عمران خان کا دورہ اور واشنگٹن میں خطاب


عمران خان 20 جولائی کی شام قطر ائیر ویز کی کمرشل فلائٹ سے واشنگٹن ڈی سی کے ڈیلس ائیر پورٹ پر اترے تو ان کے اپنے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان ایمبیسی کے چند افسران کے ہمراہ ان کا استقبال کیا۔ اس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں۔ سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین اور پرنٹ میڈیا سے منسلک کچھ صحافی امریکی حکومت کے عہدے داروں کی طرف سے استقبال نہ کرنے کا شکوہ کرتے نظر آئے ہیں۔ یہ دورہ یقینی طور پر عمران خان کا بحیثیت وزیراعظم پاکستان امریکہ کا سرکاری دورہ ہے۔

لیکن وائٹ ہاؤس کے مینول کے مطابق یہ تیسرے درجے کا سرکاری دورہ ہے۔ غیر ملکی سربراہان مملکت و حکومت کے دوروں کو امریکہ میں پانچ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے دو درجے کے دوروں کے پروٹوکول مختلف ہیں جن کے لیے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے آفیشلز ائیر پورٹ پر استقبال بھی کرتے ہیں، سرخ قالین بھی بچھتا ہے۔ پہلے درجے کے دورے پر آئے مہمان کو اکیس اور دوسرے درجے پر انیس توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ اور مہمانوں کی اقامت گاہ وائٹ ہاؤس کے قرب میں واقع گیسٹ ہاؤس میں ہوتی ہے۔

عمران خان کا سرکاری دورہ چونکہ تیسرے درجے کا ہے اس لیے پہلے دو درجوں کی سہولیات اس میں شامل نہیں۔ اوول آفس میں امریکی صدر سے ملاقات اس لیول کے دورے کا سب سے اہم جزو ہوتا ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس فریقین کی باہمی خواہش کے مطابق ہو سکتی ہے۔ لیکن پروٹوکول کا لازمی حصہ نہیں۔ اتوار کی شام پاکستانی نژاد امریکی ایک بڑی تعداد میں واشنگٹن ڈی سی کے کیپٹل ون ایرینا میں جمع ہوئے۔ جو یقینی طور پر اس مقام پر کسی بھی امیگرنٹ کمیونٹی کے بڑے اجتماعات میں سے ایک تھا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے چند بلاک کے فاصلے پر امریکی تاریخ کے بڑے اجتماع ہوتے رہے ہیں۔ شہری حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے امریکہ کے دبنگ سول رائٹس ایڈووکیٹ فرخان، جیسی جیکسن اور ہالی ووڈ کے مشہور ڈائریکٹر مائیکل مور امریکی حکومت پر تنقید کرنے کے لیے کئی بار 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے اجتماعات منعقد کر چکے ہیں۔

اس کے باوجود عددی اعتبار سے پاکستانی امریکن کمیونٹی کا یہ متاثر کن اجتماع تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان پاکستان کی زبوں حال معیشت کو سہارا دینے کے لیے اوورسیز کمیونٹی سے سنجیدہ اپیل کریں گے اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن نہ ہی تو اس اجتماع میں شرکت کرنے والوں کا ایسی سنجیدہ گفتگو سننے کا موڈ تھا اور 11 ماہ سے وزیراعظم رہنے کے باوجود نہ ہی فی الحال عمران خان دھرنے کے کنٹینر سے نیچے اترنے کے موڈ میں تھے۔ لہذا ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان والی فلم کی بین الاقوامی ریلیز جاری و ساری رہی

این آر او نہیں دوں گا، جیل سے ائیر کنڈیشنز اور ٹیلی ویژن کی سہولیات واپس لے لوں گا، صحت کی سہولیات کے لیے سیاسی قیدیوں کو ہسپتال نہیں جانے دوں گا، وغیرہ وغیرہ کے روایتی جملوں پر عوام بھی رقصاں رہی۔ عمران خان سٹیج پر آ کر اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی کے اجتماعات میں فرق نہ کر سکے۔ اور یہ بھول گئے کہ چاہے اپوزیشن والے انہیں سلیکٹڈ وزیراعظم کہتے ہیں وہ امریکہ میں 22 کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کے نمائندے کی حیثیت سے آئے ہیں۔

اور ان کا ایک ایک لفظ ذمہ دارانہ طرز عمل کا متقاضی ہے۔ بالفرض کسی وزیراعظم کا غیر ملکی سرزمین پر عوامی اجتماع میں یہ کہنا کہ وہ واپسی پر سیاسی قیدیوں کو ہسپتال کی سہولیات فراہم نہیں کریں گے۔ اور معیاری کھانا کھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور نہ ہی بین الاقوامی قانون کے مطابق مخصوص قیدیوں کو دیگر سہولیات دیں گے۔ عالمی سطح پر پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کے نظام پر سوالیہ نشان کے مترادف ہے۔ جس کا اظہار وزیراعظم پاکستان امریکہ کے دارالحکومت میں عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں کر رہا تھا۔

عمران خان کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے اپنا پیغام دنیا تک پہنچاتے کہ ان کے نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، انصاف کے شفاف نظام اور برابری کے مواقع بلاتفریق سب شہریوں کو ملیں گے۔ تاکہ جمہوری آزادیوں کے عالمی انڈیکس میں پاکستان ایک بہتر مقام پر پہنچ سکے۔ مدینہ کی ریاست اور نئے پاکستان کے خدوخال بیان کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر چائنہ کی کمیونسٹ پارٹی کے طریقہ کار کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔

کتنا تضاد ہے کہ چائنہ کی کمیونسٹ پارٹی جو حقیقت میں نہ ہی تو کمیونسٹ ہے اور نہ ہی جمہوری پارٹی۔ بلکہ عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے استعمار کی وہ بھیانک تصویر۔ جن کے نزدیک انسانی حقوق، شہری آزادیاں، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے نظام کی شفافیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ آج چینی عوام اپنی فوجی پارٹی کے جبر سے جتنے تنگ ہیں شاید ہی ماوزے تنگ، چو این لائی یا ہو جن تاؤ کے دور میں ہوئے ہوں۔ حالانکہ ان تینوں کے ادوار میں چین غربت سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔

صدر شی پنگ کے چین اور نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کے طریقہ کار کو سمجھنا ہو تو سنکیانگ کے اوگر مسلمانوں اور تبت کے بدھ مت کے پیروکاروں کا حشر دیکھ لیجیے۔ سیاسی آزادیوں کے احترام کو دیکھنا ہو تو ہانگ کانگ اور مکاؤ کے عوام سے طاقت کے زور پر چھنتی ہوئی آزادیوں کو دیکھ لیجیے۔ لیکن پھر بھی کل خان صاحب بضد نظر آئے کہ مدینہ کی نئی ریاست میں ٹیلنٹ کی تلاش چائنہ کی کمیونسٹ پارٹی کے طریقہ کار کے مطابق کی جائے گی

اس بات پر خان صاحب نے امریکی پاکستانی کمیونٹی کی تعریف کی کہ وہ سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے آبائی وطن کو نہیں بھولے۔ بھولنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن کیا اس اجتماع میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اپنی وفاداری پاکستان کے ساتھ شو کی۔ پینٹاگون یا کسی اور ادارے کے ترجمان نے ان امریکی پاکستانیوں کی وفاداری پر سوال اٹھایا؟ یا کوئی سرخ لائن کھنچی کہ اس سے آگے نہ جانا۔ وہ اس لیے کہ جمہوری ملکوں میں شہری آزادیاں معتبر پوتی ہیں۔ نہ کہ زبردستی کے بانٹے گئے حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ

خان صاحب آپ کے نئے پاکستان میں جب کوئی انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور انصاف کی بات کرتا ہے تو صبر کو مزید نہ آزمانے کی دھمکی آ جاتی ہے۔ پھر کوئی علی وزیر اور محسن داوڑ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ اور نہ ہی جسٹس فائز عیسی۔ سب سے اپنی تعریف کے مطابق حب الوطنی کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔

خان صاحب جس ملک کے دارالحکومت میں آپ عوامی اجتماع سے اپنے خطاب میں مدینہ کی نئی ریاست کی بات کر رہے تھے۔ یہی ملک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے غریب اقوام کا خون نچوڑتا رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پس پردہ پاکستان کے پڑوس میں ایک اور افغانستان بننے جا رہا ہے اور عالمی منظر نامے میں پاکستان ایک بار پھر پراکسی وار کے لیے استعمال ہونے جا رہا ہے۔ کاش کہ ایسا نہ ہو کیونکہ جنگ کہیں بھی ہو تباہی کے اثرات سارے جگ میں محسوس ہوتے ہیں اور پڑوس پر تو سب سے زیادہ۔

مدینہ کی نئی ریاست ضرور بنائیے لیکن اس کا طریقہ کار چائنہ کی کمیونسٹ پارٹی سے سیکھنے کا درس مت دیجئے۔ آج بابا کارل مارکس اور چئیرمین ماوزے تنگ منوں مٹی کے ڈھیر تلے ژی لی پنگ کے کمیونسٹ چائنہ کا احوال جان کر صدمے سے ہوں گے کہ انہوں نے انسان کی حقیقی آزادی کا جو سپنا دیکھا تھا وہ ژی لی پنگ کے استعماری نظام نے برباد کر دیا۔ اور عمران خان اس کے خمیر سے مدینہ کی نئی ریاست بنانے چلا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).