کم یہ ایک واضح جواب مل گیا ہے کہ ایسے تمام تر الزامات یا ثبوتوں کے باوجود بھارت بھی یک طرفہ طور پر کلین ہینڈ نہیں ہے۔ قانون کا یہ مسلمہ عالمی اصول ہے کہ اگر آپ کسی کے خلاف شرارتوں کا واویلا کرتے ہیں تو خود بھی شرافت کے علمبردار بنیں اگر آپ ظلم و بربریت کے خلاف بولتے ہیں تو آپ کے اپنے ہاتھ بھی ان الائیشوں سے پاک صاف ہوں اگر آپ ا نصاف کے طلب گار ہیں تو خود بے انصافی کے مرتکب نہ ہوں۔

درویش کی نظروں میں اس حوالے سے یہ یقینا پاکستان کی اخلاقی برتری اور انڈیا کی سبکی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ جو چیز ہمارے خلاف جاتی ہے ہمیں حقیقت پسندانہ نظروں سے اس کوتاہی کا بھی اعتراف کرنا چا ہیے۔ ہمیں پکڑے جانے والے بھارتی جاسوس کو بہرحال ویانا کنونشن کی مطابقت میں بروقت قونصلر رسائی کا بنیادی حق دینا چاہیے تھا ہم نے پیہم اس سے انکار کیے رکھا بلکہ ملزم کی بیوی اور ماں کو جس طرح رسائی دی گئی اس پر بھی عالمی پیمانے کی مطابقت میں تنقید کے کئی حوالے موجود تھے۔

اب ہمارے دفترِ خارجہ کا یہ اعلان قابلِ تحسین ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہونے کی حیثیت سے عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کی روشنی میں کمانڈر کلبھوشن یادیو کو ویانا کنوشن کی دفعہ 36 کے پیرا گراف ون بی کے تحت اس کا حق دینے کے لیے اپنے قوانین کے تحت قونصلر رسائی فراہم کرنے جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اپنے ایڈہاک جج تصدیق حسین گیلانی کے اختلافی نوٹ کی بجائے عالمی عدالت کے 15 ججز کے بھاری اکثریت سے جاری ہونے والے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے یوں نہ صرف یہ کہ بھارتی ملزم کلبھوشن یادیو کی سزائے موت ٹل گئی ہے بلکہ اس کا ری ٹرائل کرتے ہوئے ہماری سویلین جوڈیشری اسے سزائے عمر قید میں بھی بدل سکتی ہے۔ عالمی سطح پر جس کا فائدہ بالآخر پاکستان ہی کو ہو گا۔

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات ان دنوں جن تلخیوں سے گزر رہے ہیں انڈین جاسوس کو ایسی کسی شدید سزا کی صورت میں یہ تلخیاں کئی گنا مزید بڑھ سکتی تھیں اور عوامی سطح پر سوائے منافرت کے ہمیں ایسی کوئی بڑی کامیابی ملنے نہیں جارہی تھی کیونکہ اندرونِ ملک مداخلت یا کارروائی کا یہ کوئی پہلا یا آخری الزام نہیں تھا جو انڈیا پر یک طرفہ طور پر لگا ہے۔ اس نوع کے الزامات کہیں زیادہ پاکستان پر بھی لگتے چلے آرہے ہیں محض کشمیر کے حوالے نہیں انڈین پنجاب کے مختلف مقامات دہلی اور ممبی تک ان کی گونج سنائی دیتی رہی ہے حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے کالعدم لشکرِ طیبہ کے امیر حافظ سعید کو گرفتار کیا ہے تو اس کے پیچھے ممبی بم دھماکوں کا خوفناک عالمی الزام ہے جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوری ٹویٹ کرتے ہوئے سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی ہے کہ یہ میرے دو سالہ دباؤ کا نتیجہ ہے۔ اس پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ نہیں جناب یہ ہماری اپنی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔

آج اگر پاکستانی اور انڈین وزرائے اعظم عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کو سچائی اور انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں تو یہ درحقیقت خطے کے پونے دو ارب انسانوں کی جیت ہے۔ اقوامِ عالم کے درمیان پھانسیاں مسائل کا حل نہیں ہوتی ہیں بلکہ انہیں کئی گنا بڑھاوا دینے کا باعث بنتی ہیں۔ قومی وقار ملزموں کو تاحیات جیلوں میں ڈالنے سے بھی قائم رہ جاتا ہے نیز اس صورت میں آنے والے دنوں یہ گنجائش موجود رہ جاتی ہے کہ آپ کا اپنا ایسا ہی کوئی ملزم اگر دوسری طرف قابو آگیا ہوتو آپ دو طرفہ پر وقار سمجھوتہ کرتے ہوئے کچھ لینے دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ہمیں چیزوں کو جذباتیت سے نہیں دیکھنا چاہیے ابھینندن کے معاملے میں حالیہ دنوں ہم اس کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں جس کے متعلق راقم کی رائے تھی کہ اسے فوری رہائی نہیں دی جانی چاہیے۔

اسی طرح جاسوس کلبھوشن کے متعلق درویش کی روز اول سے یہ رائے تھی کہ اسے سزائے موت سنانے میں حرج نہیں مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہونا چاہیے۔ سفارت کاری کے ذریعے اسے عمر قید میں بدلا جا سکتا ہے کیونکہ پھانسی کسی حوالے سے بھی وطنِ عزیز کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں ہمارے یہاں جو بھی لمبی چوڑی تاویلیں چھوڑی گئیں یا سیاست بازی کی گئی وہ سب لاحاصل و بے معنی باتیں تھیں بالخصوص ہمیں پی پی کے ایک بیرسٹر کبھی نہیں بھولے، امید ہے اب ان کی طبیعت کو بھی آرام آ گیا ہو گا ورنہ ان کے کھانسنے کی آواز ضرور آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).