تاریخ انصاف مانگتی ہے


ہر چیز کا حسن اعتدال ہے اگر اس کی حدوں کو پامال کر دیا جائے تو افراط و تفریط جنم لے کر ویرانیوں کے سامان پیدا کرتی ہے یا یوں کہیے اعتدال اور عقل کا چولی دامن کاساتھ ہے جبکہ افراط و تفریط کی کوکھ سے انتہا پسندی اور جذباتیت جنم لے کر عقل اور اعتدال کے مقابل آ کھڑی ہوتی ہے ایسے حالات میں حد اعتدال سے گر جانے والی چیز کو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لالے پڑ جاتے ہیں میرے دیس میں ایسا ہی کچھ سلوک تاریخ کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں پر اعتدال اور دلیل کے گلے پر چھری چلائی جا رہی ہے وہاں تاریخ جیسے شناخت کے آئینے کو بھی توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں شاید اسی ظلم کی شدت تھی کہ عالم تخیل میں تاریخ میرے ایسے، انتہائی معمولی طالب علم کے سامنے مجسم شکل میں آکر اس طرح گویا ہوئی۔

”دھائی ہے دھائی کوئی ہے جو پاکستان میں میرے اوپر ہونے والے مظالم پرآواز اٹھائے؟ کوئی ہے جو اپنی خواہشوں اور سفید جھوٹ کو میرا نام (تاریخ) دینے والوں کی خبر لے؟ کوئی ہے جو مجھے سمجھنے اور پڑھنے کے معیارات کے بارے میں بات کرے؟ کوئی ہے جو میرے سینے میں چھپے ہوئے رازوں سے جھوٹ کی گردو غبار کو صاف کرے؟ کوئی ہے جو میرے وجود کو دیمک کی طرح چاٹنے والے تعصبات سے جان چھڑائے؟ کوئی ہے جو مجھے فرقوں کے قید خانوں سے نکال کر سب کویہ بتائے کہ میرا کوئی فرقہ نہیں ہوتا میرا فرقہ غیر جانبداری ہے؟

تاریخ کے لہجے میں غیر معمولی کرب تھا سو مناسب نہیں تھا کہ میں اس کے دکھ کو نہ سنتا اور ذہن کو پاکستان میں جاری تبدیلی کے ڈراموں میں مشغول رکھ کر کڑھتا رہتا سو عالم خیال میں تاریخ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا بی تاریخ! جس ملک میں سوشل سائنسز میں زندگی کی رمق نہ ہو وہاں آپ اپنا دکھڑا سنا کر کیا کرو گی؟ پوسٹ ٹروتھ کے دور میں تمہاری حیثیت ایک ٹول سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے میں تو ایک معمولی طالب علم ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کہ تمہارا دکھڑا خاموشی سے سن لوں اور بس۔

اپنا تعارف کروا کر غبار نکال کر جی ہلکا کر لو میں بھی ایک اور دکھڑا سن کر جی جلا لوں گا ہم ایسے لوگوں کے مقدر میں شاید یہی ہے تسلی دینے کی بجائے میرے مایوسانہ رویے کو دیکھتے ہوئے تاریخ گویا ہوئی ”

میرے نام تو بہت سے ہیں، آپ کے ہاں مجھے تاریخ کہہ کر پکارا جاتا ہے جہاں تک میرے جنم کا تعلق ہے تو جب زمین پر پہلے انسان نے قدم رکھا اس کے ساتھ ہی میرا بھی آغازہوا۔ میں قوموں، نسلوں کا حقیقی شناختی کارڈ ہوں، میں در حقیقت انسان پر بیتنے والے لمحوں سے لے کر صدیوں تک کی گواہ ہوں میری یہ گواھی قلم کے ذریعے محفوظ کی جاتی ہے میری گواھی کو محفوظ کرنے کا بڑا ذریعہ یہی قلم ہے جنہیں تم مورخ کہتے ہو یہ لوگ در حقیقت میری گواھی کو قلم کے ذریعے محفوظ کرتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے مجھ پر اتنا ظلم روا رکھا کہ گواھی لکھتے وقت میرا دامن بہت سے خیالی اور تعصب پر مبنی مواد سے بھر دیا کہ مجھے اپنا وجود بوجھل محسوس ہونے لگا میری اس بے بسی میں میرے بیٹے (محققین) میری مدد کے لئے دوڑے جنہوں نے میرے وجود کے لئے کینسر کی حیثیت رکھنے والے بہت سے واقعات کو ٹھوس دلائل کی بنا پر غلط ثابت کیا مجھے فخر ہے اپنے ان بیٹوں پر جنہوں نے میرے دامن میں محفوظ مواد کو کھنگال کر بہت سے کلی اصول بنا ئے جن کو سامنے رکھ کر چھپائی گئی حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی کوئی غیر جانبداری اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے میرا وجود بہت سے ٹھوس حقائق سے پر ہے لیکن ان کی روشنی میں کوئی آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے میرے وجود کو کھنگالنے والے جید محققین کی رائے اور اصولوں پر عمل کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے جن لوگوں کا مجھ سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہے ان کی لکھی ہوئی غیر مستند باتوں پر میرا نام لگایا جاتا ہے ایسے لوگ بعد میں آنے والی نسلوں کی مشکلات کو بڑھا رہے ہیں آپ خود دیکھو اس سے بڑا مجھ پر اور کیا ظلم ہوگاکہ مورخ ہونے کے دعوے دار بہت سے لوگ صدیوں پہلے کے کسی واقعہ کو اپنی مرضی کے مطابق بیان کر کے یہ باور کرواتے ہیں کہ گویا جو وہ کہہ رہے ہیں وہی درست ہے ان میں اتنی بھی عقل نہیں کہ جو بندہ کسی واقعہ کے رونما ہونے کے صدیوں بعد پیدا ہو رہا ہے وہ کس طرح صدیوں پہلے رونما ہونے والے واقعہ کو درست بیان کر سکتا ہے؟

میرے بیٹو ں نے (محققین) بہت سے قواعد بنا کر ایسے لوگوں کے چہروں کو سب کے سامنے ننگا کر دیا ہے دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مجھے ظلم کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو لیکن اس حوالے سے آپ لوگوں کی کارکردگی سب سے بڑھ کر ہے آپ لوگوں نے صرف 72 سال میں مجھ پر ایسے ایسے وار کیے ہیں کہ میرے جسم سے خون رس رہا ہے مجھے افسو س ہے آپ لوگوں پر جو ٹھوس حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت سے عاری ہیں آپ لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ گزرے کل کی حقیقت کو سامنے رکھ کر اس سے کچھ سیکھنے کی بجائے سراب کے پیچھے دوڑ پڑتے ہو جن لوگوں یا قوموں کو میری عظمت کا احساس ہے وہ مجھ سے روشنی و رہنمائی لے کر مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور ایک تم لوگ ہو جو مسلسل میرا سینہ چھلنی کرنے میں مصروف ہو۔

تمہارا تو یہ حال ہے کہ میرے حوالے سے جتنے زاویوں سے دنیا میں بحثیں رہی ہیں یا ہو چکی ہیں ان میں سے ایک زاویہ بھی تمہارے ہاں زیر بحث نہیں آیا مجھے ٹھوس دلایل کی بنا پر علم مان لیا گیا ہے لیکن تمہارے بعض نام نہاد دانشور اور خو د کو عقل کل سمجھنے والے بعض ادیب مجھے صرف جھوٹ کا پلندہ قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں تمہارے ہاں جن لوگوں کو مؤرخ ہونے کا دعوی ہے (حالانکہ وہ صحیح معنوں میں تاریخ دان بھی نہیں ہیں ) وہی مجھے پڑھنے، سمجھنے اور لکھنے کے آداب و اصولوں کو پاؤں تلے روند رہے ہیں جاؤ تم بھی جا کر سو جاؤ کیونکہ شاید تمہارے نزدیک بھی تاریخ کی باتیں سننا، پڑھنا یا لکھنا ٹائم کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں لیکن جاتے جاتے ایک بات ضرور یاد رکھنا جو لوگ میرے چہرے پر تیزاب ڈال کر اپنے چہرے کو خوشنما دکھانے کی کوشش کرتے ہیں میں کسی نہ کسی مقام پر ان کا اصل چہرہ ضرور سامنے لے آتی ہوں۔

تاریخ نے تو اپنا دکھڑا سنانے کے لئے میرے تخیل کے دروازے پر دستک دی تھی لیکن اب یہ دکھڑا تلخی کی طرف بڑھ رہا تھا اس سے پہلے کہ میں خود تاریخ سے معذرت کرتا کہ بی تاریخ مجھے اجازت دیں، تاریخ خود رخصت ہو چکی تھی لیکن اس کے بعد خیالات کا ایک محشر بپا تھا میں سوچ رہا تھا تاریخ کی آخری بات میں بہت وزن تھا ان حالات میں جب پاکستان میں فسطایت کی دستک کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں تاریخ کے کچھ بیٹے سقوط مشرقی پاکستان، مولوی تمیز الدین کیس، ڈوسو کیس، نصرت بھٹو کیس، بھٹو کی پھانسی، 1954 سے شروع ہونے والی امریکی امداد، میثاق جمہوریت وغیرہ جیسے واقعات کو یاد دلوا کر تاریخ کا قرض چکانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ ہم چور ڈاکو کے نعرے لگانے کی بجائے ٹھوس حقائق کی روشنی میں اپنے اصل مسائل کا کھوج لگا کر ان کے حل کی طرف قدم بڑھائیں ایسا ہونے کی صورت میں شاید تاریخ بھی تیزاب گردی سے کسی حد تک بچنے میں کامیاب ہو جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).