بھلا پرفیکٹ بھی کچھ ہوتا ہے؟


موٹی آنٹی ہم آگئے۔ چھوٹی نے سیڑھیاں چڑھتے ہی نارے کو آواز لگائی۔ وہ پہلے ہی دروازے کے عین سامنے بازو پھیلائے کھڑی تھی۔ زور سے بچوں کو بھینچ کر پیار دیا اور میری طرف بڑھی۔ نارے کو جپھی لگانے کے لئے بازو انکریڈبل فورس والے چاہیے ہوتے ہیں۔ محترمہ نے خوب وزن بڑھا رکھا تھا اور پہلی نظر میں یوکوزونا (پہلوان) کی رشتے دار لگتی تھی۔

ہم وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئے بچے ادھر ادھر تخریب کاری میں مصروف ہوگئے اور ہر چند منٹ بعد کبھی میں اور کبھی نارے کسی پیٹی ماسٹر جیسی آواز میں ان سب کو لائن حاضر کرتے کہ سکون سے بیٹھ جاؤ حالانکہ یہ کہنا بنتا بھی نہیں تھا کیونکہ ہمارے کہنے سے میاں صاحب نے کبھی سکون نہ لیا تو ان کی اولاد میں تو یوں بھی بجلیاں بھری پڑی تھیں جب تک دو چار کو کرنٹ نہ لگا لیں اور کہیں کہیں بجلی نہ گرا لیں، سکون ممکن نہ تھا۔

اچھا بتا کیا کھائے گی؟ نارے نے ہاتھ میں تھامے رشین سلاد کا ڈونگا میز پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔ کوفتے انڈے بھی تیار ہیں بالکل اگر کہتی ہے تو نان منگوالوں؟ میں نے ایک پلیٹ میں سلاد ڈالتے ہوئے نارے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

میرے لئے یہ بہت ہے اور بچے تو آج گھر پہ کچھ کھانے کے موڈ میں نہیں بس نکلتے ہیں پارک کی طرف تاکہ ان کی انرجی کھیل کود میں لگے۔

ہائے سعدی! میں جو ڈھیر سارا کھانابنا کر بیٹھ گئی دال اور سبزی بھی بنا لی وہ کون کھائے گا؟ نارے نے پھپھے کٹنی کی طرح ہاتھ نچا نچا کر طعنے دینے کے انداز سے کہا تو میں نے ایک نظر اوپر سے نیچے تک نارے کو دیکھا جو مجھے ڈھیر سارے کھانے کے ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کررہی تھی۔ جو حال وہ اپنا بنا چکی تھی کھا کھا کر وہ تو بالکل مختلف داستان سنا رہا تھا۔ واپس آکر کھائیں گے رات کو ایک ہی بار جب بھائی صاحب اور لڑکے واپس آجاتے ہیں۔ ابھی تو جلدی سے تیار ہو۔ میں نے پہلے سے تیار نارے کو مزید تیار ہونے کا کہا تو وہ بولی۔ میں تو تیار ہی ہوں پر جائیں گے کدھر یار؟ لو جی نارے کو پھر فکریں لاحق ہونے لگیں۔

یار تو ریڈی ہو یہاں سے نکلیں گے تو دیکھ لیں گے پارک جانا ہے یا سینما۔ ابھی تو دیر نہ کر پھر شام ہوجائے گی اور مجھے واپس گھر بھی جانا ہے۔ میں نے مزیدار سلاد کا چمچ بھرتے ہوئے اس کو پھر تاکید کی۔ کچھ ہی دیر میں ہم سب گلی میں کھڑے تھے اور کسی ٹیکسی کی تلاش میں تھے۔ نارے اپنے میاں اور بیٹے کے سوا گھر سے باہر نہ جایا کرتی تھی اور کبھی ٹیکسی رکشہ میں شاید ہی بیٹھی ہو۔

سعدی مجھے کوئی تجربہ نہیں میاں کے بنا اس طرح ٹیکسی میں بیٹھنے کا۔ ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے تقریبا گھورتے ہوئے اسے دیکھا تو کھسیانی سی ہوگئی۔ اب تیری جیسی پھرتیلی تو نہیں ناں میں دیکھ گھر سے یہاں تک آنے میں میرا برا حال ہو گیا اتنا کہاں چل سکتی ہوں۔ واقعی بچاری پسینے سے بھیگی ہوئی تھی حالانکہ بمشکل 100 / 150 گز ہی دور تھا روڈ اس کے گھر سے لیکن اس بھاری وجود نے اسے کسی قابل نہ چھوڑا تھا۔ نارے ٹیکسی تو ایک بھی نہیں آئی چل آج تجھے رکشے میں بٹھاتی ہوں۔ بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگے کہ رکشے میں بیٹھنے والے ہیں مگر نارے کا رنگ سفید ہوگیا۔

ہائے سعدی نا۔ نا۔ کبھی بھی نہ بیٹھوں رکشے میں، ڈر لگتا ہے الٹ جائے گا اور میں پوری کب آتی ہوں اس میں؟ نارے نے بہت دیر بحث کی اور آخر کار ہمیشہ کی طرح ہتھیار ڈال دیے لیکن اس کے چہرے سے پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔ ہم نے ایک قدرے کھلا سا رکشہ کیا اور نارے کو کچھ محنت کرنے کے بعد بمشکل اس میں فٹ کیا تو بچے اسے دیکھ دیکھ ہنستے رہے کہ وہ بمشکل سانس لے رہی تھی۔ وہ سخت مشکل میں نظر آرہی تھی۔ میں نے بھی طے کر لیا تھا کہ آج اسے رکشے پہ ضرور بٹھانا ہے تو خود اپنی جگہ مزید سکیڑ کر اسے ریلیکس ہونے کا کہا۔

نارے یہ ایڈونچر بھی تجھے نہیں بھولنے والا۔ ہر وقت میاں اور بچوں کے آسرے پہ رہتے تیری عادتیں خراب ہوگئیں ہیں۔ میں ابھی بات کررہی تھی لیکن نارے کی چیخیں سن سن کر رکشے والا بھی ہنسی روکنے سے قاصر تھا۔ ہائے سعدی اللہ تجھے پوچھے میں نے گر جانا۔ ہائے رکشہ الٹ جانا۔ ہائے سعدی میں نے کیوں مان لی تیری۔ ہائے ہائے۔ نارے کا واویلا جاری رہا بچے ہنستے رہے اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ بازار میں سے گزرے ہوئے ایک جگہ کھڈا آیا اور رکشہ ذرا سا اچھلا۔ اگر نارے نہ بیٹھی ہوتی تو یقینا زیادہ اچھل جاتا۔

”باجی آپ ذرا نیچے اتریں“۔ رکشے والے نے رکشہ سڑک کے ایک طرف کھڑا کر دیا۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
ہوگیا پنکچر؟

نارے نے جھٹ غصے سے میری طرف دیکھا۔ تجھے کہا تھا اب تو میرا تماشا بنا کمینی کہیں کی۔ وہ غصے سے خود کو رکشے کی قید سے آزاد کروانے کی جدوجہد کرتے ہوئے بڑبڑاتی رہی اور میں بچوں کو منع کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ اب ہنسنا بند کرو آنٹی ناراض ہو جائیں گی لیکن ان کو مجھ سے زیادہ آنٹی کا پتا تھا کہ وہ بھی انجوائے کرے گی جب بعد میں ذکر کریں گے۔ اسی لئے بار بار اسے چھیڑ رہے تھے۔ بچاری مسلسل رکشے سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔

”اوئے خان۔ یہ تو پنکچر ہوگیا اب کیا کرنا ہے؟ میں نے سر کھجاتے رکشہ ڈرائیور سے پوچھا جو اس طرف کے ٹائر کو دیکھ رہا تھا جس کے عین اوپر نارے بیٹھی تھی اور اب بہت محنت کے بعد نیچے اترنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ “ باجی آپ ادر سے اور کوئی شے کر لو میں اس کا کام کروائے گا ”۔ پشتون لہجے میں اس نے ہمیں بتایا تو نارے نے جیسے شکر کا سانس لیا کہ اب اسے پھر نہیں اس میں بیٹھنا پڑے گا۔ اوئے منحوسو! نارے بچوں کی طرف لپکی جو میرے موبائل سے اس کی اور پنکچر ٹائر کی تصاویر لے رہے تھے۔ میں نے رکشہ ڈرائیور کو کرایہ تھمایا اور نارے کو سڑک کراس کرنے کا اشارہ دیا۔

” سعدی میں مزید نہیں چل سکتی بس تھک گئی“ نارے جو ابھی بمشکل بیس قدم بھی نہ چلی تھی پھر شور مچانے لگی تو میں نے اس پر ترس کھاتے ہوئے خود ہی جاکر ٹیکسی لانے کا ارادہ کیا۔
پارک پہنچ کر بچے ہماری دسترس سے باہر ہوگئے اور ہم دونوں ایک بنچ پر جا بیٹھے۔
بچے تھوڑی دیر بعد آجاتے کہ مزید پیسے دیں اور جھولے لینے ہیں اور میں بار بار ٹکٹ دلواتی رہی کہ جی بھر کے جھول لیں کافی عرصے بعد اس طرف کا چکر لگا تھا۔

گول وہیل پر مجھے ساتھ بیٹھنا پڑا اور جب جھولا اوپر جاکر رکا تو میں نے اونچائی سے شہر کی اور پارک کی تصاویر لے لیں۔ ایک قبرستان اور اس میں چند بوسیدہ قبریں عدم توجہی کا شکار تھیں۔ خیال آیا کہ کتنی دیر لگتی ہے انسان کو یہاں سے وہاں منتقل ہونے میں؟ محض چند گھنٹوں میں تمام انتظامات ہوجاتے ہیں وہی آپ کے پیارے آپ کو منوں مٹی تلے چھوڑ کر اپنے گھروں کو پلٹ جاتے ہیں۔

”ماما مجھے ابھی اور جھولنا یے“۔ میں ابھی اپنی سوچ میں گم تھی کہ پتا ہی نہ چلا کب جھولا بند کر دیا گیا اور اب پھر ٹکٹ کے لئے خاصے دور ٹکٹ گھر تک جانا مشکل نظر آرہا تھا حلانکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میری مٹھی ڈھیر سارے ٹکٹوں سے بھری پڑی تھی۔ یہ بھی بڑی ہی زیادتی ہے کہ اچھی خاصی قیمت کا ٹکٹ چند منٹوں میں پورا ہوجاتا ہے۔ شدید غصیلی قوم کو نہ تفریح کے مواقع میسر ہیں اور نہ ہی کوئی کارآمد ادارہ جو ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں عوام کا مددگار ہو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2