کپتان کے امریکی دورے کی اندرونی خبریں


وفد کے ایک رکن سے جب پوچھا گیا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ بحال ہو جائے گا؟ کیا پاک امریکہ تعلقات کی کوئی نئی بنیاد رکھی جا رہی ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا گیا کہ نہ ہم کوئی بھیک مانگنے آئے ہیں نہ کوئی فنڈ لینا مقصد ہے۔ افغانستان میں ہم بھی امن چاہتے ہیں، ہم کوئی نئی جنگ نہیں چاہتے۔ اپنے خطے میں امن چاہتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ ایجنڈا پر وہی ایشو ہیں، ڈیفنس کے معاملات، تجارت، سب وہی ایشوز ہیں جو مشرف کے صدر بش کے ساتھ ملاقات کے وقت تھے۔ تب صدر بش نے امداد کا وعدہ بھی کیا تھا۔ پھر کیری لوگر بل بھی سامنے آیا۔ مجھے تو ایجنڈا میں کوئی نئی چیز دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ ضرور ہے کہ نئے حالات کے مطابق جو ضروریات ہیں، وہ اس میں موجود ہیں۔

امریکہ افغانستان میں اب اپنی پہلے جیسی موجودگی نہیں چاہتا۔ وہاں سے وہ اب واپس آنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اسے اردگرد کے ملکوں میں بھی امن کی ضرورت ہے کہ وہ امن کے ساتھ واپس آئے۔

یہ کہنا کہ ہم کولیشن سپورٹ فنڈ کے لیے نہیں آئے، درست نہیں۔ ایک طرف ہم دعوی کرتے ہیں کہ یہ تو وہ رقم ہے جو ہم خرچ کر چکے ہیں۔ یہ تو ہمارے پیسے ہیں، جو ہمیں ملنے چاہئیں۔ یہ تو اک قسم کا ہمارا قرض ہے امریکہ پر۔ اب اپنا قرض واپس لینے کی بات تو سب کرتے ہیں۔ کیا ہم یہ بھی نہیں کر رہے۔

ابھی تک اس دورے کے بارے میں خاموشی کا عنصر غالب ہے۔ دونوں اطراف خاموشی سے ہی چل رہی ہیں۔ جب ہم سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے پاس جاتے ہیں تو وہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ آپ وائٹ ہاؤس جائیں کیونکہ یہ دورہ وائٹ ہاؤس ہی کنڈکٹ کر رہا ہے۔ انہی کی دعوت پر یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔

اب نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ پاکستانی وفد مائیک پومپیو سے بھی مل رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوں گی۔ کیپیٹل ایرینا میں ایک جلسہ بھی ہے۔ بزنس کمیونیٹی سے ملاقات کروانے کے لیے علی جہانگیر صدیقی بہت سرگرم ہیں۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر پروگرام میں امریکیوں کی بجائے کوئی پاکستانی بہت متحرک ہے جو لیڈ کر رہا ہے۔

مذاکرات کی جہاں تک بات ہے تو فوجی قیادت ساتھ آئی ہوئی ہے۔ وہ اپنے کاؤنٹر پارٹ سے ملاقاتیں کریں گے۔ پینٹاگان جائیں گے، ان ملاقاتوں کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ پینٹاگان اور ہمارے تعلقات میں کیا اضافہ ہوتا ہے، کیا کمی آتی ہے۔ کیا مطالبات ہوتے ہیں؟ یہ سب باتیں مذاکرات سے پہلے کہنا بہت مشکل ہے۔ مذاکرات کے بعد کوئی صورت بنے تو پھر کچھ باتیں سامنے آ جائیں گی۔

ایک سینئر ترین صحافی نے بتایا کہ مجھے بھٹو صاحب، جنرل ضیا اور مشرف کے امریکی دورے دیکھنے اور کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اگر اس مشاہدے کی بنیاد پر اس دورے کو دیکھوں تو یہ دورہ منفرد ہے۔ پی ٹی آئی نے بہت منظم طریقے سے عوامی استقبال پر کام کیا ہے۔ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ماضی کے جتنے بھی حکمران رہے ہیں۔ ان میں نوازشریف، مشرف اور بے نظیر بھٹو سے عمران خان کہیں زیادہ مقبول ہیں۔ یہ پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان ہی پاکستان کے واحد غیر متنازع اور پاپولر لیڈر ہیں۔ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ عمران خان عوامی لیڈر ہیں اور عوام ان کے ساتھ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کا پیغام صرف امریکی حکومت ہی کو نہیں بلکہ کچھ دوسرے حلقوں کو بھی پہنچایا جا رہا ہے۔

جس طرح پی ٹی آئی معاملات کو چلا رہی ہے اس سے آزاد صحافت کرنے والوں کو مشکلات بلکہ گھٹن کا سامنا ہے۔ اتنا بڑا اجتماع ہونے جا رہا ہے۔ کسی کو یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اس کا انتظام کرنے والے کون ہیں۔ کیپیٹل ایرینا کے پروگرام کا بندوبست ایک پاکستانی نے تن تنہا اپنے بل پر کیا ہے۔ کیپیٹل ہل پر کچھ ملاقاتیں اہم شمار ہوں گی۔ پہلی یہاں کی بزنس کمیونٹی سے ملاقات۔ امریکی کانگریس میں پاکستانی کانگریس مین گروپ سے ملاقات ہو گی۔

نینسی پلوسی سے بھی ان کی ایک ملاقات ہو رہی ہے۔ یہ ملاقات بھی ٹیکساس کے اہم پاکستانی بزنس مین نے طے کرائی ہے۔ کپتان کے دورے پر زیادہ تر کام سرکاری عہدیداروں سے زیادہ امریکی پاکستانی ہی کر رہے ہیں۔

ایک سائڈ پر یہ بتانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ہم کفایت شعاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب مہنگے ہوٹلوں میں کمرے بک کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم تو سفیر کے گھر قیام کر رہے ہیں۔ ان کا وفد ہوٹل میں ٹھہرا ہے۔ امریکی سیکرٹ سروس کو دہری محنت کرنے پر لگایا گیا ہے کہ وہ وزیراعظم اور ان کے وفد کے لیے الگ الگ سیکیورٹی کا بندوبست کریں۔

اس دورے پر اخراجات کرنے والے تین چار لوگ ہیں۔ ان میں ڈاکٹر عبداللہ ریاض ہیں۔ جو پہلے پی پی کے بہت قریب تھے محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں پیپلز فارمیسی کا ایک معاملہ شروع کیا گیا تھا اس کا کنٹریکٹ عبداللہ ریاض صاحب کو ملا تھا۔ یہ میرے نزدیک وہ واحد پاکستانی ہیں جو دو مختلف پاکستانی وزرائے اعظم کے دوروں میں کلیدی رول ادا کرتے دیکھے گئےہیں۔

دوسرے پاکستانی طاہر جاوید ہیں، کاروباری ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے امریکی کانگریس کا الیکشن لڑا ہے۔ کیپیٹل ہل پر کپتان کی جو ملاقاتیں ہیں کانگریس میں اور سینیٹرز کے ساتھ وہ انہوں نے ہی ارینج کرائی ہیں۔

اس کے علاوہ جاوید انور صاحب ہیں تعلق ان کا ٹیکساس سے ہے۔ آئل ٹائکون ہیں۔ ایک بڑی کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کے پاس اپنا بڑا پلین بھی ہے۔ انہوں نے ہی ایرنا کا کرایہ ادا کیا ہے۔ یہ کسی ماڑے بندے کے بس کا کام ہی نہیں ہے کہ کیپیٹل ایرنا کے انتظامات کراتا، یہاں مہمانوں کو لاتا اور انہیں ٹھہرانے کا خرچ اٹھاتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).