ہندراپ واقعہ: کس سے منصفی چاہیں؟


گلگت بلتستان جہاں ایک طویل عرصے اپنی آئینی تشخص اور بنیادی عوامی حقوق سے محرومی کا شکار ہے، وہیں پر یہ خطہ حکومتی عدم توجہی کے سبب اپنے ملحقہ علاقوں کے مابین حدود کے تعین سے متعلق تنازعات میں بھی الجھا ہوا ہے۔ بین الصوبائی حدبندی کے ان تنازعات کا محور پاکستان کا صوبہ خیبرپختونخوا ہے، جس کی سرحدیں براہ راست گلگت بلتستان کے ضلع دیامر اور غذر کے علاقوں سے ملتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ جن علاقوں پر آج دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن بنے ہوئے ہیں، وہ تاریخی اعتبار سے ماضی میں گلگت بلتستان کا ہی حصہ رہے ہیں۔ تاریخی حقائق پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال کا علاقہ اور شناکی کوہستان کبھی گلگت بلتستان کا حصہ تھے، جنہیں بعدازاں پاکستان کے شمال مغربی فرنٹیئر صوبے (خیبرپختونخوا) میں ضم کرکے قومی دھارے میں شامل کیاگیا۔

علاقائی حدبندی سے متعلق پیداہونے والے تنازعات کے حل کے لئے 1950 میں دیامر اور کوہستان کے عمائدین پر مشتمل علاقائی جرگہ کے ذریعے ایک تحریری معاہدہ طے پایا، جس میں بھاشا نالہ تک کے علاقے کو تھور یعنی دیامر کے عوام کی ملکیت قراردیا گیا تھا۔ لیکن بعدازاں 1960 کو سروے آف پاکستان نامی ادارے کی جانب سے اس معاہدے کوپاؤں تلے روند کر بسری تک کے علاقے کو صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ قراردیکر حدبندی تنازعہ کے نام پر علاقائی فساد کا بیج بویا گیا۔

اسی طرح ضلع غذر اور چترال کے مابین شندور سمیت دیگر تنازعات کے حل کے لئے بھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہ کیے جانے سے جغرافیائی حدبندی کے یہ تنازعات وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ، دراندازی اور مال مویشی کی چرائی میں خطہ گلگت بلتستان کے عوام کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

فروری 2014 میں ضلع کوہستان کے علاقے ہربن اور ضلع دیامر کے علاقے تھور کے عوام کے مابین محض آٹھ کلومیٹر احاطے پر مشتمل اراضی تنازعے میں لڑائی جھگڑا اور فائرنگ کے نتیجے میں نصف درجن سے زائد لوگ اپنی قیمتی جانیں گنوا گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ مسئلے کامستقل حل تلاش کرنے کی بجائے دونوں اطراف کی صوبائی حکومتوں نے بھی سوائے اخباری بیانات کے ذریعے ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرانے کے اورکچھ نہیں کیا۔ تاہم حالات کی سنگینی کے پیش نظراس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک باونڈری کمیشن کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کے احکامات جاری کیے جس کا آج تک کوئی پتہ نہ چل سکا ہے۔

2016 میں گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے مابین باونڈری تنازعات کے حل کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 ( 1 ) کے تحت اقدامات کرنے سے متعلق ایک درخواست گزاری گئی، جس کی سماعت کے لئے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل پایا مگر بدقسمتی سے تاحال اس پر بھی کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔ وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے اس اہم مسئلے کی طرف عدم توجہی کے سبب خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں خاص طورپر کوہستان اور چترال کے لوگوں کی جانب سے ضلع غذر کے بالائی علاقے شندور اور ہندراپ میں دراندازی کے ذریعے زمنیوں پر قبضہ اور مال مویشی چرانے کے واقعات آج انسانوں کی اغوہ کاری تک آپہنچے جووفاقی وصوبائی حکومتوں کے لئے باعث شرم ہیں۔

گزشتہ ہفتے ضلع غذر کی تحصیل پھنڈر کے گاؤں ہندراپ سے تعلق رکھنے والے چند نوجوان مچھلیوں کے شکار کی غرض سے جب ہندراپ نالہ پہنچے تو وہاں پر موجود تین درجن کے قریب مسلح افراد نے گن پوائنٹ پر انہیں حراست میں لے لیا۔ یہ لوگ کوہستان کے گاؤں گھانڈیاں، گبریال کی ایک با اثر شخصیت آفرین ملک کے بندے بتائے جارہے تھے۔ آفرین ملک نامی شخص کا ہندراپ نالہ میں واقع ایک وسیع اراضی پراپنی ملکیت کا دعویٰ ہے اور اس حوالے سے ان کے اور عوام ہندراپ کے مابین ضلع غذر کی ایک مقامی عدالت میں کیس زیرسماعت ہے۔

اطلاعات کے مطابق کوہستان سے تعلق رکھنے والے اس مسلح گروپ نے تھوڑی سی پوچھ گچھ کے بعدزیرحراست افراد میں سے چار نوجوان اکرم، علی شیر، امیرولی اور عالمگیر کو اٹھا کر ساتھ لے گئے جبکہ باقیوں کوعوام ہندراپ کے نام اس پیغام کے ساتھ واپس بھیج دیا گیا نالہ ملک آفرین کے نام کرنے پر بندے واپس کیے جائیں گے۔

واقعے کے خلاف ضلع غذرکے علاوہ ملک کے دیگرحصوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت حرکت میں آگئی۔ مغویوں کی بازیابی کے لئے گلگت بلتستان پولیس کی خصوصی ٹیمیں کوہستان روانہ کردی گئیں جو مسلسل چار دن تک کوہستان کے مختلف علاقوں میں مغویوں کی تلاش میں سرگراں رہیں مگر مغوی افراد ہاتھ آئے نہ اغواکاروں کا سراغ مل سکا۔ اسی اثناء کوہستان پولیس کی جانب علاقائی حدود میں غیرقانونی طورپر داخل ہونے والے چار بندوں کی گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کا ایک جعلی مقدمہ بنا کر مغوی افراد کو کوہستان کے ہیڈکوارٹرداسوکی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں سے انہیں ضمانت پر رہائی دے کر گلگت بلتستان پولیس کے حوالے کیا گیا۔ یوں گلگت بلتستان پولیس نے ہفتہ کے روزآدھی رات بازیاب افراد کو ساتھ لے کر پریس کانفرنس کرکے اپنی فتح کے جھنڈے تو گاڑ دیے مگر اغواکاروں کے خلاف مزید کسی کارروائی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔

اس واقعہ میں گلگت بلتستان حکومت کی مجرمانہ خاموشی، پولیس کی مایوس کن کارکردگی، اغواکاروں کی گرفتاری اورعلاقائی سرحدات کی حفاظت کے لئے فوری اقدامات کے مطالبے لئے غذر بھرکے عوام نے پہلے گوپس پھر گاہکوچ میں احتجاجی دھرنا دیا، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ عوام الناس نے ایک بڑی تعداد میں شرکت کی۔ احتجاج عوام کا حق تھا کیونکہ ضلع غذر میں بیرونی دراندازی کا یہ

کوئی پہلا واقعہ نہیں نہ ہی آخری واقعہ ہوسکتا ہے۔ ا س سے قبل چھشی نالہ، سینگل نالہ، گلمتی نالہ اور دیگرنالہ جات میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ پولیس چیک پوسٹس پر حملے کرکے سرکاری اسلحہ بھی لوٹا گیا مگر حکومت ان واقعات کی روک تھام سے گریزاں رہی۔ چنانچہ حالات کے تناظر میں غذر کے عوام کی جانب سے اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے حکومت وقت اور ریاستی اداروں سے فوری اقدامات کا مطالبہ بالکل بجا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلاتاخیر نہ صرف غذر بلکہ گلگت بلتستان کے تمام بین الصوبائی سرحدات پر گلگت بلتستان سکاوٹس کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ دونوں علاقوں کے مابین حدبندی تنازعات کے مستقل حل کے لئے وفاقی حکومت پراپنا موقف واضح کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).