ہمارا سوشل میڈیا کا استعمال


انتہائی صاف ستھرے، ٹھندے، عالیشان کمروں میں بیٹھ کر سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کواس سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی بری زبان کے بارے میں بات کرنے سے پہلے تھوڑا سوچنا چاہیے۔ خوشبودار کمروں یا ہال میں ذہنی طور پر ہم آہنگ لوگوں کے درمیان سوشل میڈیا کے موضوع پر گفتگو کرنے والوں یا پروجیکٹر پر پریزنٹیشن دینے والوں کو اس بات کا انداذہ ہونا چاہیے کہ بس میں چورن بیچنے والا اپنی بات کیسے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ اور ہر قسم کے القابات سے نوازے جانے کے باوجود وہ ایک کامیاب اور اپنے کام کرنے کے ماحول سے خوش سیلزمین ہوتا ہے۔ اور اپنی بات لوگوں سے منوا لینے کی وجہ سے ایک اچھا پریزینٹر بھی ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی اپنی روزمرہ کی زندگی میں اچھی بری باتوں کے ساتھ بہت آرام سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک ایسا طبقہ ہے جس نے عام آدمی سے دور رہنے کے لئے دہائیاں لگا کر ایک حصار بنایا۔ اس حصار کے اندر عام آدمی سے مِختلف نظر آنے کے لئے ہر وہ کام کیا گیا جس سے خود کو اعلی اور ارفع دیکھا سکے اور عام آدمی سے اپنے فاصلوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر سکے۔

یہ بڑی بڑی عمارتوں میں رہنے والے، ایک وقت میں بہت سی تہذیبوں میں زندگی بسر کرنے والے جو ہر وقت سب کو خوش رکھنا چاہتے ہیں اور بہت سی تہذیبوں کی معلومات کی وجہ سے ہر وقت کنفیوز رہتے ہیں کہ کس تہذیب میں کس بات کو کیسے کرنا ہے، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک عام آدمی چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اس کا ایک اپنا کلچر ہوتا ہے۔ اور آپ اس کو جتنا بھی کنویں کا مینڈک سمجھ لیں، اس سے بات کرنے کے لئے اس کو اسی کے حال میں قبول کرنا ہوتا ہے۔

اور جمہوریت پسند ہونے کی حیثیت سے تمام لوگوں کو برابری کی سطح پر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا وہی چوراہا، بس اڈا، پان کی دکان، چائے کا اسٹال، غرض یہ کہ ہر قسم کے عوامی مرکز کی الیکٹرونک شکل ہے جس سے یہ ترقی یافتہ لوگ دور بھاگتے ہیں۔ اور سوشل میڈیا کو اسی کام کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ مراعت یافتہ طبقہ ہر عوامی سطح کی چیز سے دور بھاگتا ہے۔ اس طبقہ کو یہ اندازہ نہیں کہ یہ مہنگے مہنگے برقی آلات، جن کو خریدنا اور لئے لئے پھرنا انھوں نے اپنا خاصا بنایا ہوا ہے، اس طبقے کو ان عوام کے قریب لانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔

اور جن لوگوں سے یہ دہائیوں سے دور بھاگ رہے تھے وہ لوگ اب ان کے گھروں میں گھس چکے ہیں۔ اور جو نفرت خود کو عالی اور ارفع سمجھنے والے طبقے نے ان عام عوام سے حقارت اور لاتعلقی کے برتاؤ سے ان کے دلوں میں بھری ہے اس کی وجہ سے یہ عام لوگ ان خاص لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان کو گالیاں دے کر چلے جاتے ہیں اور یہ خاص لوگ کچھ نہیں کر پاتے۔ اور یہ ان خاص لوگوں کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اب ان کو اپنی عزت بچانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ اور اس پوری طبقے کی اجتماعی غلطیوں کی سزا پوری سب کو مل رہی ہے کیونکہ یہ سب قصوروار ہیں۔ انہوں نے اس استحسال کو کبھی روکنے کی کوشش نہیں کی جو دہائیوں سے اس خاص طبقے نے ان عام لوگوں سے روا رکھا ہوا ہے۔ بلکہ اس استحسال سے بھرپور لطف اندوز ہوتے رہے۔

سوشل میڈیا ہمارے عوامی مراکز کی الیکٹرونک شکل ہے اور ہمارے عوامی مراکز میں استعمال ہونے والی زبان کا ہم سب کو اندازہ ہے اور شاید یہ زبان ہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ایک طبقہ ان عوامی مراکز سے دور ہوتا گیا اور آہستہ آہستہ اپنی ایک خود ساختہ تہذیب بنالی جو اصل میں بہت سی تہذیبوں کا مرکب جس کی وجہ سے دھوبی کا کتا یا کوا اور سارس جیسی مثالوں کا مصداق بن کر رہ گیا۔ مگر کسی نے ان عوامی مراکز میں استعمال ہونے والی زبان کو بہتر کرنے پر کام نہیں کیا اور ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔

اور انہوں نے ان برے الفاظ کی ایک نئی زبان ہی بنا لی اور اب وہی ان کی زبان ہے۔ انہوں نے کسی تعریف بھی کرنی ہو تو دو گالیوں سے ہی بات شروع ہوتی ہے۔ اس برے الفاظ سے بھری زبان کو استعمال کرتے ہوئے اور اچھے الفاظ کانوں تک پہنچے نسلیں گزر گئی ہیں۔ مگر اس کو ٹھیک کرنا ان کی ذمہ داری ہے جن کو پتا ہے کہ یہ سب غلط کر رہے ہیں۔ جبکہ ہو یہ رہا ہے کہ جو لوگ اچھی زبان استعمال کرسکتے ہیں جیسے مولوی حضرات، اساتذہ وغیرہ بھی ان کے ماحول میں جگہ بنانے کی خاطر ان سے بات کرنے کے لئے انہی کی زبان کے الفاظ استعمال کرتاے ہیں مگر ان کی زبان کو بہتر بنانے کے لئے کوئی کام نہیں کرتا۔

ہمارے یہاں معروف شخصیات، چاہے ان کا تعلق صحافت سے ہو، تفریحی میڈیا سے ہو، سیاست سے ہو یا کھیل سے یہ لوگ صرف براڈکاسٹنگ کے عادی ہیں۔ چاہے اخبار ہوں یا الیکٹرونک میڈیا براڈکاسٹنگ میں صرف ایک طرفہ نشریات ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا سے پہلے لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے بہت محدود ذرائع ہوتے تھے جن میں خطوط سب سے بڑا ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔ اور روبرو رائے تو صرف قریبی دوست اور ساتھ کام کرنے والے ہی دیتے تھے۔ پر سوشل میڈیا وہ ذریعہ ہے جو بہت ہی تیزی سے لوگوں کی رائے صحافی، اداکار، یا ادارے تک پنہچا دیتا ہے اور پسندیدگی یا ناپسندیدگی دونوں کوہی زبان زد عام کر دیتا ہے۔

پسندیدگی کی صورت میں تو سوشل میڈیا سب کو بہت اچھا لگتا ہے پر ناپسندیدگی کی صورت میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے اس پر سب کو اعتراض ہے۔ ایک طرف تو اسہی سوشل میڈیا پر اپنے فولوورز کی تعداد بتا بتا کر اپنی مقبولیت کے دعوے کیے جاتے ہیں اور پھر جب یہی فولوورز اپنے تبصروں میں عالی القابات سے نوازتے ہیں تو اس پر سب کو اعتراض ہوتا ہے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے انہی لوگوں کو آگے بڑھ کر کوشش کرنی ہوگی جن کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔ اگر ہم واقعی اپنے معاشرے کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو بہت پرخلوص کاوشوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس معاشرے سے دور رہتے ہوئے اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا چھوڑ کر خود کو اس معاشرے کا حصہ سمجھتے ہوئے اس کو اس کی خامیوں کے ساتھ اپنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم خود کو اس معاشرے کی خرابیوں کا ذمہ دار نہیں سمجھیں گے اس وقت تک اس کی بہتری کے لئے کام کرنا اپنی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں سمجھیں گے۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).