احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ، مریم نواز کا طریقۂ کار کام کرے گا؟


ہرے رنگ کے خاص لباس پر ایک کونے میں پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی تصویر ہے۔ ساتھ ہی ‘ووٹ کو عزت دو’ کا نعرہ درج ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر اور نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے خصوصی طور پر تیار کردہ یہ لباس حال ہی میں وسطی پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ایک ریلی کے موقعے پر پہنا ہوا تھا۔

اپنے کُرتے کے کناروں کی سیاہ پٹیوں پر ‘فری نواز شریف’ یعنی ‘نواز شریف کو رہا کرو’ کا پیغام دیتے ہوئے مریم نواز نے اپنی جماعت کے کارکنان سے خطاب کیا۔

تاہم اس علامتی لباس کے علاوہ جلسے کی ترتیب قدرے روایتی تھی۔

نواز لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے وسطی پنجاب میں لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوا جبکہ مقامی حکومت کی طرف سے جلسے کو روکنے کی مبینہ کوششیں ہوئی اور مریم نواز کی ریلی کو آغاز سے اختتام تک مقامی نیوز چینلز پر نہیں دیکھا جا سکا۔

مہم کے مقاصد

مسلم لیگ نواز کے مطابق فیصل آباد کی ریلی مریم نواز کی طرف سے احتجاجی جلسے جلوسوں کی مہم کی ایک کڑی تھی۔ آگے وہ مزید شہروں کا رُخ کریں گے۔

نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی حالیہ مہم کے بظاہر مقاصد العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سزا کے بعد جیل میں قید ‘نواز شریف کے لیے انصاف، قانون کی بالادستی، اور اظہارِ رائے کی آزادی’ حاصل کرنا ہے۔

یاد رہے کہ حال ہی میں مریم نواز کی جانب سے العزیزیہ کیس کا فیصلہ دینے والے احتساب عدالت کے جج کی متنازع ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں انھیں مبینہ طور پر ‘دباؤ میں آ کر کیس کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف دینے کا کہتے ہوئے دکھایا گیا تھا‘۔

اس کے بعد سے مریم نواز کا موقف رہا ہے کہ ‘نواز شریف کو جیل میں بند رکھنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔’

موجودہ حالات میں مریم نواز کی یہ مہم کس حد تک با اثر ثابت ہو گی اور کیا مقامی ٹی وی چینلز پر نظر نہ آنے والے علامتی لباس پر نقش ‘مقاصد’ پورے ہو پائیں گے، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کر سکتا ہے۔

پاکستانی جریدے دی نیوز آن سنڈے کی مدیر فرح ضیا کا خیال ہے کہ ان کی مہم کے مقاصد کو حقیقی طور پر دیکھا جائے تو ‘ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ نواز پر گھیرا کافی تنگ کیا جا رہا ہے۔ ان کی قیادت کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔’

تجزیہ نگار صباحت زکریا کے مطابق ‘حقیقی معنوں میں یہ مریم نواز کا مقصد نہیں ہو گا کہ نواز شریف اس سے رہا ہو جائیں گے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘مریم نواز یا کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اس قسم کی مہم کا مقصد خود کو بامقصد یا موزوں رکھنا ہوتا ہے۔’

صباحت زکریا کے مطابق مریم نواز اور ان کے اتحادیوں پر ایک تنقدید یہ بھی کی جا رہی تھی کہ جس طرح عمران خان نے حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے اپنی سیاست چلائی تھی اور ‘اس کے ذریعے حکومت پر ایک دباؤ ڈالا، وہی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا مقصد ہے۔’

ان کے خیال میں مریم نواز کی مہم کا مقصد بھی یہی ہو سکتا ہے کہ ‘جس کے خلاف آپ حزبِ اختلاف میں ہیں انھیں اپنی طاقت دکھائی جائے۔’

صباحت زکریا کے مطابق اس طرح ان کا مقصد یہ دکھانا بھی ہے کہ ‘ایسا نہ لگے کہ ان کی جماعت صرف پریس کانفرنسوں اور سوشل میڈیا تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔’

ان کے خیال میں مریم نواز موزوں طریقے سے یہ کام کر رہی ہیں۔

حکومت پر دباؤ پیدا ہو گا؟

نواز لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے رواں ماہ کی 25 تاریخ کو سنہ 2018 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف یومِ سیاہ منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان کا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں مریم نواز کی مہم اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت پر زیادہ دباؤ نہیں ڈال پائیں گی۔

راشد رحمان کے مطابق موجودہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کی سی کیفیت میں اگر تاجر برادری کے ساتھ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں جلسے جلوسوں کی شکل میں شامل ہو جائیں تو حکومت کو دقت تو ہو سکتی ہیں۔

تاہم ان کی نظر میں ‘فوری طور پر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔’

وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حزبِ اختلاف میں بھی اختلافات پائے گئے ہیں۔

‘انھیں صرف حکومتی رویہ، اور عمران خان کا یہ بیان کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، اکٹھا کر رہا ہے۔’

اس کی دوسری وجہ ان کے خیال میں یہ بھی ہے کہ ‘عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو لانے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے اور سنہ 2018 کے انتخابات متنازع ہیں مگر اس معاملے کو حزبِ اختلاف نے اس تندہی کے ساتھ نہیں اٹھایا جیسا کہ عمران خان نے گذشتہ دور میں کیا تھا۔’

راشد رحمان کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ ‘اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنی موجودہ روش پر قائم رہتی ہے تو کسی تحریک کے باوجود فوری طور پر کسی تبدیلی کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔’

فرح ضیا کے مطابق ایسی صورت میں مریم نواز کے پاس حکومت پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ لوگوں تک، اپنے حلقے تک اور اپنے ووٹر تک براہِ راست پہنچا جائے۔

‘خصوصاً اس وقت جب ان کے انٹرویو مقامی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ تو ایسے میں ان کے پاس جو بھی مواقع موجود ہیں وہ ان کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔’

صباحت زکریا کا موقف ہے کہ اس قسم کی سیاسی مہم مریم نواز کو بحیثیتِ رہنما مستحکم کر رہی ہے۔

‘اس سے قبل یہی سمجھا جاتا تھا کہ صرف نواز شریف ہی میں یہ قابلیت ہے کے وہ لوگوں کو عوامی طاقت کے مظاہرے کے لیے باہر لا سکیں۔ مگر پہلی دفعہ مریم نواز آگے آ کر اور مکمل طور پر اس کی سربراہی کر رہی ہیں۔’

صباحت کے خیال میں فیصل آباد جیسے جلسے سے ‘مریم نواز کے ایک سے زائد مقاصد ہیں اور ان کا طریقہ کار کام بھی کر رہا ہے اور کرے گا۔’

فرح ضیا بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس مہم سے مریم نواز کو بحیثیت رہنما تقویت حاصل ہو گی۔

‘مریم کے لیے یہ ایک موقع اس لیے بھی ہے کہ ان کو جماعت کے اندر ایک بڑے لیڈر کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز مہم سے جڑے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو پائیں گی یہ اس بات پر بھی منحصر ہو گا کہ آنے والے وقت میں انھیں جلسے کرنے کی کتنی اجازت دی جاتی ہے۔

‘حکومت رکاوٹیں تو کھڑی کر رہی ہے۔ اس سے قبل منڈی بہاالدین میں بھی ان کے پوسٹر اتارے گئے، راستے بند کیے گئے، اس کے باوجود بھی وہ وہاں تک پہنچیں ہیں مگر اب یہ دیکھنا ہو گا کہ آنے والے وقت میں انھیں ایسا کرنے کی کتنی اجازت دی جاتی ہے۔’

مقامی میڈیا پر بندش

مریم نواز کی فیصل آباد کی ریلی اور جلسے کے مناظر اور خبر مقامی نیوز چینلز پر نظر نہیں آئے۔ اس طرح ان کا علامتی نقوش والا لباس بھی ان چینلز کے ناظرین کی توجہ حاصل نہیں کر پایا۔

ایسے میں کیا وہ مطلوبہ اثر قائم کر پائیں، اس پر صباحت زکریا اور فرح ضیا دونوں اس بات پر رضامند ہیں کہ مریم نواز عوامی رابطوں کی ویب سائٹس یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

فرح ضیا کے مطابق ’مریم نواز نے حضوصاً ٹویٹر پر انتہائی موزوں انداز میں اپنی مہم چلائی ہے اور اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔’

صباحت زکریا نے بتایا کہ ‘اب واحد الیکٹرانک میڈیا ہی لوگوں سے رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور دیگر خبروں کی ویب سائٹس اور خبر کے پھیلانے کے ذرائع کو کافی زیادہ کارآمد سمجھا جاتا ہے۔’

ان کے خیال میں مریم نواز نے ان ذرائع کا بخوبی استعمال کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp