پیر و مرشد کے متبرک کلمات کے مہلک اثرات


یہ ان دنوں کی بات ہے جب گذشتہ حکومت کی انتخابی ایکٹ میں ترامیم کے رد عمل کے طور پر فیض آباد پر سڑک نشین دھرنے نے ملک کے اندر ایک ہیجان بپا کر رکھا تھا۔ اس وقت حکومتی آپریشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات جہاں پورے پاکستان کے لیے افسوس ناک تھے وہیں اس دھرنے سے یگانگت کا مظاہرہ ہمارے لیے ذاتی طور پر اندوہناک ثابت ہوا۔

بات کچھ یوں ہے کہ عوام کی بے شعور اکثریت میں ہم بھی شامل ہیں چنانچہ جب حکومت کے خلاف یہ دھرنا عمل پذیر ہوا تو ہم نے بھی اس دھرنے کی حمایت کا اعلان کر ڈالا۔ اس حمایت کو پائیدار بنانے کے لیے ہم نے دھرنے کے سرخیل حضرت مولانا خادم حسین رضوی (حال مقیم نامعلوم) کی تقاریر کو سننے کی ٹھانی تاکہ قوت ایمانی کو مہمیز لگاسکیں۔ سوشل میڈیا کے طفیل گھر بیٹھے موصوف کی غیر متحرک مگر متبرک اور مقدس الفاظ پر مشتمل کچھ تقاریر ہاتھ آ گئیں۔

یقین مانیے کہ بلند آہنگ اور غیر متزلزل لہجے میں کی گئی تقاریر دل کو چھو گئیں۔ علامہ اقبال کا وہ شعر پوری طرح ہماری سمجھ میں آ گیا جس میں علامہ نے جواں مردوں کو آئینی تناظر میں حق گوئی و بے باکی کی ہلہ شیری دی تھی۔ اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ کیوں دی تھی۔ بے شعور عوام کی طرح ہم بھی غیر مشروط مقلد ہیں لہٰذا ہم نے اپنی ہم خیال باتوں کو ذہن نشین کر لیا تاکہ ان افکارِ رضویہ کو مفادِ عامہ میں فروغ دیا جا سکے۔

ہمارا برسوں سے ہفتہ واری معمول ہے کہ ہم ہفتہ بھر کا سودا سلف اتوار کے روز جمع کر لاتے ہیں۔ اس روز بھی اتوار تھا چنانچہ حسب معمول اتوار بازار کا قصد کیا جہاں سے مناسب نرخوں پر اشیائے ضرورت میسر آ جاتی ہیں۔ گھر سے بذریعہ نجی ٹیکسی عازم سفر ہوئے تو کچھ آگے سڑک بند تھی اور گاڑیوں کا ایک ازدحام تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم پڑا کہ فیض آباد دھرنے کی وجہ سے راستہ بند ہے لہٰذا متبادل راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ کوفت تو بہت ہوئی مگر چونکہ ایک نیک مقصد کی خاطرراستہ بند تھا اس لیے نامناسب جذبات کو دبا کر صبر کا مظاہرہ کیا۔ قریب ڈیڑھ گھنٹے بعد متبادل راستہ ملا۔ تب تک ٹیکسی کا میٹر ہمارا میٹر گھما چکا تھا۔ ”کریم“ اور ”اوبر“ استعمال کرنے والے ہماری اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہوں گے۔

اپنے شہر کے تمام نو دریافت شدہ راستوں سے گزرنے کے بعد جب تین گھنٹے اور ستاون منٹ کی مسافت اختتام پذیر ہوئی تو سولہ سو روپے کا ٹیکسی کا بل ہمارا منہ چڑھا رہا تھا۔ بے اختیار ہماری زبان سے افکارِ رضویہ کا پہلا شاہکار برآمد ہوا ”اوئے دَل۔ ۔ ۔“ اوراس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ پاتے ہمارا گریبان اس تندرست و توانا نوجوان کے ہاتھ میں تھا جو ٹیکسی کا ”کپتان“ تھا۔ ہم نے کپتان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ لفظ متبرک و محترم ہے مگر وہ کپتان ہی کیا جس کی سمجھ میں کوئی بات آ جائے۔ اس نے انتہائی ناقابل اشاعت الفاظ میں ہم سے کرایہ کا مطالبہ کیا۔ کرایہ تو ادا کرنا ہی تھا سو ادا کیا مگر کپتان کی خوش کلامی ہمیں ہکا بکا کر گئی۔ ہم تو کپتان کو بہت خوش اخلاق سمجھتے رہے تھے۔

اس اہانت آمیز سلوک کو پیتے ہوئے اتوار بازار میں داخل ہوئے۔ اشیائے ضرورت کی لسٹ ہمارے ہمراہ تھی چنانچہ لسٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے ہم کریانہ اسٹور پر پہنچے۔ آٹا، دال، چاول اور مصالحہ جات وغیرہ جو جو شے لسٹ میں درج تھی نکلوا کر کاؤنٹر پرڈھیر کرواتے گئے۔ جب تمام اشیا پوری ہو گئیں تو بل کا مطالبہ کرنے کے لیے ہم نے افکار رضویہ کے دوسرے شاہکار کا استعمال کیا اور ہانک لگائی ”اوئے خنزی۔ ۔ ۔“

اپنا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہم نے خود کو اتوار بازار کے فرش پر دھرنا افروز پایا۔ ہم اس بات کا تعین اب تک نہیں کر پائے کہ ہمارے رخسار پر شدید جلن کی وجوہات کیا تھیں۔ مگر وہ انتہائی اشتعال انگیز الفاظ اب تک ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں جو اس ایک منٹ کے دھرنے کے دوران ہماری شان میں ادا کیے گئے۔ اسلام آباد کی تاریخ کا یہ مختصر ترین دھرنا ناگزیر وجوہات کی بنا پر فوری طور پر ختم کرنا پڑا۔ تاخیر کی صورت میں اندیشہ تھا کہ حریف قوتوں کے لاٹھی چارج سے نقص امن کی صورت حال نہ پیدا ہو جائے۔

افکار رضویہ کے شاہکاروں پر عوام کارد عمل خاصا حوصلہ شکن تھا۔ دل و دماغ میں منتشر و مفسد خیالات کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ اسی ادھیڑ بن میں پیش قدمی کرتے ہوئے ہم نے قصاب کی دکان پر پڑاؤ ڈالا۔ گذشتہ دو تجربات کے پیش نظر اس مرتبہ ہم محتاط تھے مگر علامہ اقبال کی آئین جواں مرداں والی ہلہ شیری بھی مرہونِ خیال تھی۔ قصاب کے بغدے کو نگاہوں کے حصار میں رکھتے ہوئے ایک عدد مرغی حلال کرنے کی ہدایت کی۔ قصاب نے برائلر مرغیوں کے پنجرے میں ہاتھ ڈالا تو مرغیوں نے پھڑپھڑانا شروع کر دیا۔ ادھر ادھر اچھلتی کودتی مرغیوں نے خود کو قصاب کے بے رحمانہ ہاتھ سے بچا لیا اور گرفت میں آ گئی ایک توانا مگرلنگڑی مرغی۔ قصاب نے اسے گھسیٹ کر پنجرے سے نکالا تو مرغی نے پرزور صدائے احتجاج بلند کی۔

ہمارے ذہن نے، جو علامہ اقبال کے آئینِ جواں مرداں پر غور کرتے ہوئے اس میں آئینی ترامیم کرنے میں مشغول تھا، مرغی کے صوتی تاثرات کو یکسر تبدیل کرڈالا اور ہمارے کانوں سے جو آواز ٹکرائی وہ تھی ”تہوا ڈی پین دی سری“ اور یہی الفاظ فی البدیہہ ہماری زبان پر جاری ہو گئے۔

قصاب نے چونک کر بالکل اجمل قصاب کی طرح ہمیں گھورا اور اپنا بغدہ اٹھا کر ہماری طرف لپکا۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہمیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا اور بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے ہم نے دوڑ لگا دی۔

اس کے بعد کا منظر کچھ یوں ہے کہ اس دوڑ کا اختتام، جس میں حریف سے طویل فاصلے کے سبب اول پوزیشن کے حق دار ہم ٹھہرے تھے، اتوار بازار کے عقب میں واقع خشک برساتی نالے میں ہوا۔ ہمارے افکار عالیہ کے شاہکاروں کا ابلاغ اتوار بازار میں اشتعال کے فروغ کا باعث بن گیا تھا اور مشتعل افراد نے ہمارے خلاف حکومتی طرز کے آپریشن کا آغاز کر دیا تھا۔ چوں کہ آپریشن کی براہ راست نشریات پر پابندی عائد کی جا چکی تھی لہٰذا آپ لمحہ بہ لمحہ صورت حال سے آگاہ نہیں ہو سکتے۔ تحریر کی طوالت کے پیش نظر اس محاصرے کے بعد کی مزید صورت حال سے آپ کو اگلی تحریر میں آگاہ کر دیں گے۔ اور اگر ایسا نا ہو سکا تو آپ فرض کر لیجیے گا کہ ہمارے ساتھ پین دی سری ہو گئی ہے۔ (جاری ہے )

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad