مڈل کلاس: مظہر برلاس کا ایک بھولا بسرا کالم


فارسی کے کسی نامعلوم شاعر کا ایک شعر ضرب المثل کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را

(ترجمہ: اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر)

ہم بحیثیت قوم کے، تاریخ کے نسیان میں مبتلا ہیں۔ ہمیں بھول جاتا ہے کہ کسی خاص شخص یا گروہ کے بارے میں چند برس پہلے ہمارے قلم گہر بار سے کیا افکار ٹپک رہے تھے۔ کسی خاص مسئلے پر ہم خواب ہستی کے کس منظر میں گم تھے۔ اب تو ماشااللہ ہم نے ایک پوری نسل ایسی پیدا کر لی ہے جس کے لئے تاریخ عالم 30 اکتوبر 2011 کو لاہور کے مینار پاکستان کے زیر سایہ منعقد ہونے والے ایک جلسے سے شروع ہوتی ہے۔ اگر مینار پاکستان پر کسی جلسے کی تاریخی اہمیت کا تعین کرنا ہو تو مناسب ہے کہ یہاں مارچ 1940 کی 22 تاریخ سے 24 تاریخ تک ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس تقسیم کے نتیجے میں قائم ہونے والی مسلم اکثریتی ریاست کے باشندوں سے جمہوری، فلاحی اور روادار حکومت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 1970 کے انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے یہیں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا کہ’’مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی مشرقی پاکستان اجلاس میں شرکت کے لئے جائے گا، ہم اُس کی ٹانگیں توڑ دیں گے‘‘۔

10 اپریل 1986 کی رات جلاوطنی سے واپسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے تاریخی استقبال کرنے والے ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے مینار پاکستان کے سائے میں جلسہ عام منعقد کیا تھا۔ طاہر القادری نے مئی 1989 میں اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد اسی میدان میں رکھی تھی۔ اگست 2000ء میں ایم کیو ایم نے پنجاب میں اپنا پہلا جلسہ مینار پاکستان ہی پر کیا تھا۔ 2002 کے ریفرنڈم سے قبل پرویز مشرف نے لاہور مین اپنا جلسہ مینار پاکستان ہی پر کیا تھا۔ محترم عمران خان اور مولانا طاہر القادری اس جلسے کے اہتمام میں پپش پیش تھے۔ دفاع پاکستان کونسل سمیت متعدد مذہبی جماعتوں نے اپنے اجتماعات یہیں منعقد کئے۔ تاریخ کی اس باز آفرینی سے صرف یہ یاد دہانی مقصود ہے کہ پاکستان 30 اکتوبر 2011 کی شام قائم نہیں ہوا تھا۔ پاکستان اس دن سے پہلے بھی موجود تھا اور آئندہ بھی قائم رہے گا۔ ہمارا یہ رویہ کچھ زیادہ کارآمد نہیں کہ ہم اپنے پسندیدہ فرد یا گروہ کی تعریف میں غلو کرتے ہیں اور تنقید میں تنقیص کی حد پار کر جاتے ہیں۔

ہمارے عزیز دوست مظہر برلاس کا قلم ان دنوں فراٹے بھر رہا ہے۔ وہ بڑے جوش و جذبے سے موجودہ بندوبست سیاسی کی حمایت کر رہے ہیں جو کہ ان کا جمہوری حق ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ محترم مظہر برلاس ہمیشہ سے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان پر فریفتہ نہیں تھے۔ ہر شخص کی طرح بھائی مظہر برلاس کا بھی ایک ماضی ہے اور اس ماضی میں کچھ بھولی بسری محبتیں ہیں۔ یہاں پر مظہر برلاس کا ایک پرانا کالم باز خوانی کے لئے حاضر ہے۔ یہ کالم یکم نومبر 2012 کو روز نامہ جنگ میں شائع ہوا۔ تب عمران خان کے مینار پاکستان پر تاریخی جلسے کو ٹھیک ایک برس مکمل ہوا تھا لیکن مظہر برلاس کے کالم میں آپ کو اس کا کوئی اشارہ نہیں ملے گا۔ یہ کالم تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی مدح میں لکھا گیا تھا۔ کالم کا عنوان تھا “مڈل کلاس”۔ گاہے گاہے باز خواں۔۔۔۔

٭٭٭    ٭٭٭

اس کا باپ امیر آدمی نہیں تھا، عام سے گاؤں موری راجگان کا رہائشی تھا۔ موری راجگان راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کا ایک عام سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں اور جنرل کیانی کے گاؤں میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ جنرل کیانی کا باپ بھی امیر آدمی نہیں تھا جنرل کیانی کے والد فوج میں نائب صوبیدار تھے اسی طرح موری راجگان کا رہنے والا راجہ سنگر خان بھی نائب صوبیدار تھا۔ آج کل راجہ سنگرخان کا سب سے بڑا صاحبزادہ ملک کا وزیراعظم ہے، اس نے وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کیلئے کئی منازل طے کیں۔ باپ راجہ سنگر خان بہت جلد دنیا چھوڑ کر قبرستان جا بسا۔ اب ایک طرف یتیمی تھی اور دوسری طرف امارت بھی نہیں تھی۔ چھوٹے بہن بھائی بھی تھے، بڑے ہونے کے ناتے راجہ پرویز اشرف نے بہت ہمت دکھائی۔

راجہ پرویز اشرف کا بچپن سانگھڑ میں گزرا۔ جہاں انکی بتیس ایکڑ زمین تھی۔ میٹرک تک تعلیم بھی وہیں مکمل ہوئی۔ والد کی وفات کے بعد راجہ پرویز اشرف کی پوری فیملی کا ساتھ انکے ماموں کرنل اشرف نے خوب نبھایا۔ ایسا ساتھ کہ والد کی جگہ تمام بچوں کے ناموں کیساتھ ماموں کا نام لگا دیا گیا۔ کرنل اشرف بھی کوئی فوجی کرنل نہیں تھے بلکہ کرنل عابد حسین کی طرح کرنل اشرف بھی آنریری کرنل تھے۔ انہیں یہ اعزاز ریاست بہاولپور نے دے رکھا تھا۔ راجہ پرویز اشرف نے بہت ہمت دکھائی وہ ایک جوتا بنانے والی فیکٹری میں بطور سپروائزر کام کرتے رہے۔ ن لیگ کے ایم این اے حنیف عباسی کا بچپن بھی اسی فیکٹری کی کالونی میں گزرا۔راجہ صاحب فیکٹری میں کام کرتے رہے مگر دل میں یہ طے کرتے رہے کہ ہمیں اپنا کاروبار شروع کرنا چاہئے۔

پھر ایک دن راجہ پرویز اشرف نے اپنے ماموں زاد بھائی کیساتھ مل کر گوجر خان میں تین دکانیں کرائے پر لیکر ان میں کاریگر بٹھا دیئے۔ یہ کاریگر جوتے بناتے تھے یہ کاروبار جاری تھا کہ ایک دن ان دکانوں پر کیپٹن راجہ محمد اکرم آگئے۔ انہوں نے راجہ پرویز اشرف اور ان کے ماموں زاد جاوید اشرف کو خوب سنائیں کہ یہ کونسا کام شروع کردیا ہے۔ کیپٹن راجہ محمد اکرم کی باتوں نے راجہ پرویز اشرف اور ان کے کزن پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد وہ اس کاروبار سے الگ ہوگئے۔ یوں انہوں نے جوتوں کے کاروبار کو مستقل بنیادوں پر خدا حافظ کہہ دیا مگر پیٹ کے دوزخ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے کچھ تو کرنا تھا۔

راجہ پرویز اشرف نے اسلام آباد میں پراپرٹی ڈیلر کے طور پر کام شروع کردیا۔ ان کا دفتر اسلام آباد کی رانا مارکیٹ میں ہوتا تھا، بعد میں یہ دفتر بلیو ایریا میں شفٹ کردیا گیا۔ خیر کاروباری سرگرمیوں کے علاوہ راجہ صاحب نے سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ وہ شروع دن سے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں، انہوں نے ایک کارکن کی صورت میں تمام منازل طے کی ہیں۔ برسوں قبل ناہید خان نے مخدوم امین فہیم کی موجودگی میں مجھ سے پرویز اشرف کو متعارف کروایا تھا۔ اس تعارف کے بعد مجھ سے جو ہوسکا میں نے راجہ پرویز اشرف کی سیاسی زندگی کیلئے کردیا۔

ایف 8- کے ایک گھر میں راجہ صاحب کی سیاسی منصوبہ بندی ہوا کرتی تھی، ہم دونوں ہی ہوا کرتے تھے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے راجہ پرویز اشرف درویشوں کے ماننے والے ہیں۔ درگاہوں پر جانا ان کا معمول ہے، پتہ نہیں کس کی دعا نے انہیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ ایک زمانے میں وہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو گوجر خان کے نزدیک ایک درگاہ پر لے گئے تھے محترمہ وہاں ننگے پاؤں تشریف لے گئیں۔ گوجر خان اور مری کے تمام پیروں کے پاس جانے والے راجہ پرویز اشرف اصل میں غازی جاتے ہیں۔

ضلع ہری پور میں تحصیل غازی ہے جہاں ایک کلین شیو آدمی حمید نامی ہے۔ اسی حمیدصاحب کے پاس راجہ جی کا اکثر جانا ہوتا ہے۔ درویش اپنی کھیتی باڑی کرتا ہے۔ پکّا زمیندار، مگر خدا سے لو لگا رکھی ہے۔میاں شہباز شریف کے والد بھی امیر آدمی نہیں تھے انہوں نے ایک عام مزدور کی حیثیت سے زندگی کے عملی سفر کا آغاز کیا، بعد میں ترقی کرتے کرتے ان کا کاروبار وسعت اختیار کر گیا۔ چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الٰہی نے بھی عملی زندگی کا آغاز امیرانہ ٹھاٹھ سے نہیں کیا تھا۔

راجہ سنگر خان، میاں شریف اور چوہدری ظہور الٰہی کے صاحبزادگان دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم غربت کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف تو ببانگ دہل کہتے ہیں کہ میں عام کارکن ہوں، میرا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ راجہ صاحب کی باتیں درست ہیں۔ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ یہ صرف پیپلزپارٹی ہی ہے جس اپنے ایک عام سے کارکن کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھا دیا ہے۔ ویسے تو حنیف رامے سمیت کئی ایک مثالیں ہیں۔ کسی کا تعلق مڈل کلاس سے ہو یا اپر کلاس سے، مسئلہ یہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے عوام کیلئے کیا کیا ہے۔

پچھلے بیس برس نے مڈل کلاس کا کچومر نکال دیا ہے۔ یہی وہ واحد کلاس ہے جو خود کو اپنی جگہ پر رکھنے سے قاصر ہوگئی ہے۔ اب یہ کلاس گھٹتی جارہی ہے حالانکہ اس طبقے کا تحفظ بہت ضروری ہے کیونکہ یہی کلاس تو امارت اور غربت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس لئے مڈل کلاس کو بچانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کا یہ شعر آج کے حالات میں حسب حال ہے کہ

جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ اس میں

اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).