برطانیہ، ایران کشیدگی: برطانیہ کا ایران سے تیل بردار ٹینکر چھوڑنے کا مطالبہ


برطانیہ کے وزیرِ خارجہ جیرمی ہنٹ نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ آبنائے ہرمز سے ’غیر قانونی‘ طور پر قبضے میں لیے گئے برطانیہ کے تیل بردار بحری جہاز کو چھوڑ دے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران کے اس غیر قانونی اقدام سے آبنائے ہرمز میں برطانیہ اور بین الاقوامی شپنگ کی سکیورٹی کے بارے میں ‘سنجیدہ سوالات پیدا ہو گئے ہیں‘۔

جیرمی ہنٹ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جمعے کے روز ایران کی جانب سے قبضے میں لیے گئے برطانوی جہاز سٹینا امپیرو کی مزید تصاویر جاری کی گئی ہیں۔

تہران کا کہنا ہے کہ جہاز بین الاقوامی بحری ضوابط کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔

اپنے ایرانی ہم منصب سے فون پر بات کرنے کے بعد مسٹر ہنٹ نے بتایا کہ ایران اپنے اس اقدام کو ‘جیسے کو تیسا’ کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل برطانیہ نے جبرالٹر میں ایک ایرانی تیل بردار جہاز کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

جیرمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ ‘سچ کے آگے کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔’

سٹینا امپیرو کے مالکان نے کہا ہے کہ وہ بندر عباس بندرگاہ میں موجود جہاز کے 23 رکنی عملے تک رسائی چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق عملے کے ارکان کی صحت اچھی ہے۔

بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب ‘اس بات کے لیے تیار تھے کہ اسے جنگ کے دہانے تک لے جائیں اور پھر ممکنہ طور پر اس سے ذرا پیچھے رک جائیں۔’

کیا واقعہ ہوا؟

سٹینا امپیرو کو ایرانی پاسداران انقلاب نے جمعے کو خلیج کے ایک اہم راستے میں اپنے قبضے میں لیا تھا۔

پکڑے جانے والے بحری جہاز کی تصاویر سنیچر کو جاری کی گئیں۔ ان تصاویر میں ٹینکر کو قبضے میں لینے کے مناظر ہیں۔

اس فوٹیج کو ایرانی پاسداران انقلاب سے منسلک فارس نیوز ایجنسی نے جاری کیا تھا۔

اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نقاب پوش افراد رسیوں کے ذریعے ہیلی کاپٹر سے جہاز پر اتر رہے ہیں جبکہ اسے چاروں طرف سے تیز رفتار کشتیوں نے گھیر رکھا ہے۔

جیرمی ہنٹ

اسی وقت رائل نیوی کے جنگی جہاز ایچ ایم ایس مانٹروز کو الرٹ کیا گیا جو اس میں مداخلت کے لیے تیزی سے بڑھا جیسا کہ اس نے ایک دوسرے برطانیہ کے پرچم والے جہاز کو بچانے کے لیے ایک ہفتے قبل کیا تھا۔ لیکن اس بار وہ جہاز اتنا دور تھا کہ وہ سٹینا امپیرو پر ہونے والے قبضے کو نہیں روک سکا۔ اس سے قبل کہ وہ وہاں پہنچتا جہاز کو ایرانی حدود والے پانی میں لے جایا جا چکا تھا۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے بتایا کہ ٹینکر کو اس وقت قبضے میں لیا گیا جب وہ ایک ماہی گیر کشتی سے ٹکرایا اور چھوٹے جہاز سے کی جانے والی کالز کا جواب دینے سے قاصر رہا۔ لیکن مسٹر ہنٹ کا کہنا ہے کہ اسے عمان کی حد والے پانی میں پکڑا گیا جو کہ ‘بین الاقوامی قانون کی کھلی ہوئی خلاف ورزی’ ہے اور پھر اسے زبردستی ایران کے پانی میں لے جایا گیا۔

سٹینا امپیرو کے سویڈن کے مالکان سٹینا بلک نے کہا کہ کمپنی ضابطے کی پوری طرح پاسداری کر رہی ہے اور اس وقت ان کا جہاز بین الاقوامی پانی میں تھا۔ اس نے کہا کہ اس جہاز کے عملے جن میں ہندوستانی، روسی، لاتویائی، فلپائن باشندے شامل ہیں ان کی صحت اچھی ہے۔ اسی دن برطانیہ کی ملکیت والے جہاز ایم وی میسدار جس پر لائبیریا کا پرچم تھا اسے بھی مسلح گارڈز نے پکڑا تھا لیکن پھر چھوڑ دیا۔

یہ واقعہ ایرانی ٹینکر گریس 1 کے جبرالٹر کے پاس رواں ماہ کے اوائل میں پکڑے جانے کے بعد رونما ہوا۔ اس کے پکڑے جانے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ یورپی یونین کی پابندیوں کے باوجود شام کے لیے تیل لے جا رہا تھا۔ ایران نے اسے سمگلنگ کہا ہے لیکن مسٹر ہنٹ نے کہا کہ گریس 1 کو جائز طور پر جبرالٹر کے پانیوں میں ‘مکمل طور پر قانون کے تحت’ پکڑا گیا تھا۔

سنیچر کو برطانوی سرکار کے وزرا نے کوبرا کی میٹنگ کی جس میں سینیئر ایرانی سفارتکار کو لندن میں وزارت خارجہ کے دفتر طلب کیا گیا۔ اس کے بعد مسٹر ہنٹ نے کہا کہ رکن پارلیمان کو پیر کو بتایا جائے گا کہ حکومت ‘مزید کیا اقدامات’ کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ خطرے کی سطح انتہائی درجے پر کردی گئی ہے۔ انھوں نے کہا: ‘ہماری ترجیحات میں حالات کو کشیدہ ہونے سے روکنے کے راہ تلاش کرنا ہے۔’

برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے اس سے قبل کہا کہ برطانیہ کے جہازوں کو اس علاقے سے دور رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔

ایران کا موقف کیا ہے؟

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ایک ٹویٹ میں برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ امریکہ کی معاشی دہشتگردی کے منصوبے کا حصہ بننے سے باز رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران ہی وہ ملک ہے جو گلف اور آبنائے ہرمز کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ ‘آبنائے جبرالٹر میں ہونے والے چوریوں کے برخلاف خلیج فارس میں ہماری ترجیح بین الاقوامی بحری قوانین کی عملداری ہے۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق برطانوی ٹینکر کو اس وقت پکڑا جب وہ ایک مچھلی پکڑنے والی کشتی سے جا ٹکرایا اور پھر مسلسل رابطہ کرنے پر بھی ٹینکر کے اندر سے کسی قسم کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم نے بندرگاہوں اور میری ٹائیم آرگنائزیشن آف ایران کے حوالے سے بتایا کہ ’ہمیں کچھ اطلاعات ملیں کہ ایک برطانوی ٹینکر مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ہم نے فوج سے کہا کہ اس ٹینکر کو بندرگاہ بندر عباس پر لے جا کر تفتیش کی جائے۔‘

ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس ٹینکر کو تین وجوہات پر روکا گیا ہے، پہلی یہ کہ اس نے اپنا جی پی ایس سسٹم بند کر دیا، دوسری یہ کہ یہ آبنائے ہرمز میں درست راستے کے بجائے باہر جانے کے راستے سے داخل ہوا، اور تیسری یہ کہ اس نے تمام تر تنبیہی پیغامات کو نظر انداز کیا۔

ایران نے یہ اقدام ایک ایسے وقت پر کیا ہے جب ایران اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔

اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی بحریہ نے آبنائے ہرمز میں ایک ایرانی ڈرون کو مار گرایا ہے تاہم ایرانی فوج کے ایک ترجمان نے ان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے جمعرات کو کہا کہ یو ایس ایس باکسر نامی امریکی جنگی بحری جہاز نے جمعرات کو اس وقت ’دفاعی کارروائی‘ کی جب یہ ڈرون بحری جہاز کے 1000 گز تک قریب آیا۔

ادھر ایرانی خبر رساں اداروں کے مطابق ملکی فوج کے بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل شیخراچی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’امریکی صدر کے مبالغہ آمیز دعوے کے برعکس خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں موجود تمام ایرانی ڈرون نگرانی کے مشن مکمل کرنے کے بعد بحفاظت اپنے اڈوں پر واپس آئے ہیں اور یو ایس ایس باکسر سے مڈ بھیڑ کی کوئی رپورٹ نہیں دی گئی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’امریکی صدر کی جانب سے اس قسم کے بے بنیاد اعلانات کا مقصد اشتعال انگیزی اور خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے علاقے کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے۔

خیال رہے کہ ایران نے کچھ روز قبل فضائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکہ کا بغیر پائلٹ کے ایک ڈرون بھی مار گرایا تھا جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی تھی کہ ‘ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔’

ادھر تہران نے جمعرات کو یہ بھی کہا کہ اس نے ایک ’غیر ملکی ٹینکر‘ کو 12 افراد کے عملے سمیت پکڑا ہے جو خلیج میں ایندھن سمگل کر رہا تھا۔ امریکہ رواں برس مئی کے بعد سے اب تک متعدد بار ایران پر یہ الزام عائد کر چکا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے بحری علاقوں میں بین الاقوامی آئل ٹینکرز کو نشانہ بنا چکا ہے۔ حالیہ واقعات کے بعد خطے میں مسلح تنازعے کے خطرات پیدا ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی رد عمل

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی سے متعلق ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایران کی طرف سے یہ ایک ہفتے میں ایسا دوسرا واقعہ ہے۔ اس بار برطانیہ ایران کے جنگی جنون کا نشانہ بنا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے پر برطانیہ سے بات کریں گے۔ یو ایس سنٹرل کمانڈ کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی ردعمل کے لیے کوشاں ہیں۔

امریکی فوج کے مطابق موجودہ خراب صورتحال کے خاتمے کے زریعے پورے آبی سلسلے میں استحکام کے خواہشمند ہیں۔ فرانس اور جرمنی نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ برطانوی ٹینکر کی فوری طور پر واپس کردے۔

علاقائی کشیدگی

ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے لیے بین الاقوامی معاہدے سے یک طرفہ طور پر علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔

اس معاہدے پر سنہ 2015 میں اقوامِ متحدہ سمیت امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے دستخط کیے تھے۔

معاہدے میں طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری منصوبے کو کم تر درجے تک لے جائے گا اور صرف تین فیصد یورینیم افزودہ کر سکے گا۔

آبنائے ہرمز

تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونے اور پابندیوں کی بحالی کے اعلان کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کیا تھا۔ یہ یورینیم جوہری بجلی گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ گذشتہ ماہ آبنائے ہرمز میں آئل ٹینکروں کو پہنچنے والے نقصان کا الزام ایران پر عائد کرتا ہے جبکہ ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

ایران نے کچھ روز قبل فضائی حدود کی حلاف ورزی پر امریکہ کا بغیر پائلٹ کے ایک ڈرون بھی مار گرایا تھا۔ جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی تھی کہ ‘ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔’

برطانیہ کے اس بیان کے بعد کہ جون میں آئل ٹینکروں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ دار یقینی طور پر ایرانی حکومت ہے، ایران اور برطانیہ کے درمیان بھی کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا ہے۔

برطانیہ ایران پر دوہری شہریت رکھنے والی نازنین زغاری ریٹکلف کی رہائی کے لیے بھی دباؤ ڈال رہا ہے جن کو سنہ 2016 میں جاسوسی کے الزامات میں پانچ سال جیل کی سزا سنائی گئی تھی تاہم وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات سے انکار کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp