سیاسی مفاد یا ذاتی مفاد؟


ملک پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اگر غور فکر کی جائے ماضی سے لے کر حال تک ہمیں ایک قدر تقریباً ہر سیاستدان اور ہر سیاسی پارٹی میں مشترک دکھائی دے گی وہ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا پوری دنیا میں سیاستدا ن مخالف سیاستدان کے منشور اور نظرئیے پر تنقید کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں بد قسمتی سے سیاست نام ہی ذاتی کردار کشی کا ہے۔

نظریات کی سیاست کو نظر انداز کرنے کے بعد جب شخصیات کو ہی نظریہ مان لیا جائے تو پھر ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ آج ہمارے مملکت خداداد کے ہوئے ہیں۔

بچپن میں ہم ایک کہانی سنا کرتے تھے یقیناً یہ کہانی ہم سب نے سن رکھی ہوگی کہ ایک بوڑھا لکڑہارا اپنے بیٹوں کو اتفاق اور یکجہتی کا سبق سیکھانے کے لئے انہیں لکڑیاں لانے کا کہتا ہے اور پھر ایک ایک توڑنے کا حکم دیتا ہے اور بیٹے بآسانی لکڑیاں توڑ دیتے ہیں اورپھر ایک یکجا باندھے ہوئے گٹھر کو توڑنے کا کہتا ہے جو وہ نہیں توڑپاتے تو انہیں ایک درس دیا جاتا ہے کہ یوں اگر یک مشت رہو گے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

بد قسمتی کہیں یا کچھ اور آج ہمارے لیڈران جن کا فرض عوام کو سیدھی راہ دکھانا اور راہنمائی کرنا ہے وہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑے ہوئے گالم گلوچ کرتے دکھائی دیتے ہیں بجائے کہ اپنے کارکنان کی اعلیٰ تربیت کریں انہیں ایک فوج کی صورت مخالفین کے مورچے فتح کرنے پر لگا  رکھا ہے۔

تاریخ گواہ ہے دنیا کی جو قومیں کامیاب کہلائیں اُن میں سب سے پہلے ملک و ملت سے محبت اور خدمت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے باقی اختلافات ذاتی مفادات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

ہم بیرونی طاقتوں سے کیا خاک لڑیں گیں، ہم تو اپنے ہی لوگوں کے گریبان پکڑنے میں مصروف ہیں۔

سیاسی پارٹیوں کے راہنماء جب ٹی وی پر نظر آتے ہیں مخالفین کی ذاتیات پر بات کرتے نظر آتے ہیں اپنے لیڈران کا دفاع ان کے مفادات کا تحفظ دوسرے راہنما کی ہتک عزت ہی شیوہ سیاست بن چکا ہے۔

پارلیمنٹ عوام کی بالادستی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہوتیں ہیں عوام کے مسائل اجاگر کیے جاتے ہیں مگر یہاں پارلیمنٹ کے اجلاس کیچڑ اچھالنے سے شروع ہو کر نعرہ بازی کی گھنگھور گھٹاؤں سے ہوتے ہوئے دست گردیباں ہونے پر ختم ہوتے ہیں

پارلیمنٹ میں قانون سازی کے فرائض کو بھول کر اپنے سربراہان پارٹی کی تعریفوں اور دوسرے کی عزت خاک میں ملانے کا کام سر انجام دیا جاتا ہے۔

ہمارے میڈیا چینلوں پر روزانہ درجنوں سیاسی پروگرام نشر ہوتے ہیں مجال ہے کہ دیکھنے اور سننے والوں کو سوائے چیخ و پکار اور گالم گلوچ کے علاوہ کوئی اصلاحی گفتگو یا تنقید برائے اصلاح کا کوئی عنصر ملے جس سے فائدہ ملک و قوم کا ہو ہاں البتہ ایسے پروگرامز سے میڈیا مالکان کو ضرور فائدہ ہوتا ہو گا۔

ہمارے سیاست دان گھنٹوں بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتے ہیں نتیجہ صرف مخالف کے ماضی اور حال کی دھجیاں بکھیرنا ایسے ایسے الفاظ ہمیں سننے کو ملتے ہیں جو دو بندوں کے سامنے بولنے پر کوفت ہوتی ہے مگر لائیو کیمروں کے سامنے ببانگ دہل بول دیے جاتے ہیں۔

ہر آنے والا قوم کو نئے سبز باغ دکھاتا ہے بہلاتا ہے اور مفاد کی خاطر عوام الناس کا نعرہ لگاتا ہے اور اپنی جیبیں بھرتا ہے اور پھر الیکشن کے دنوں میں مظلوم و مجبور بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

سات دہائیوں سے وہی تماشا رچایا جا رہا ہے بس کردار بدل بدل کر عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔

برس با برس سے قوم کے خوابوں کو ذاتی مفادات کی چکی میں پیس کر انہیں بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہانکے جا رہے ہیں۔

کوئی سوال کرنے والا نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا فارمولا حقیقت میں جہاں برتا جا رہا ہے وہ ہمارا دیس ہی ہے۔

ہمارے بوڑھے باپ نے بھی ہمیں ایمان اتحاد تنظیم کا درس دیا تھا وہ بھی ہمیں کہتا تھا۔

ایمان یعنی نظریات کے تحفظ میں غفلت نہ کرنا نظریہ خدمت ہو کبھی نفرتوں ذاتوں یا ریتوں کے بھنور میں آ کر اپنا شیرازہ نہ بکھیر لینا متحد رہنا اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور نظم و ضبط کا سہارا کبھی نا چھوڑنا۔

ہائے افسوس آج وہ بابائے قوم اپنی تربت میں بے چینی میں کروٹیں بدل بدل کر کہتا ہو گا میں نے تو اتحاد کا کہا تھا تم سب نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑی کر دی اور باقی سب کو دھتکار دیا۔

خدارا قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح مت دیجئے۔

کوئی بھی قوم تب ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے جب اُسکے لیڈران کے نظریات پختہ ہوں اور شفاف ہوں وہ شخصیت نظر نہ ہو شخصیت پرسی نہ ہوں۔

ہمیں آج نظریاتی لیڈر شپ کی ضرورت ہے نہ کہ روایتی لیڈرشپ کی۔ جو قوم کی خدمت کو عبادت سمجھتا ہو ذاتی مفادات کو آگ میں جھونک کر آئے تب یہ ملک ترقی کی راہوں کا مسافر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).