سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کی


پتا نہیں ہماری دوست شیریں مزاری کو اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ اُنہوں نے کہہ دیا کہ پاکستان میں پورنوگرافک فلمنگ کی شرح سارے ملکوں سے زیادہ ہے ’’کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے‘‘، یہ وہ اعداد و شمار ہیں کہ جو اندازے کے مطابق ہیں۔ ابھی تک گھروں میں ایسی باتوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ یہ وہ باتیں جو ظلم کی پاداش میں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ ہر چند میڈیا میں تربیتی اشتہار آنے تو شروع ہوئے ہیں مگر یہ مسئلہ صرف لڑکیوں کا نہیں ہے۔ لڑکے بھی ان قبیح حرکتوں کا شکار ہوتے ہیں۔

جس میں مذہبی عبادت گاہوں کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ تمام یورپ میں خاص کر پوپ نے بھی ایسی حرکات کی تکذیب کی ہے۔ دلی میں تو اکیلی خاتون ٹیکسی میں سفر کرتی ہوئی محفوظ نہیں ہے۔ وہ مسلم ممالک جہاں آج تک درجنوں بیویاں رکھنے کا اختیار، بادشاہوں اور شہزادوں نے خود اختیار کیا ہوا ہے وہاں بھی ذرا سی جنبش ہوئی ہے اور خواتین نے علیحدگی کا اعلان شروع کیا ہے۔

پاکستان میں تو کوئی خاتون خود اختیاری حاصل کرے تو کبھی کاری کر کے تو کبھی غیرت کے نام پر قتل کر کے جشن منایا جاتا ہے کہ عزت بچ گئی۔ یہ صورتحال اتنی بڑھی ہے کہ آج کل آٹھ اور دس بندوں کے خاندان کو کبھی قتل یا زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ قانون حرکت میں ضرور آتا ہے مگر ایک آدھ دن کے لئے، سامنے تازہ واردات آجاتیہے۔

اخلاقی انحطاط کے بعد یونیسکو کی اطلاعات کے مطابق 2030میں پاکستان میں چار میں سے ایک بچہ پھر بھی ناخواندہ رہے گا اور پھر اپنے ذاتی تجربے کے مطابق، پنشن زدہ لوگوں کے بہبود کے علاوہ دیگر سرٹیفکیٹ پر 20فیصد ٹیکس کٹے گا۔ ایک بے ہودہ محاورہ یاد آتا ہے کہ ’’گنجی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی‘‘ دنیا اور شریکوں سے پردہ رکھا ہوا تھا کہ ہم پنشن زدہ کسی نہ کسی طریقے سے ٹیکسوں کا بوجھ سہہ جائیں گے مگر کیسے اگر ملکی مصنوعات پہ 5فیصد درآمدی پر 20فیصد ہوتا تو پھر بھی صبر کر لیتے۔

یہ بھی سن رہے ہیں کہ کسی چیز پر ٹیکس نہیں بڑھایا صرف بجلی اور دیگر چیزوں کی قیمتوں میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ میں نے اگر اکنامکس نہ پڑھی ہوتی، میں نے اگر دنیا بھر میں سفر کا ذائقہ نہ چکھا ہوتا، دنیا بھر میں ڈسٹ بن سے کھانے کی چیزیں نکالتے ہوئے اور اپنے ملک میں کاغذ چنتے بچے، عورتیں نہ دیکھے ہوتے، چرس پی کر دفتروں اور بلڈنگوں کے سامنے داڑھی بڑھے گندے کپڑوں میں بھیک مانگتے ہاتھ اور گود میں بچہ اٹھائے عورتیں نہ دیکھی ہوتیں تو یہ سارے ٹیکس مجھے کیا، ہماری پوری قوم کو روا تھے یہ آموں کی فصل ہے مگر 30روپے کلو آم ہم نہیں خرید سکتے، البتہ بڑے دکاندار جب صبح کو پھل سبزیاں سجائے ہوئے خراب مال پھینکتے ہیں تو سامنے حریص نظروں سے دیکھتے ہوئے بچے اور عورتیں وہ سڑا ہوا پھل لیکر بھی خوش ہوتے ہیں۔

اب تو ٹوئٹر پر بھی کچھ صحافیوں کو لکھنے سے منع کردیا گیا ہے۔ یہ میں لکھ رہی ہوں، جانتے ہوئے کہ کوئی بھی مجھے گالی نما کوئی بھی بیان دے سکتا ہے مگر اس ماحول میں آپ مجھے جنونی، خر دماغ اور نجانے اور کیا کیا کہہ سکتے ہیں۔ کوئی مجھے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اسے سیاست اور ہماری مشکلات کا اندازہ نہیں حالانکہ اسے سمجھ ہو تو اسے سمجھ آجائے کہ ہمیں کسی کی بات مان کر حکومت کرنا پڑ رہی ہے۔

بس چند ماہ دشوار ہیں پھر دیکھنا ہمارے جلوے۔ یہ ساری داستان لکھتے لکھتے، میں سیونگ سینٹر گئی میرے ہاتھوں میں طوطے ہوتے تو وہ یقیناً اُڑ جاتے کہ غریب بے چارے میری طرح کے بچت میں سے کچھ پیسے نکلوانے جائیں تو وہاں بھی ٹیکس کی کٹوتی حاضر ہے۔ میں جانتی ہوں کہ امریکہ کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہماری آدھی تنخواہ تو ٹیکسوں میں چلی جاتی ہے مگر انہیں سہولتیں بھی تو ملتی ہیں۔ ہائی اسکول تک مفت پڑھائی، علاج معالجہ مفت، ہماری حکومت بھی یہی کرے تو لوگ ٹیکس دینے سے کیوں بھاگیں؟

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).