قبائلی اضلاع میں پہلے پرامن انتخابات: کون جیتا کون ہارا، حتمی نتائج کا انتظار


انتخابات

خواتین نے بھی پہلی بار ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی 16 نشستوں پر پہلی بار ہونے والے انتخابات کا پہلا مرحلہ پرامن طور پر اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اس وقت ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ جاری ہے اور غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج درجنوں ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

سیاسی مبصرین طویل عرصے سے فوجی آپریشنز، جنگی صورتحال اور شورش سے متاثرہ ان علاقوں میں پہلی بار پرامن انتخابات کے انعقاد کو امن کی جیت قرار دیتے ہیں۔

ضلع باجوڑ سے سینئر صحافی بہاؤالدین نے مختلف حلقوں کا دورہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ انھیں کسی علاقے سے ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی کہ کہیں کوئی دھاندلی یا کوئی ایسی کوشش ہوئی ہو جس سے پولنگ ایجنٹس یا امیدواروں کو کوئی شکایت ہوئی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ پولنگ کا عمل پر امن رہا اور لوگوں نے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالے ہیں۔

20 جولائی کو ہونے والے 16 صوبائی نشستوں کے انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے 85 امیدوار اور آزاد حیثیت سے 200 امیدواروں نے حصہ لیا جہاں بیشتر حلقوں پر آزاد امیدواروں کا مقابلہ ایک یا دو سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سے رہا۔

یہ بھی پڑھیے

صوبائی انتخابات: قبائلی عوام کا مستقبل کیا ہوگا؟

صوبائی انتخابات: قبائلی اضلاع کے لیے ’ایک تاریخی دن‘

قبائلی علاقوں میں انتخابات:’اب ہر قبائلی کو آزادی حاصل‘

’فیصلے جرگوں اور حجروں میں ہونے کا دور گزر چکا‘

پولنگ ختم ہونے کے بعد نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ حتمی نتائج تو ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد معلوم ہو سکیں گے لیکن قبائلی اضلاع کے بیشتر پولنگ سٹیشنز پر گہما گہمی عروج پر رہی ہے۔

فاٹا

قبائلی علاقوں کے انتخابات میں نوجوانوں کی بھی خاصی دلچسپی رہی

قبائلی اضلاع کے ہر حلقے کی سیاست کا اپنا ہی مزاج ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ تو ضرور لیا ہے لیکن ماضی کی طرح بنیادی اہمیت قومیت اور قبیلے کو دی جاتی رہی ہے۔ ووٹرز اپنے قبیلے، عزیز اور قومیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹ دیتے نظر آئے جبکہ سیاسی جماعتوں نے بھی ان علاقوں میں ان امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں ترجیح دی تھی جن کو اپنے قبیلے یا قوم کی حمایت حاصل تھی۔

ضلع خیبر کے حلقہ پی کے 106 جمرود میں بظاہر الحاج شاہ جی گل گروپ کے آزاد امیدوار کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے ساتھ رہا جبکہ پی ٹی آئی کے ہی ایک اور ناراض رکن بھی آزاد حیثیت سے انتخابی امیدوار تھے۔

جمرود میں مختلف قبائل آباد ہیں اور ہر علاقے میں لوگ اپنے قبیلے اور قریبی عزیزوں کی حمایت کرتے نظر آئے ہیں۔ علاقے میں جس امیدوار کے قریبی عزیز اور قبیلے کے لوگ زیادہ تھے وہاں اسی امیدوار کے حمایتی زیادہ نظر آرہے تھے۔

جمرود پاک افغان سرحد پر پشاور شہر سے 20 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔ تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جمرود کی نمائندگی کے لیے حکومتی جماعت نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کے پسندیدہ امیدوار کو ٹکٹ دیا۔

نورالحق قادری کا تعلق بھی خیبر سے ہی ہے۔ تاہم یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ لنڈی کوتل میں حلقہ پی کے 105 پر عمران خان کابینہ کے رکن نورالحق قادری پی ٹی آئی کے امیدوار کی بجائے اپنی تنظیم کے حمایت یافتہ امیدوار کے ساتھ کھڑے ہیں۔

الیکشن

قبائلی علاقوں میں پہلی بار انتخابات کا مرحلہ پرامن رہا

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حلقوں پر بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ پہلے اور دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی ہی موجود ہے اور اگر آزاد حیثیت سے بھی کوئی امیدوار کامیاب ہوتا ہے تو وہ بھی پی ٹی آئی کی حمایت کرے گا۔

شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں بھی پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے امیدوار میدان میں تھے لیکن یہاں ایسے آزاد امیدوار بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل رہے جنھیں پختون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔

بظاہر تو پی ٹی ایم نے کسی امیدوار کو نا تو ٹکٹ جاری کیا ہے اور نا ہی کسی امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا لیکن غیر اعلانیہ طور پر بھی لوگ ان امیدواروں کو پی ٹی ایم کا ہم خیال سمجھتے ہوئے ووٹ ڈالتے رہے۔

خیبر ایجنسی کی طرح دیگر قبائلی علاقوں میں بھی بیشتر ایسے امیدوار نمایاں رہے جو سابق اراکین قومی اسمبلی، سینیٹرز اور قبائلی رہنماؤں کے بیٹے، بھتیجے اور یا ان کے رشتہ دار ہیں۔ انتخابی امیدوار بلاول آفریدی اور امجد آفریدی سابق رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل کے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔

اسی طرح اورکزئی ایجنسی سابق رکن قومی اسمبلی جی جی جمال کے بیٹے اور باجوڑ میں رکن قومی اسمبلی ملک شہاب الدین کے بیٹے نظام الدین بھی انتخابی میدان میں ہیں۔

انتخابات

خیبر ایجنسی کی طرح دیگر قبائلی علاقوں میں بھی بیشتر ایسے امیدوار نمایاں رہے جو سابق اراکین قومی اسمبلی، سینیٹرز اور قبائلی رہنماؤں کے بیٹے بھتیجے اور یا ان کے رشتہ دار ہیں

انتخابی عمل کے بارے میں شکایات

اگرچہ انتخابی عمل پر امن رہا لیکن بعض حلقوں سے شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔

ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے ایک سرکاری سکول میں قائم خواتین کے پولنگ سٹیشن کے باہر عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیدار یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ پولنگ سٹیشن کے اندر خاصہ دار اہلکار من پسند امیدواروں کے ووٹرز کو اندر آنے کی اجازت دے رہے ہیں جبکہ ان کے ووٹرز کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

عوامی نینشل پارٹی کے امیدوار شاہ حسین کے بھائی محمد طارق نے پولنگ سٹیشن کے باہر بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود انھیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

انھوں نے کہا کہ ‘ایک خاصہ دار مخالف ووٹرز کو واپس بھیج دیتا ہے اور ان کے پولنگ ایجنٹ کو باہر نکال دیا۔’

اس پولنگ سٹیشن پر بی بی سی کی ٹیم کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ضلع خیبر سے ایک خاتون جمائمہ آفریدی نے بتایا کہ ایک پولنگ سٹیشن پر خواتین ووٹرز کو بتا رہی تھیں کہ کہاں مہر لگانی ہے اور وہ خواتین ووٹرز کو اپنے من پسند امیدوار کے نام پر مہر لگانے کی تجویز دیتی رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’صرف ایک آزاد امیدوار کے لیے کوششیں کی جا رہی تھیں اور ان کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے تھے۔‘

’بیشتر خواتین کو معلوم نہیں تھا کہ ووٹ کیسے ڈالا جاتا ہے لیکن وہ پولنگ سٹیشن پہنچی تھیں اور وہاں عملے سے پوچھتیں رہی تا کہ معلوم کر سکیں کہ کہاں مہر لگائیں اور عملہ انھیں غلط جگہوں کی نشاندہی کر رہا تھا۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر اعلیٰ کے مشیر اجمل خان وزیر نے کہا ہے کہ یہ اہم نہیں ہے کہ کون کامیاب ہوتا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک جمہوری عمل ہے جو قبائلی علاقوں میں شروع ہوا ہے اور وہ ان تمام امیدواروں کو اسمبلی میں خوش آمدید کہیں گے جو کامیاب ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp