پِچھل پیری، میم صاحب اور پپو میراثی


وہ دیکھو پِچھل پیری۔ !

” ہاں ہاں۔ ہنی جلدی چلو۔ ورنہ بچہ کمپنی ڈر کے مارے بے ہوش ہو جائے گا“

” تم ٹھیک کہتے ہو۔ میرے پیچھے پیچھے آؤ اور ایسا ناٹک کرو کہ پِچھل پیری کے پیر سیدھے ہو جائیں“

” یو ڈونٹ وری ڈئیر۔ آج سے یہ تماشا بند سمجھو۔ “

” ہا۔ ہا۔ ہا۔ اور ہمارا ناٹک شروع“

بھرے بازار کی پر سکون زندگی میں ایک ہنگامہ خیز شور گرد آلود بگولے کی طرح گھومتا اور مقامی سرگرمیوں کی خاک اُڑاتا ہے۔ قریبی سکولوں میں چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی حواس باختہ بچوں کی چیخیں ہر خاص و عام کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دُکاندار، راہگیر اور ارد گرد کا م کرنے والے سبھی بھاگتے ہوئے اُس چھوٹے سے چوک میں پرانے برگد کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں جہاں ایک پِچھل پیر ی سفید اور شرپسند دانت کچکچاتے ہوئے اپنی سانسیں بحال کر رہی ہے۔

ماحول پر ایک ملگجا پن طاری تھا جواب تشکیک کے رنگوں سے ملتا ہوا بازارکی درو دیوار پر ایسے پھیل جاتا ہے جیسے روایتی پھیکے پن کو حیرت کا لباس پہنا دیا گیا ہو۔ تین چار سو سال پرانے قصبے کے اس بازار سے کئی کھیل تماشے اپنے سوالیہ نشان چھوڑ کر گزر چکے ہیں۔ پہلے کی طرح آج بھی لوگ تجسس کی پیاس بجھانے پرانے برگد کی چھاؤں تلے ڈیرے ڈال رہے ہیں۔ ان کو تو تبدیلی چاہیے تھی بھلے وہ ایک آدھ گھنٹے ہی کی کیوں نہ ہو۔ سو کوئی پچھل پیری پچھل پیری کہتا بھاگتا آ رہا ہے اور کوئی چڑیل چڑیل کہتا لوگوں کے حواس غدر کرتا ہے۔

پیٹ کی آگ سے مجبور پِچھل پیری بے خبری کی بُکل مارے برگد کی ننگی موٹی جڑوں پر بیٹھی ہے۔ کوئی ڈرے یا مرے۔ تیوڑیاں چڑہائے یا چیخیں مارتا بھاگ جائے۔ ایندھن لے کر گھر جانا ہے۔ پاس ہی ایک بوسیدہ سی چادر پڑی ہے۔ جو سمجھدار ہیں وہ کچھ نا کچھ پھینکتے جا رہے ہیں۔ جو نہیں وہ ان کی نقل میں ایسا کررہے ہیں۔ اس روایتی بازار کی آنکھیں عادی ہو چکی ہیں۔ پرانے برگد کی جڑوں کا تخت ان کے لیے کوئی نیا حیرت کدہ بھی نہیں۔ ان جڑوں کے گرد دائروں میں لوگ جمع ہوتے ہی رہتے ہیں، ہر طرح کے، بچے بوڑھے جوان۔ جان انجان۔ اس لیے وہ آگے بڑھتے ہوئے جسموں اور اُن کی نظروں سے بالکل بھی پریشان نہیں۔

” مگر یہ دو کون ہیں۔ ؟ “

مخالف سمت سے جواب گرجتا ہے، خبردار۔ !

پچاس ساٹھ چھوٹی بڑی کھوپڑیاں ایک ساتھ یوں گھومتی ہیں جیسے کسی نے عقب سے وار کیا ہو۔

” تم چڑیل کا بچہ اگر اپنی جگہ سے ہلا تو ہم گولی مار ڈے گا“

سیاہ لباس میں ملبوس پِچھل پیری نے زمین پر ہاتھ پاؤں پٹخے، کالے بالوں کو دائیں بائیں جھٹکے دیے، بن مانس کی طرح بڑھکیں اور چیخیں ماریں رانوں اور تختہ چھاتی پر دوہتڑیں ماریں، بڑی چڑیلی چالیں چلیں مگر وہ دونوں کسی نو آبادی چارٹر کی تکمیل میں اس کے گرد دائرے کھینچتے چلے گئے۔ پِچھل پیری نے ایک بھر پورجست لگائی تاکہ ان دونوں کو ڈرا سکے مگر سفید فام لڑکے نے اس کے سر کے بال پکڑ لیے اور جلدی سے اس کی چادر اُتار دی۔

چڑیل کے وار سے پہلے ہی لڑکے نے اس کے گلے میں چادر ڈال دی اور تیزی سے بَل دینے لگا۔ پِچھل پیری کا سانس پھولنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کسمسانے اور کلبلانے لگی۔ مارے حیرت اور تکلیف کے اُس کی آنکھیں باہر آنے لگیں۔ تماشائیوں کی طرح اسے بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ لوگ ٹکٹکی باندھے اس نئے تماشے کو دیکھتے جا رہے تھے۔ چڑیل کسی بھی قیمت پر ہارنا نہیں چاہتی تھی نہ ہی ہجوم کے سامنے بے بسی سے بے لباس ہونا چاہتی تھی۔ لیکن دشمن اس کی چالوں سے زیادہ طاقت ور تھے۔ جب اُس پر مکمل قابو پا لیا گیا تو سب سے پہلے سفید فام لڑکی نے آگے بڑھ کر اس کے نقلی کان اور بال اور بھوئیں اتاریں اور چادر کے کونے سے اس کا منہ صاف کرنے لگی۔ پھر حیرانی سے بولی،

” ہائیں۔ ہنی۔ ! یہ ٹوبرکٹ میراثی ہوٹا۔ “

برکت نے ہاتھ جوڑ کر اور تھوڑا جھجکتے ہوئے کہا، ”ہاں میں برکت میراثی ہوں پر شاہ جی اپنا تعارف وی کراؤ“

میم صاحب کی طرف مُڑی اور بایاں پاؤں زمین پر پٹختے ہوئے پوچھنے لگی۔

” ہنی ہم شاہ ہوٹے۔ ؟ “

”Y not ڈارلنگ۔ جو بھی شاہ ہوٹا ہماری ٹرح گورا چٹا ہوٹا، گورے گورے کا م اور گوری گوری باٹیں کرٹا“

میم پِچھل پیری کو تہ در تہ کھولتی ہوئی پوچھنے لگی، ٹو آج ہم گوروں والے کام کریں گے؟

”yes، yes مائی ڈارلنگ ہم وقٹ کا باڈشاہ ہوٹا، جو ڈل میں آئے۔ کرنے کا“

دانتوں کے بعد پیروں سے کٹے بھاری بھاری پاؤں اور پھر دُم، ایک ایک چیز اُتارنے کے بعد میم لوگوں کو ایسے دکھاتی جیسے نیلام گھر میں تشہیر کر رہی ہو۔ ہر بار لوگ تالیاں بجا کر داد دیتے اور اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر برکت میراثی کو جانتے ہیں جو آئے دن کسی نئے بہروپ میں گلیوں، بازاروں کا چکر کاٹتا اور اپنے مداحوں سے پانچ دس روپے کی داد وصول کرتا یا پھر شادی بیاہ کی محفلوں میں غزلیں گا کر اپنے سریلے ہونے کا ثبوت دیتا۔ جہاں کہیں بھی دوچار لوگوں کا اکٹھ دیکھا، بُکل سے پیٹی یاڈھولک نکالی اور سُروں کے ساتھ وہ ستائیاں انترے نکلے کہ اُستاد وں کی یاد تازہ ہوگئی۔

پہلی بار جب وہ پِچھل پیری کے ناٹک کی ریہرسل کرنے لگا تھا تو بے چین سا نظر آیا۔ اس چڑیل کو اُس نے زندگی میں کہیں بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک وہم کو تجسیم کرنا یا کسی بھیانک سانچے میں اپنے وجود کو ڈھالنا بڑا مشکل عمل تھا مگربرکت فن کی سنجیدگی سے لا علم نہیں تھا۔ اسی فن میں اسے سہولت بھی تھی کیونکہ اس نے بار ہا اپنے اباؤ اجداد کو اس روپ میں ڈھلتے دیکھا تھا۔ وہی کالے لباس پر روایتی سیاہ چادر، نقلی بال، میدہ، موٹے ہونٹوں کو سرخ کرنے والا رنگ، کالی لمبی بھنویں، لمبے لمبے دھاگوں والی گچھے دار کالی سی دم اور وہی پھٹے پرانے ٹائروں والے جوتے جو وہ خود کبھی نہ پہنتا، ہمیشہ بیوی بچے ہی پہناتے جو دربانوں کی طرح پاس کھڑے رہتے۔ صبح سویرے اپنے باپ کو ایک خوفناک چڑیل کے روپ میں ڈھلتے دیکھنا کسی مذہبی رسم کی ادائیگی سے کم نہ تھا۔ برکت مطمئن رہتا کہ بچے کچھ سیکھ رہے ہیں۔

اس چلتے پھرتے ڈرامے کا مرکزی کردارہونے کے ناتے وہ بہروپ کی سجاوٹ اس لگن سے کرتا کہ کبھی کبھی تو اُس کی بیوی بھی آنکھیں جھپک کر پوچھتی ”برکت جی! اے تُسی او۔ ؟ “ جواب میں برکت سنہری رنگ کا دانت نکال کر ہنستا تو وہ پھر کہتی ”تُسی تے جی واقعی ڈرامے وِچ برکت پا دتی اے“ لیکن وہ اپنی مسند سے ہلے بغیر گرم گرم چائے کے ساتھ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتا، کھانستا اور ناٹک کے پلاٹ میں گم ہوجاتا جیسے خود ساختہ زندگی کے حق میں فیصلہ کر چکا ہو۔

اپنی زندگی میں برکت نے کئی فیصلے کیے اوررفتہ رفتہ یہ فیصلے برکت کے دروبام بوسیدہ کرتے چلے گئے۔ جس دن وہ کچھ کماکے گھر آتا اس دن کئی یار دوست اس کے پاس بیٹھے سگریٹ پیتے، ٹانگیں پسار کر چارپائیوں پر لیٹ جاتے، برکت کی جوانی کے دور کے گانے گاتے اور چائے پکوڑوں پر برکت کے لازوال فن کی داد دیتے۔ میلوں منڈیوں کے دنوں بھی حالات کچھ ایسے ہی رہتے کیوں کہ برکت بس مقدر کے بازار میں رزق تلاش کرتا۔ ایک تو غزلیں سننے والے بھی تیزی سے کم ہوتے جا رہے تھے اور دوسرا برکت میراثی کی خواہش ہوتی کہ کچھ سنے بغیر ہی لوگ اس کی جیب بھاری کر دیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3