عمران خان کی امریکہ یاترا


لیاقت علی خان سے لے کر خاقان عباسی تک پاکستان کے تمام وزرائے اعظم، وہ جیسے بھی مسند اقتدار میں آئے ہوں، عوام کی نمائندگی کے دعویٰ دار رہے ہیں۔ ان کے پیچھے عوامی پارلیمنٹ کا ہاتھ رہا ہے۔ پارلیمنٹ ان کو طاقت اور عوام ان کو مضبوطی فراہم کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ملکی اور غیر ملکی محلات کی غلام گردشوں میں سے گزر کر اس خوشنمالیکن کانٹوں بھری سیج تک پہنچے۔ کچھ کو تو یہ اعلیٰ منصب خلعت اور افتخار کے ساتھ سجا ہوا ملا اور کچھ کومشروط اور مجبور حالت میں آہنی کڑیوں اور بیڑیوں میں مقید ملا۔

دونوں طرز کے عوامی لیڈروں کے لئے، پہلے مارشل لا سے پہلے، سادہ لباس والے بابوؤں کی تابعداری اس منصب کی اولین ذمہ داری ٹھہرائی گئی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ آقاؤں میں خوبصورت اور کف لگے یونیفارم پہنے جوانوں بھی شامل ہو تے گئے تھے۔ ستر کی دہائی کے بعد ان دونوں آقاؤں کی سندر بن کی بھول بھلیوں میں گمشدگی، برہم پترا اور گنگا کے تیز دہاروں میں بہاؤ، خلیج بنگال کی موجوں کے نذرہونے اور مغربی پاکستان کے میدانوں میں عوامی طاقت سے شکست خوردہ ہونے سے سیاسی قائدین کو کچھ حوصلہ ملا لیکن صرف چھ سال میں ہی آقا دوبارہ سنبھل گئے اور عوامی حمائیت کے داعی کو سر دار لٹکا کر نشان عبرت بنا دیا۔

پھر قران پاک سر پر اٹھاے، اسلام کا جھڈا لہراتے نئے بندوبست کے ساتھ جلوہ فرما ہوے۔ آئین کا حلیہ خصوصی ترمیموں کے بعد وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کی بے توقیری کو مد نظر رکھ کر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ آئندہ سے نئے وزیرائے اعظم کو صرف سفید شلوار قیض پہنے، شیروانی اوڑھے سجے دھجے غلام کے طور پر متعارف کرواے جانے کا فیصلہ ہوا۔

لیکن اس غلامانہ تابعداری میں بہت سے آشفتہ سروں کی داستان رقم ہے۔

وزیر اعطم کے نامزد کنندہ اور سفارش کنند ہ پیر صاحب خود اپنے مرید اور آقا کی کھینچا تانی کو بلی چوہے کے کھیل سے تشبیح دیتے رہے۔ جونیجو بہت سی شرائط کے تابع کر کے لائے گئے تھے۔ لیکن ملکی آئین کا سب سے بڑا عہدہ عوامی امیدو ں کا مرکز ہونے کی وجہ سے بہت سی ذمہ داریوں اورمجبوریوں کا حامل ہے۔ کروڑوں پاکستانی عوام اپنی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا حل اس ایک عہدہ پر بیٹھے فرد کی ذات میں ڈھونڈتے ہیں۔ آقا کی خواہش ہوتی ہے کہ صرف میرے اور میرے احباب کی خدمت ہو لیکن وہ سہمے سہمے سے کمزورو ناتواں مسائل زدہ غریب عوام کی آخری امید ہوتا ہے۔ کمپنی بہادر صرف اپنے خزانے بھرنا چاہتی ہے چاہے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی مر جاے، سونے کی چڑیا اجڑ جاے اوردودھ دینے والی اونٹنی کے بچے بھوکے مر جائیں۔ بھوک اور غربت اور مسائل میں الجھے عوام کا دکھ اس سیٹ پر بیٹھنے والے کو سکون سے محروم رکھتا ہے۔

اپنا دیوانا بنایا مجھے ہوتا تو نے

کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا

خاکساری کے لئے گر چہ بنایا تھا مجھے

کاش خاک در جانانہ بنایا ہوتا

جونیجو اور ضیا الحق میں نہ نبھ سکی اور ایک دہائی پرانابم دھماکوں، ہیروئین اور کلاشنکوف کے تحائف سے لدا افغانی جنگ کا طوق گردن سے اتار پھینکنے کے جرم میں پاکستان کے سب سے شریف اور صاف دامن وزیر اعظم کو واپس سندھڑی روانہ کردیا گیا۔ جرائم کی لسٹ میں آزادانہ خارجہ پالیسی، امریکی تعلقا ت، صدر کی مرضی کے خلاف صاحبزادہ یعقوب علی خاں کوجنیوا معاہدہ کرنے کی ہدایات، جنرل اسلم بیگ کو وائس چیف آف آرمی سٹاف لگانا اور اوجڑی کیمپ کے دھماکے کی پارلیمنٹ سے تحقیق کروانا، شامل تھے۔ لیکن الزام کرپشن کا لگا۔ سپریم کورٹ نے اس اسمبلی کی تحلیل کو غیر قانونی قرار دے کر تمام الزامات سی ون تھرٹی کی جلتی ہوئی آگ دیکھ کر اس میں بھسم کردیے۔

اس کے بعد کی دہائی میں کیا ہوتارہا، زبان زد عام ہے۔ عوامی منتخب نمائندوں کی قربانیاں جاری رہیں۔ عوامی مینڈیٹ کا بھاری بھرکم وزن برداشت نہ ہوا اور آئین پھر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔

اپنی پسند کے انتہائی اچھے اور معزز ظفراللہ خاں جمالی کو اس عہدہ پر بٹھایا گیا۔ اس مرتبہ کسی پیر یا قائد کی مدد نہ لی گئی، خالصتاً اپنا ہی آدمی چن کر لگا یا گیا۔ اور صوبہ بھی اس سے جس میں عوامی ووٹ علاقائی اور قبائلی تعصبات میں بٹے ہوے ہوتے ہیں تاکہ وزیر اعظم کو عوامی دباؤ کا سامنا نہ ہو۔ ان کے لئے بھی اقتدار پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوا۔ ان سے وعدہ لیا گیا تھا کہ وہ تمام ایگزیکٹو تقرریاں صدر اور چوہدری شجاعت حسین سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

یہ حکم پورا کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ اختلافات ابھرنا شروع ہو گئے۔ ایک سال سات ماہ کے بعد فارن پالیسی، انڈین پالیسی، افغانستان اور امریکی پالیسی میں آراء مختلف ہو گئیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی امریکہ منتقلی کے کاغذات پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ سب سے بڑا اختلاف نیشنل سیکیورٹی کونسل کے دیے گئے مسودہ سے جمہوریت، اچھا نظم ونسق اور بین الصوبائی امور پر مشاورت کو نکال دینے سے ہوا۔ وردی اتارنے کے وعدہ سے انحراف کی مخالفت اور اپوزیشن پارٹیوں میں جمالی صاحب کی بڑھتی ہوئی پسندیدگی صدر صاحب کو برہم کر گئی۔ ایوان صدر میں بلا کر تین گھنٹے کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد استعفیٰ لے لیا گیا۔ اور اس کے بعد خالصتاًایک کلرک، جس کا نام اس وقت لوگ جانتے تھے اور نہ اب اور نہ ہی وہ اس کے بعد ملک میں رہے، وزیر اعظم لگا دیے گئے۔

2008 میں جمہوریت بحال ہوئی۔ اپنے چنے ہوے کمزور افرادسے نہ نبھا ہوسکا تو عوامی پارٹیوں سے مل کر چلنا تو اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ مشرف صاحب صدارت اور عسکری قیادت جاری رکھنا چاہتے تھے۔ امریکہ سے مدد لی گئی۔ وکی لیکس میں ایک مراسلہ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں نواز شریف امریکی مشیر این پیٹرسن کو کہتے ہیں کہ امریکہ نے اشفاق پرویز کیانی کو چیف آف آرمی سٹاف لگانے کا انتظام کر کے سب سے اچھا کام کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم کا یہ شکریہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ سطح کی تقرریوں میں امریکی اثرات کے افسانے میں کتنی سچائی ہو سکتی ہے۔

میمو گیٹ سکینڈل میں بھی فوج کو سولین حکومت میں مداخلت سے دور رکھنے کے لئے امریکہ سے مدد مانگنے کا الزام تھا۔

امریکہ کاپاکستان کے اندرونی معاملات میں اثرو نفوذکتنا ہے اس پرمختلف آرا ء پائی جاتی ہیں۔

اسی نوے کی دہائی میں پاکستان کے حالات کے مطابق برطانوی ہدایتکار جمیل دہلوی نے Imacculate Conception کے نام پر ایک فلم بنائی جس میں ضیامحی الدین نے گلاب شاہ کے دربارکے خواجہ سرا متولی کا کردار ادا کیا۔ فلم کے آخر میں اس کو گرفتار کیا جاتا ہے وہ جیل میں اپنے چیلے سے پاکستان میں ہونے والی نا انصافیوں کا ذکر کرتے ہوے کہتا ہے، ”اس ملک میں تمہارے میرے جیسے لوگوں کے لئے ہے کیا؟ سوائے گولی ڈنڈے کے، جیل کے اور کوڑے کے، پاکستان میں ہے کیا؟ آرمی، اللہ اور امریکہ! “

جب بھی پاکستان میں الیکشن یا حکومت کی تبدیلی ہو، علاقائی مسائل زیر بحث ہوں، انڈیا افغانستان کی بات ہو یا اعلیٰ حکومتی عہدہ داروں کی تبدیلی ہو تو سب نظریں نہ چاہتے ہوے بھی بجانب واشنگٹن اٹھ جاتی ہیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ اب تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہیں اور آئین بھی سمٹ کر ایک صفحہ پر آگیا ہے۔ اب برسات کا مہینہ ہے، اب ابر کرم خوب برسے گا۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آئے گی۔ ہر یالی کی گھاس اتنی بلند ہوگی کہ اس میں عوام الناس کانمائندہ دراز قد ہیرو بھی چھپ جاے گا۔ اب کسی کو اکیلے اس میں گل کھلانے کا موقع نہیں ملے گا۔ اب سب مل کر چلیں گے (؟ ) ۔ عالمی میڈیا بھی باوجود منع کرنے کہ اس اکیلے کو چھوڑ کر کسی اور طرف د یکھنا شروع کر دے گا۔ عوامی وزیر اعظم کی اوقات بڑھ کر کلرک شوکت عزیر کے برابر بہنچ جاے گی۔

عوام کی بات چھوڑیں، آو! اس اعلیٰ عہدہ کی حرمت کی بات کریں۔ اب تابعدار وں میں آشفتہ سری مفقود ہوئی۔ اب

دیکھئے، زندگی کا تاج محل

ہر طرف مکڑیوں کے جالے ہیں

گرنے والے کو یہ خبر بھی نہیں

کس بلندی سے گرنے والے ہیں

کیا رہا مے کدے میں، بعد ِفراق

چند ٹوٹے ہوے پیالے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).