قاضی عبدالحئی قائل


سرزمینِ سندھ بہت سے حوالوں سے دُنیا کے باقی بے تحاشا خطوں سے زیادہ خوشقسمت رہی ہے، جس میں اس سرزمینِ خاص کے خمیر سے جنم لینے والے فرزندان کا اہم کردار ہے، جن میں سے ایک کثیر تعداد، نہ صرف ادارہ ساز اور ادوار ساز رہی، بلکہ شخصیت سازی اور اخلاق سازی کے میدان میں بھی اپنے کارہائے نمایاں انجام دینے والے لوگوں نے یہاں پیدا ہو کر، پرورش پا کر اور اس سرزمینِ یکتا کے لئے خدمات انجام دے کر سندھ کو منفرد و ممتاز درجہ دیا ہے۔

16 دسمبر 1917 ء کولاڑکانہ ضلع کی زرخیز زمین کے رتودیرو نامی قصبے میں اُس دور کے سندھی، عربی اور فارسی کے معروف شاعر، قاضی عبدالحق ”عبد“ کے گھر میں جنم لینے والے اُن کے صاحبزادے، قاضی عبدالحئی ”قائل“ کا شمار بھی ایسے ہی ممتاز و معتبر فرزندانِ ارض میں ہوتا ہے، جنہوں نے متوسط گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود بھی نہ صرف ادب، بلکہ شعبہء مصوری، سماجی خدمات، صحافت، تدریس اور دیگر شعبوں میں اپنی امتیازی خدمات انجام دینے کی وجہ سے نہ صرف اس خطے کی تاریخ میں نمایاں نام پیدا کیا، بلکہ ایک اعلیٰ صفت انسان کی حیثیت سے بھی لوگوں کے دل جیتے۔

اپنے والد ِ محترم کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے (جو اُن دنوں ضلع جیکب آباد کے قصبے ”ٹُھل“ میں تعینات تھے ) قاضی عبدالحئی ”قائل“ کی پیدائش ٹُھل میں ہوئی، لیکن بعد ازاں اُن کا بچپن رتودیرو اور اُسی نواح میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں خیرودیرو میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم کے مراحل رتودیرو میں طے کرنے کے بعد لاڑکانہ سے انٹرمیڈیٹ اور جامعہ سندھ جامشورو سے گریجوئیشن کرنے کے بعد روزگار کے چند ابتدائی مراحل مختلف محکموں میں طے کیے، مگر شاید قدرت نے اُنہیں تخلیق ہی پیغمبری پیشے سے وابستہ ہو کر اپنے خطے کے نونہالوں کے مستقبل سنوارنے کے لئے کیا تھا، لہٰذا اپنے نوجوانی کے دور ہی میں پرائمری اُستاد کی حیثیت سے شعبہء تدریس سے وابستہ ہوگئے۔

جلد ہی اپنے اندر پیدائشی مصّورانہ صلاحیتوں کی آبیاری کرتے ہوئے، شعبہء تعلیم میں ہی ہائی اسکول کی سطح پر پیدا ہونے والی آسامیوں کے تحت ”ڈرائنگ ٹیچر“ کی حیثیت سے گورنمنٹ ہائی اسکول رتودیرو میں مقرر کیے گئے۔ اپنی ملازمت کے دوران ہی ٹریننگ کالج حیدرآباد میں مطلوبہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے بعد ”ڈرائنگ ماسٹر“ کے عہدے پر ترقی پا کر اُسی اسکول میں بچّوں کو مصّوری کے گُر سکھانے لگے۔ گو کہ اُن کے تبادلے لاڑکانہ ضلع کے متعدد اسکولوں میں ہوتے رہے، اور وہ وقتاً فوقتاً اُن اسکولوں میں اسی حیثیت سے اپنی خدمات کی انجام دہی کرتے رہے، مگر بحیثیت اُستاد اُن کا زیادہ تر وقت، گورنمنٹ ہائی اسکول رتودیرو سے وابستہ رہتے ہوئے گزرا، جہاں سے 1976 ء میں اُنہوں نے ریٹائر کیا۔

قاضی عبدالحئی ”قائل“ تھے تو مصوری کے اُستاد، مگر اُنہوں نے سندھی، مطالعہء اسلام، مطالعہء پاکستان اور سائنس سمیت اور بھی کئی مضامین طلبہ کو پڑھائے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی تربیت اور اُن کی شب و روز کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے، قاضی صاحب نے اپنے طلبہ کی شخصیت کی تعمیر بھی کی، جو اُس وقت کے اساتذہ کا خاصہ بھی تھا۔ طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں میں ہمّت افزائی کے حوالے سے قاضی صاحب کا ایک اہم کردار رہا۔

اپنے تعلیمی ادارے میں ڈراماٹک سوسائٹی کا قیام، مباحثوں کا انعقاد، مضمون نویسی کے مقابلوں میں طلبہ کی ہمّت افزائی اور اسکاؤٹنگ کے فروغ کے حوالے سے قاضی صاحب کی خدمات اپنے تعلیمی ادارے سے وابستہ دیگر اساتذہ کے مقابلے میں نمایاں اور ممتاز رہیں۔ محدود وسائل کے با وجود قائل صاحب کا گھر، رتودیرو کے نواح میں واقع دیہی علاقوں کے طلبہ کے لئے ہاسٹل بنا رہتا تھا۔

قاضی عبدالحئی ”قائل“ نہ صرف ایک مثالی اُستاد اور قابل تعلیمدان تھے، بلکہ سندھی ادب میں ایک قادرالکلام شاعر کی حیثیت سے اُن کا شمار قیامِ پاکستان کے فوراً بعد والے نمائندہ شعراء کی صف میں کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے بنیادی طور پر نظم اور غزل میں قلمی خدمات انجام دیں، مگر علاوہ ازیں وہ قطعہ، رُباعی، مسدّس، مثمن اور دیگر اصنافِ سُخن میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے۔ یہ روایتی سندھی غزل کا دور تھا، اس لئے اُن کی شاعری میں اُس دور کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اُس دور کے خاکسار تحریک کے اہم رہنما، سید وریل شاہ کے ساتھ ذاتی دوستی کی وجہ سے قاضی عبدالحئی ”قائل“ کی شاعری میں انقلابی اور ناصحانہ رنگ بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے، خاص طور پر جب وہ قو م کے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کلام کہتے ہیں۔ نثر کے حوالے سے اُن کے مضامین خواہ تحقیقی مقالوں میں عمدہ تحقیق کا رنگ جھلکتا ہے۔ بعض اوقات اُن کے عام مضامین بھی بے تحا شہ معلومات کا خزانہ لئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاعری میں اُس دور کے قادرالکلام شاعر، اللہ بخش سرشار عُقیلی اُن کے استاد تھے، جن کی نسبت سے قاضی عبدالحئی ”قائل“ اپنے آپ کو ”قائل سرشاری“ بھی لکھا کرتے تھے، جبکہ مصّوری میں سندھ کے معروف مصوّر، ع۔ ق۔ شیخ اُن کے اُستاد تھے۔

صحافی کی حیثیت سے اُن کی قلمی خدمات اُس دور کے معروف اخبارات، ہفتہ وار ”آزاد“، ہفتہ وار ”آذان“، روزنامہ ”ہلالِ پاکستان“ اور ہفتہ وار ”روشن طب“ میں کثرت سے شایع ہوئیں۔ بعد ازاں اُنہوں نے رتودیرو سے شایع ہونے والے ہاری تحریک کے ترجمان اخبار، ہفتہ وار ”ہاری“ کے لئے اپنی خدمات وقف کردیں۔ وہ کامریڈ اعتبار علی جاگیرانی کے ساتھ نہ صرف اس اخبار کی مجلسِ ادارت میں شامل رہے، بلکہ اُس کے ادبی صفحے کے مدیر بھی رہے۔

بعد ازاں اُنہوں نے اِس صفحے کی ادارت کی ذمہ داری اپنے صاحبزادے اور ادبی ورثے کے وارث، مقصود گُل کو سونپ دی۔ قاضی عبدالحئی ”قائل“ نے رتودیرو میں پہلے پہل ”رتودیروپریس کلب“ کی بنیاد ڈالی اور اُس کے لئے عمارت کا انتظام کرتے ہوئے اپنے شہر کے صحافیوں کی تنظیم سازی کی اور اُن کو یکجا کیا۔ آپ رتودیرو پریس کلب کے بانی، پہلے اور تاحیات صدر رہے۔

سماجی خدمات کے میدان میں ذاتی سطح پر لاتعداد خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ ضلعئی عُشر و زکوٰۃ کمیٹی کے چئیرمین بھی رہے، جس حیثیت سے مستحقین تک اُن کا حق پہنچانے اور امانتیں اُن کے سپرد کرنے کا کام طویل عرصے تک احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قاضی عبدالحئی ”قائل“ کو بہت سارے اعزازات سے نوازا، جن میں سے اہم ترین اعزاز اُن کی وہ نیک اور صالح اولاد ہے، جن میں سے ہر ایک نے ادب کے ساتھ ساتھ فنون ِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں ستائش اور نام کمایا۔

اُن کے سب سے بڑے صاحبزادے، قاضی خضر حیات ملک کے معروف مصّور، کاشیگر اور سول انجینئر ہیں، جنہوں نے ہزاروں فن پاروں کے ساتھ ساتھ مُلک کے اہم اور معروف اداروں کی عمارتیں بھی بنائی ہیں۔ اُن کے دوسرے صاحبزادے، مقصود گُل اُردو اور سندھی کے معروف شاعر، عالم، دانشور اور حضرت سچل سرمست ؒ کے شارح کی حیثیت سے ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کرکے 14 فروری 2015 ء کو ہم سے بچھڑے۔ اُن کے تیسرے صاحبزادے قاضی اختر حیات، معروف مصّور کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ وہ 4 دسمبر 2014 ء کو اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے، جبکہ قاضی قائل کے چوتھے اور آخری صاحبزادے، قاضی منظر حیات، سندھی کے معروف شاعر اور مقبول مصنف، مصّور و خطاط ہیں۔

قاضی عبدالحئی ”قائل“ کا آخری سفر بھی بڑا خوبصورت، یادگار اور قابلِ رشک تھا۔ وہ جولائی 1989 ء میں اپنے داماد اور اُن کی والدہ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہوئے، جہاں سالم صحت اور چابک دستی کے ساتھ حج ادا کرنے کے 10 دن بعد معمولی علالت کے بعد، مکہء معظمہ میں، آج سے 30 برس قبل، یعنی 23 جولائی 1989 ء کو جمعرات کے روز اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اگلے دن خانہء کعبہ میں بعد نماز ِجمعہ اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور اُن کو پیغمبروں اور اصحاب ِ انور کے قبرستان ”جنت المعلیٰ“ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ایک عظیم انسان کا عظیم طریقے سے عظیم شہر میں سفرِ حیات تمام ہوا۔

قاضی عبدالحئی ”قائل“ اپنی زندگی کو لوگوں کی خدمت میں صرف کرتے ہوئے، اللہ کے مقبول بندوں میں شمار ہو گئے اور اُن کے پیچھے اُن کا نام ادب، صحافت خواہ تعلیم و تدریس کے میدان میں آج بھی یاد رکھا جا رہا ہے۔ اُن کی تعلیمی خدمات کے تسلسل کے طور پر پچھلے 20 سالوں سے تعلیمی خدمات میں سرگرداں ”قاضی عبدالحئی ماڈل اسکول“، جبکہ اُن کی ادبی خدمات کی نشرواشاعت کے لیے قائم ”قاضی عبدالحئی قائل اکیڈمی“ اُن کے کام اور نام کا روشن حوالہ اور اُس کا اُجالہ بن کر، آنے والی نسلوں تک پہنچنے کے لئے بر سرِ پیکار ہے اور قاضی عبدالحئی ”قائل“ کے نام اور وجود کی خوشبو آج بھی سندھ کے ادبی اور تدریسی حلقوں کو مہکائے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).