نیوزی لینڈ ہارا نہیں تھا مگر انگلینڈ جیت گیا


کرکٹ کی پوری تاریخ میں ایسا میچ شائقین کرکٹ نے نہ دیکھا تھا نہ شاید آئندہ دیکھ پائے۔ ایسے لمحے روز روز نہیں آتے۔ لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں ورلڈ کپ کا فائنل میچ ٹائی ہوا۔ سپر اوور پہ میچ کا فیصلہ تھا۔ وہ بھی ٹائی ہوا۔ نہ کوئی جیتا نہ ہارا۔ باؤنڈری کاؤنٹ کا ظالم تیر نیوزی لینڈ کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ پہلا ورلڈ کپ جیتنے کا خواب حسرت بن کے رہ گیا۔ انگلینڈ کو ورلڈ کپ اٹھانے کا پہلا موقع میسر آیا۔

چھوٹے چھوٹے لمحے کتنے بڑے نتائج کے متحمل ہوتے ہیں۔ ذرا میچ کے آخری دو چار اوورز پھر سے دیکھیے۔ کیسے قسمت کی دیوی پل پل رنگ روپ بدلتی ہے۔

میچ کے انچاسویں اوور کی چوتھی بال نیشم نے سٹوکس کی طرف پھینکی ہے۔ نیشم جس نے انگلینڈ کے ماہان بلے بازوں کو بھی کھل کر نہیں کھیلنے دیا۔ یہ بال بھی انگلیوں میں گھما کے یوں پھینکا کہ سٹوکس پورا ٹائم نہیں کر سکا۔ گیند فضا میں تھی کہ دونوں ٹیموں اور ان کے سپورٹرز کے دل حلق میں آئے جاتے تھے۔

اس پل سٹوکس کا دل کیسا دھڑکا ہو گا۔ وہ سٹوکس جو دو ہزار سولہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ فائنل کے آخری اوور میں ویسٹ انڈین آل راؤنڈر بریتھ ویٹ سے مسلسل چار چھکے کھا بیٹھا تھا۔ اور ورلڈ کپ ہروانے کا بوجھ اٹھائے پھرتا تھا۔ وہ مایوس کن لمحے بھی ضرور اس کو کچوکے لگا رہے ہوں گے۔ وہ پرانے زخموں کو بھرنا چاہتا ہو گا۔ انگلینڈ کی اننگز کو سہارا دیا تھا۔ ہارڈ ہٹر ہونے کے باوجود سنگلز ڈبلز سے جیت کے قریب پہنچا تھا۔ نو گیندوں پہ بائیس رنز درکار تھے۔

گیند باؤنڈری کے اندر ہی رہ گئی جس پہ بولٹ لپکا اور کیچ دبوچ لیا۔ کیچ پکڑنے کے بعد دایاں پاؤں زمین پہ پڑا۔ ایک لمحے کو لگا کہ انگلینڈ کا قصہ تمام ہوا۔ بولٹ نے کیچ کیا پکڑا گویا ورلڈ کپ کا ٹائٹل تھام لیا۔ لیکن اس کا بایاں پاؤں گھاس پہ نہیں اترا۔ وہ باؤنڈری کے اشتہارات والے گتوں پہ لینڈ کر گیا۔ یہ کیچ نہیں ہے۔ چھکا ہے۔ اس لمحے نیوزی لینڈ کے ہاتھ سے گویا ٹرافی کھسک گئی۔ سٹوکس پہ قسمت اب کے بار مہربان دکھائی دے رہی تھی۔

آخری اوور میں انگلینڈ کو پہلا ورلڈ کپ جیتنے کے لیے پندرہ رنز درکار ہیں۔ بولٹ کے ہاتھ میں بال ہے۔ بولٹ جس کے بنا بہترین بالرز کی فہرست ادھوری رہ جاتی ہے۔ صیحح نشانے پہ بال پھینکنے کا ہنر جاننے والا بولٹ۔ پہلی دو گیندیں ایسی پھنکیں کہ سٹوکس کو رن بنانے کا کوئی راستہ نہ سوجھا۔ جیت نیوزی لینڈ کے دامن سے لپٹی نظر آنے لگی۔ تیسری بال ٹھیک نشانے پہ نہیں بیٹھی۔ ورلڈ کپ فائنل کا فائنل اوور تھا۔ اور بولٹ مشین تو نہیں کہ پریشر فیل نہ کرے۔ سٹوکس نے چھکا داغ دیا تھا۔ توازن کھو کر بھی گیند کو سٹینڈ میں پھینک دیا تھا۔

سٹوکس دل میں ضرور کہتا ہو گا ٰکم آن سٹوکس آج پرانے پاپ دھو دے۔ اس ڈراؤنی یاد کے کالے بھوت کو کچل ڈال جو دو ہزار سولہ سے دماغ میں بیٹھا دانت نکوس رہا ہے۔

آخری اوور کی چوتھی بال کو بھلانا شاید ممکن نہ ہو۔ سٹوکس کی شاٹ گپٹل کی طرف گئی۔ گپٹل جو دو ہزار پندرہ ورلڈ کپ کا ٹاپ سکورر رہا تھا۔ جس کا بلا اس ورلڈ کپ میں رنز نہیں اگل رہا تھا مگر وہ فیلڈنگ میں کمال دکھا رہا تھا۔ سیمی فائنل میں ایسی تھرو ماری کہ دھونی کو پویلین کی راہ دکھلا دی۔ اور فائنل کی راہ ہموار کی۔

گپٹل اب کی بار بھی گیند پہ خوب لپکا، گیند کو اٹھایا اور سٹوکس کے اینڈ پہ شاندار تھرو کی۔ تیز اور سیدھی وکٹ پہ۔ لیکن یہ وہی چھوٹا سا لمحہ تھا جس کا نتیجہ نیوزی لینڈ کے لیے بہت بھیانک رہا۔ رن آؤٹ سے بچنے کے لیے سٹوکس نے ڈائیو کیا۔ گیند وکٹ کی طرف جاتے ہوئے سٹوکس کے بلے پہ لگی تو باؤنڈری لائن کی طرف بھاگنے لگی۔ اگرچے بہت تیز نہ تھی مگر اتنی تیز ضرور تھی کی نیوزی لینڈ کے فیلڈر کو پیچھے چھوڑ دیا اور دھیرے دھیرے باؤنڈری لائن کو جا چھوا۔ سب دم بخود رہ گئے۔ آج لمحوں نے بھی ٹھان رکھی تھی کہ نیوزی لینڈ پہ ذرہ بھر بھی رحم نہیں کرنا۔

سٹوکس ہاتھ اٹھا کہ کہہ رہا تھا کہ میں نے جان بوجھ کے بال کو روکا نہیں۔ وہ بھی دباؤ کے ان لمحوں میں پریشان سا تھا کہ اوور تھرو کے رنز بنانے کے لیے دوڑا ہی نہیں تھا۔

جو مشکل سے دو رنز تھے وہ چھ ہو گئے۔

اور نیوزی لینڈ نے کپ جیتنے کا جو تانا بانا بنا تھا وہ تار تار ہو گیا تھا۔

دو گیندوں پہ تین رنز۔ اگلی دونوں گیندوں پہ دوسرا رن لیتے ہوئے بیٹسمین رن آؤٹ ہوئے۔ سٹوکس میچ جتوا نہیں سکا۔ البتہ سپر اوور تک میچ کو گھسیٹ لایا تھا۔

نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کو دو سو اکتالیس کا ٹارگٹ دیا تھا۔ انگلینڈ کی بیٹنگ لائن کے سامنے یہ ایک آسان ہدف تھا۔ لیکن نیوزی لینڈ کے بالرز کی نپی تلی باؤلنگ نے ایک ایک رن لینا کٹھن بنا دیا تھا۔ انگلینڈ بیٹنگ لائن اپ کا گلا دبائے رکھا۔ میچ کی آخری بال تک انگلینڈ کے تمام کھلاڑی آؤٹ کر لیے اور ایک سو اکتالیس عبور نہیں کرنے دیا۔ اوور تھرو کا وہ چوکا ان کو ہمیشہ چبھتا رہے گا۔

ابھی پکچر ختم نہیں ہوئی تھی۔ ڈرامہ، تھرل، سسپنس اور کلائمیکس دیکھ چکے تھے مگر ابھی بہت کچھ ہونے کو تھا۔

دونوں ٹیموں میں نہ کوئی ہارا تھا نہ جیتا تھا۔ کیا شاندار مقابلہ تھا۔

سپر اوور پھینکنے کے لیے بولٹ پھر سے تیار کھڑا تھا۔ نیوزی لینڈ کا سٹار بالر جو بیٹسمین کو مشکل میں ڈالنا جانتا ہے۔ سٹوکس اگرچہ چوراسی رنز کی تھکا دینے والی اننگز کھیل چکا تھا مگر انگلینڈ ٹیم کو یقین تھا کہ سٹوکس میں رنز بٹورنے کی شاندار قابلیت موجود ہے۔ بٹلر ایک بہترین سٹرائیکر کے طور پہ ساتھ دے رہا تھا۔ پہلی بال پہ تین رنز بنے تو سٹوکس اتنا تھکا دکھائی دے رہا تھا کہ ابھی ریٹائرڈ ہرٹ ہو جائے گا۔ بولٹ مشکل اور یارکر بال ڈالنے کی کوشش میں تھا جیسے سٹوکس ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں بریتھ ویٹ کو نہیں کر سکا تھا۔ بولٹ کچھ کامیاب رہا کچھ ناکام۔ سٹوکس اور بٹلر نے پندرہ رنز جوڑ لیے تھے۔

انگلینڈ کپتان نے ایک جونئیر بالر آرچر کو گیند تھما دی تھی۔ نیوزی لینڈ کو پندرہ رنز تک محدود رکھنا اس کا ٹارگٹ تھا۔ نیشم نے دوسری بال کو تماشائیوں میں پھینکا تو آرچر گھبرائے نظر آئے۔ دو گیندوں پہ نو رنز بن چکے تھے۔ آرچر بے بس سا دکھائی دے رہا تھا۔ نیوزی لینڈ جیت کے زیادہ قریب پہنچ چکا تھا۔ آرچر کو سب سینئیر کھلاڑی مشورے دے رہے تھے۔

ہمت نے ساتھ نہیں چھوڑا اور آرچر ٹھیک جگہوں پہ بال پھیکتے رہے۔ اگلی تین گیندوں پہ باؤنڈری نہیں لگی مگر پانچ رنز بھاگ کے جوڑ لیے گئے تھے۔

آخری بال پہ دو رنز درکار ہیں۔ آرچر کا سامنا گپٹل کریں گے۔ گپٹل کا بلا اس ورلڈ کپ میں چلا نہیں تھا۔ اس کے پاس موقع تھا کہ اپنی ٹیم کو ورلڈ چیمپئین بنا دے۔ گپٹل فیصلہ کر چکا تھا کہ بیٹ گھمانے کی بجائے آہستہ سے کھیل کر دو رنز مکمل کیے جائیں۔

آرچر کی اچھی بال کو گپٹل نے خوبصورتی سے فلک کیا۔ گپٹل کے بوٹوں کے سپائکس زمین کو اچھی طرح پکڑ نہ پائے تھے۔ بھاگنے میں ہلکی سی دیر ہو گئی تھی۔ گپٹل نے دو رنز مکمل کرنے تھے۔ گیند پہ جیسن رائے بجلی کی سی تیزی سے لپک رہا تھا۔ فیلڈر نے گیند اٹھائی اور کیپر کی طرف زور سے پھینک دی۔ گپٹل پوری طاقت سے بھاگنے کے باوجود پیچھے رہ گیا تھا۔ ڈائیو کیا۔ ابھی کریز سے ایک قدم دور ہوا میں تھا کہ بٹلر نے گیند پکڑ کر وکٹوں کو لگا دی تھی۔ نیوزی لینڈ ٹیم کا بہترین رنر رن آؤٹ ہو کر زمین پہ پڑا تھا۔ نیوزی لینڈ کا کپتان پویلین میں اپنے بال نوچ رہا تھا۔ کیوی ٹیم کے دنیا بھر کے فین کف افسوس مل رہے تھے۔

نیوزی لینڈ نے سپر اوور بھی برابر کر دیا تھا۔ باؤنڈری کاؤنٹ کے تحت انگلینڈ ورلڈ کپ کا فاتح قرار پایا۔ اگر وکٹیں گرنے کا رول ہوتا تو نیوزی لینڈ فاتح ہوتا۔

نیوزی لینڈ ہارا نہیں تھا اور انگلینڈ جیت چکا تھا۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti