کپتان کا حکم ہے کہ گھبرانا نہیں


یو ایس ائیرویز 1549 پندرہ جنوری دو ہزار نو کی ایک برفیلی صبح کو نیویارک ائیر پورٹ سے ساؤتھ کیرولینا کے لئے ایک سو پچپن مسافروں کو لے کر اُژی تو ستاون سالہ کیپٹن چیلسی سلنبرگر اپنے فرسٹ افسر جیفری سکائلز کو اپنے ائیر فورس کے زمانے (جب چیلسی برگر ایک فائیٹر پائلٹ ہوا کرتا تھا) کے تجربات سناتا اور جہاز ساؤتھ کیرولینا کی طرف تین ہزار فٹ بلندی پر اُژاتا رہا جہاز کے بعض مسافر خوابیدہ تھے جبکہ بعض فلم دیکھتے رہے، اس دوران اچانک اور غیر متوقع طور پر کینڈا کی طرف سے برفانی پرندوں کا ایک بڑا غول جس تعداد ہزاروں میں تھی, اچانک جہاز کے سامنے آ گیا۔ تجربہ کار کیپٹن نے جہاز بچانے کی بہت کوشش کی لیکن پرندوں کا غول جہاز سے ٹکرا گیا، جس کی وجہ سے جہاز کے دونوں انجن کام چھوڑ گئے۔ نیویارک ائیرپورٹ سو کلومیٹر پیچھے رہ گیا تھا، جبکہ آگے والا ٹیٹرو بورو ائیرپورٹ کا فاصلہ اس سے بھی دُگنا تھا۔ اب ڈیڑھ سو سے زائد مسافر یا تو اپنی قسمت کے رحم و کرم پر تھے یا کیپٹن چیلسی سیلنبرگر کی ذہانت اور حوصلے پر ان کا دارومدار تھا۔

نیویارک کے ریڈار ٹاور میں تھرتھلی مچ گئی تھی۔ انجینئر اور ٹیک نیشنز ادھر اُدھر بھاگنے لگے تھے۔ جہاز کے اندر بھی سرا سیمگی پھیلنے لگی نوجوان فرسٹ افسر جیفری سکائلز نے تجربہ کار اور حوصلہ مند پائلٹ سیلن برگر کی طرف دیکھ کر ایک غمزدہ بے بسی کے ساتھ کہا۔ سر شاید کوئی اُمید باقی نہیں رہی۔ کیپٹن نے اپنا حوصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا، جیفری گبھرانا نہیں ابھی میرے پاس چند سیکنڈز ہیں اور میں اس کا فائدہ اُٹھا کر آخری جواء کھیل رہا ہوں۔

جیفری نے فورًا پوچھا سر کیسا جواء؟

کیپٹن نے اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور مائیک اُٹھا کر مقامی انتظامیہ کو ایک مقام کی نشاندہی کرکے کشتیاں تیار رکھنے اور بعض دوسرے انتظامات کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی جہاز کو دریائے ہڈسن کے اُوپر موڑ دیا۔

چند لمحوں بعد دیوھیکل جہاز کو دریا نے بانہوں میں لے لیا لیکن جہاز ایک سرکش شارک کی مانند قابو نہیں آرہا تھا چیلسی برگراس دوران اپنے انتہائی تجربے اور صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہوا جہاز کو کنٹرول کرتا اور اپنے مسافروں کو بچانے کی کوشش کرتا رہا اس دوران مستعد انتظامیہ کے کمانڈوز اور غوطہ خور ڈیڑھ درجن کشتیاں لے کر جہاز کے دونوں طرف ساتھ ساتھ بھاگتے رہے تقریبًا تین کلومیٹر بھاگنے کے بعد جہاز رُکا اور اپنے آپ کو پانی کے حوالے کرنا شروع کیا تو ایک مختصر وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مستعد امدادی کارکنوں نے جہاز پر ہلہ بول دیا اور مسافروں کو ریسکیو کرنے لگے، ڈیڑھ گھنٹہ بعد آپریشن ختم ہوا تو کسی مسافر کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ جہاز پانی کی تہہ اور مسافر محفوظ کشتیوں میں منتقل ہو چکے تھے۔

ساحل پر پورا شھر اُمڈ آیا تھا اور مسافروں کو مبارک باد دے رہے تھے، لیکن ایک آدمی سائیڈ پر سگریٹ سلگائے اکیلا کھڑا تھا کسی نے چیخ کر کہا، وہ کیپٹن چیلسی سیلنبرگر ہے اور لوگ ایک دیوتائی عقیدت کے ساتھ اس کی طرف بھاگے۔

جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو مجھے موجودہ حالات میں اپنا ملک بھی کسی حد تک یو ایس ایئرویز 1539 کی مانند لگا لیکن فرق صرف کپتان کا ہے کیونکہ منحوس پرندوں کے غول مشرق اور مغرب سے اُڑ کر اس جہاز کے انجن پر تو پہلے ہی حملہ آور ہو چکے تھے بلکہ اب تو کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر مسافروں کو نوچنے تک آگئے ہیں جبکہ جہاز کے مسافر حوصلہ مندی اور بردباری کی بجائے ایک دوسرے کو طعنے دینے لگے ہیں۔

ریسکیو کے لئے کوئی قریبی ائیرپورٹ تو کیا الٹا سرکش اور خونخوار دشمنوں کی بستیاں ہیں، جن کے ہاتھ لگے تو ہماری تکہ بوٹی کر دیں گے۔

جہاز کا کیپٹن بے فکر سو کر خراٹے لے رہا ہے تا ہم چیخ و پکار پر بیچ بیچ میں گہری نیند سے ہڑ بڑا کر اٹھ جاتا ہے اور مسافروں کی طرف منہ کر کے حقارت اور لا پرواھی کے ساتھ ایک ہی جملہ دھراتا ہے کہ آپ سب نے گھبرانا نہیں ہے۔

کوئی مسافر ڈرتے ڈرتے عرض کرے کہ حضور جہاز کو کنٹرول کریں ورنہ ہم سب نیچے خوفناک گھاٹیوں میں فنا ہو جائیں گے تو اس مسافر کی شامت آجاتی ہے کیونکہ وہ گھبرا رہا ہے

کوئی مسافر بھوک اور پیاس کی شکایت کرے تو اسے یہ چیزیں چوری کرنے والا ملزم بننا پڑتا ہے

جہاز سنگلاخ پہاڑوں امڈتے دریاؤں اور خوفناک جنگلوں کے اوپر ہچکولے کھاتا ہے تو کپتان داد طلب نظروں کے ساتھ مڑ کر دیکھتے ہوئے پوچھتا ہے کہ جہاز گرے گا تو آپ سب ان خوبصورت منظروں کا بہت لطف لیں گے

تمام مسافر ”ایئر لائن“ والوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں کہ یہ ہمیں کس بلا کے حوالے کیا ہے۔ ایئر لائن والوں کو بھی تمام صورتحال کا علم ہے اور وہ خود بھی سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ جہاز کے اندر سراسیمگی پھلتی جا رہی ہے۔ بقا کا امکان معدوم ہوتا جا رہا ہے اور فنا کا خوف جہاز سے چمٹ چکا ہے مسافر جہاز کے کپتان اور اپنی قسمتوں کو رو رہے ہیں

طرفہ تماشا یہ کہ اس جہاز میں نہ کپتان کی اھلیہ موجود ہیں نہ ہی ٹیلی وژن جو انہیں صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کریں کیونکہ موصوف کے خبر کے ذرائع یہی ہیں اس لئے وہ ان دگرگوں حالات سے بے خبر اور لا علم ہیں۔

سو صورتحال لمحہ لمحہ تیزی کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے۔ جہاز کی آواز اور کیپٹن کے خراٹوں میں ایک ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ جبکہ تمام مسافر اس دہشت زدہ حالات میں کسی معجزے ہی کو آخری امید اور سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ کوئی اور راستہ رہا ہی نہیں۔ کوئی اور امکان بچا ہی نہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).