ٹرمپ پاکستان سے ایک نیا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں: شاہ محمود قریشی


پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔

واشنگٹن میں پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان ملاقاتوں کے بعد پیر کی شب پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ فریقین کے درمیان تین نشستوں پر محیط بات چیت میں دو طرفہ تعلقات، تجارت، افغان امن اور کشمیر کے مسئلے پر ’بڑی اچھی اور کھل کر بات ہوئی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بات چیت میں ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہم پاکستان کا نقطہ نظر پیش کریں۔‘

وزیرِ خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان روابط کو دیکھا جائے تو ایک بڑا خلا موجود تھا۔

’پانچ برس تک اس سطح کا رابطہ نہیں ہوا۔ چاہے وہ کیپیٹل ہل پر راوبط ہوں یا انتظامیہ کی سطح پر ایک خلا پیدا ہو چکا تھا۔ اس خلا میں پاکستان کے ناقدین کو اپنا نقطہ نظر ہیش کرنے کا موقع ملتا تھا اور ایک یکطرفہ موقف سامنے آتا تھا۔‘

ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش

امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے تنازعے پر ثالثی کی پیشکش کا ذکر کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’آج تک کسی امریکی صدر سے مسئلہ کشمیرکے حل کی خواہش کا اتنا برملا اظہار نہیں سنا۔‘

اس سوال پر کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے بارے میں ماضی میں بھی کئی امریکی صدور تعاون کی پیشکش کے ساتھ ساتھ اس کے حل پر زور دے چکے ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوا، پاکستانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’ایک عرصے سے تو کشمیر کا نام تک نہیں لیا جاتا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں دوبارہ جان آئی ہے۔‘

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ کی پیشکش کے بعد اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہوتی ہےتو جنوبی ایشیا میں استحکام کا امکان پیدا ہو گا۔

خیال رہے کہ انڈیا نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کی تردید کر دی ہے کہ انڈین وزیراعظم نے ان سے کشمیر کے معاملے میں ثالثی کے لیے کہا تھا۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک اور سوال پر پاکستانی وزیر کا کہنا تھا کہ’ پاکستان امن کا داعی ہے اور چاہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ساتھ حل ہو، کیونکہ دونوں ممالک جوہری قوت ہیں اور ان کے درمیان جنگ خودکشی ہو گی۔‘

افغان امن عمل

افغانستان میں قیامِ امن کی کوششیں پیر کو صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات کا محور رہیں۔

اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی افغانستان میں امن کی کوششوں کو سراہا اور افغانستان میں امن، استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کے اقدامات پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے برسرِاقتدار آنے سے پہلے اس امریکی انتظامیہ نے ایک حکمتِ عملی بنا لی تھی جس میں افغان مسئلے کا الزام پاکستان پر ڈال دیا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ عمران خان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور افغانستان می امن صرف مذاکرات کے ذریعے آ سکتا ہے۔

’امداد نہیں تجارت‘

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ ملاقات کی سب سے خوش آئند بات دونوں رہنماؤں کے درمیان دو طرفہ تجارت کے امور پر بات چیت تھی۔

انھوں نے بتایا کہ عمران خان نے صدر ٹرمپ کے سامنے یہ واضح کیا کہ پاکستان کو امداد کی نہیں تجارت کی ضرورت ہے کیونکہ تجارت سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےکہا کہ وہ پاکستان کےساتھ ماضی سے ہٹ کرمضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت 20 گنا بڑھانے کی امید رکھتے ہیں۔

دو طرفہ تعلقات

ان کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’وہ پاکستان کے ساتھ عظیم تعلقات کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایک نیا اور مختلف قسم کا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں۔‘

شاہ محمود کا کہنا تھا کہ دفاعی امور کے حوالے سے دونوں ممالک کے تعلقات تعطل کا شکار تھے اس لیے دفاعی امور پر بات چیت خوش آئند تھی۔

انھوں نے کہا کہ ملاقات میں صدر ٹرمپ نے اس بات کو سراہا کہ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت ایک صفحے پر ہے۔

وزیر خارجہ نے پچھلی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پچھلے پانچ برسوں میں اس قسم کی ملاقات نہیں ہوسکی اور نہ ہی پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ موجود تھا جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو چکا تھا جس کی وجہ سے ناقدین کو سازشیں کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔

پاکستانی وزریر اعظم نے صدر ٹرمپ کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی جو انھوں نے قبول کی۔ کل صبح سیکٹری پومپیو سے عمران خان کی ملاقات متوقع ہے ان سے بھی ہم رہنمائی حاصل کی۔

’دہشتگردوں کی مالی معاونت‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا صدر ٹرمپ کے ساتھ وزیرِ اعظم عمران خان کی ملاقات میں ایف اے ٹی ایف پر بات ہوئی، تو ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ تیسری دنیا میں غربت کی ایک بڑی وجہ منی لانڈرنگ ہے۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ کو اس کی روک تھام میں پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے، اور یہی بات انھوں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ آج کی نشست میں بھی کی۔

انھوں نے کہا کہ ‘آپ جانتے ہیں کہ دہشتگردوں کی مالی معاونت پر ہمارا عزم کیا ہے۔ موجودہ حکومت میں اس حوالے سے سیاسی عزم موجود ہے، اور ہم نے اس حوالے سے [دہشتگرد تنظیموں کے] اثاثے منجمد کرنے سمیت دیگر اقدامات اٹھائے ہیں۔

وائٹ ہاؤس اعلامیہ

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ پاکستان کے ساتھ ان معاملات پر تعاون مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے کلیدی ہیں۔

اعلامیے کے مطابق امریکہ جنوبی ایشیا کو پرامن علاقہ بنانے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے خطے کی سکیورٹی بہتر بنانے اور انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں جو ابتدائی اقدامات کیے گئے ہیں صدر ٹرمپ نے ان کی ستائش کی۔

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں کی ہیں اور اس سلسلے میں اس سے مزید کام کرنے کو کہا جائے گا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک مضبوط تعلق کا راستہ افغانستان کے تنازعے کے ایک پرامن حل کے لیے مشترکہ کوششوں سے جاتا ہے۔

اعلامیے کے مطابق پاکستان نے اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن یہ نہایت اہم ہے کہ پاکستان ہمیشہ کے لیے ان تمام گروپوں کے خاتمے کے لیے کارروائی کرے۔

انھوں نے کہا کہ ‘آپ جانتے ہیں کہ ٹیرر فنانسنگ پر ہمارا عزم کیا ہے۔ موجودہ حکومت میں اس حوالے سے سیاسی عزم موجود ہے، اور ہم نے اس حوالے سے [دہشتگرد تنظیموں کے] اثاثے فریز کرنے سمیت دیگر اقدامات اٹھائے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp