سیاسی جماعتوں کے کارکنان


شاید ہی ملک کی کوئی سیاسی جماعت ایسی ہو گی جو اپنے کارکنوں کو اہمیت دیتی ہو گی وگرنہ سب کی سب ان کو غیر اہم تصور کرتی ہیں مگر ان سے یہ توقع کرتی ہیں کہ وہ اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ ان کی (سیاسی جماعتوں ) ”مشہوری“ کے لیے میدان عمل میں سرگرداں رہیں۔ ایسا ہوتا بھی ہے۔ کارکنان جنہیں اب تک ان جماعتوں سے یہ امید بندھی رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر کچھ سہولتیں اور آسانیاں فراہم کریں گی۔ اپنے اپنے منشوروں پر عمل درآمد کریں گی مگر جوں ہی وہ اختیارات حاصل کرتی ہیں۔ ان سے آنکھیں پھیر لیتی ہیں اور وہ مایوس ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں ان میں سے کچھ کسی دوسری جماعت کا رخ کر لیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے وہ ان کو کوئی احترام دے مگر وہاں بھی سلوک پہلی والی کی طرح ہی ہوتا ہے۔

دراصل ہماری سیاسی جماعتیں حادثاتی طور سے وجود میں آتی ہیں۔ وہ باقاعدہ سیاسی جدوجہد سے آگے نہیں بڑھتیں انہیں اندرون و بیرون سے آشیر باد ملتی رہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے عوام کو نظر انداز تو کرنا ہی تھا اپنے ساتھی کارکنوں کو بھی پس پشت ڈالا ہے وجہ اس کی یہی ہو سکتی ہے کہ اگر کارکنان کو منظم کر دیا جاتا ہے تو وہ اپنے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے جماعت کے بڑے سے بڑے عہدیدار کو ہدف تنقید بنانے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں پھر وہ اُسے اس عہدے سے ہٹا بھی سکتے ہیں وہ عام مسائل کے حل کا مطالبہ بھی کرنے لگتے ہیں۔

اس نظام زرو جاگیرداری کے خاتمے کا بھی کہہ سکتے ہیں اور خود کو اہم عہدوں کے اہل قرار دے کر وہاں دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر سکتے ہیں لہٰذا طبقہ اشرافیہ پر مشتمل ان سیاسی جماعتوں نے اقتدار سے پہلے اور بعد میں انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اِکا دُکا اہمیت کے واقعات ہوئے بھی ہیں مگر وہ دکھانے کے لیے مجموعی طور سے ان سے دور ہی رہا گیا ہے ہے جبکہ ان کے بغیر وہ اپنی سیاست جاری رکھ سکتی ہیں نہ کوئی احتجاج کر سکتی ہیں۔ جلسوں کی رونق بھی ان ہی کی وجہ سے ہوتی ہے اور ان کے تحفظ کے لیے بھی کارکنان ہی ڈھال بنتے ہیں مگر انتہائی دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ انہیں اپنے قریب بٹھانا بھی پسند نہیں کرتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ (کارکنان) اس لیے ان کے پاس دوڑے جاتے ہیں کہ ان کی خواہشات کا محور وہ ہوتی ہیں۔

موجودہ سیاسی جماعت جو برسراقتدار ہے بھی یہی کچھ کر رہی ہے جبکہ عمران خان چیئرمین نے غریب آدمی اور اپنے ساتھیوں (کارکنوں ) کے تذکرے بڑے فخر سے کیے ہیں مگر آج وہ رُل رہے ہیں انہیں فاصلے پر رکھا جا رہا ہے۔

یہ جماعت اگرچہ ایک طویل سیاسی عمل کے بعد یہاں تک پہنچی ہے مگر اس کی بنیادی سوچ وہی اشرافیہ والی ہے کیونکہ اقتدار میں آنے سے پہلے اس میں کچھ لوگ جو اختیارات کے مالک ہیں اِدھر اُدھر سے آگئے یا لائے گئے جن کا پی ٹی آئی کی قیادت و سیاست سے قلبی تعلق نہیں تھا انہیں اقتدار سے دلچسپی تھی لہٰذا اب وہ اس کے کارکنوں کو کیسے اہم سمجھیں گے۔ مبینہ طور سے وہ پرانے تعلقات کو نبھا رہے ہیں پی ٹی آئی کے مخلص اور سنجیدہ فکر نوجوان کارکنوں سے انہیں کوئی غرض نہیں۔

وہ التجائیں کرتے پھرتے ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی کھاتے میں ڈالا جائے مگر ان کی کوئی نہیں سنتا اور انہیں بڑی خوبصورتی سے ٹال دیا جاتا ہے۔ اس پر وہ بہت افسردہ ہیں اور مایوس دکھائی دیتے ہیں بلکہ وہ عمران خان پر شدید تنقید کرنے لگے ہیں کہ اس نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا کہ انہوں نے دوسری مخالف سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی دشمنیاں مول لے لیں صرف اس لیے کہ نیا پاکستان بننے جا رہا ہے مگر اب وہ پچھتا رہے ہیں مجبوری ان کی یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو باضابطہ چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔

اسی طرح عوام جنہوں نے اس جماعت کو ووٹ دیے تھے وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے انہیں اندھیرے میں رکھا ہے۔ ان سے وعدے کیے گئے تھے اب ان کے برعکس عمل پیرا ہیں۔ ایسے ایسے وزیر مشیر لے آئے ہیں جو طبقہ خاص سے تعلق رکھنے کی بنا پر فقط ان کا خیال رکھ رہے ہیں انہیں اذیتوں سے دو چار کر رہے ہیں۔ ان کی عمر بھر کی محنت سے کمائی گئی تھوڑی بہت دولت ہتھیانے چل پڑے ہیں یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تکلیف دہ اس صورت حال میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو عمران خان کی پالیسیوں سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کارکنان بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔

آج کل جب میں یہ کالم تحریر کررہا ہوں امریکی دورے سے متعلق بڑھ چڑھ کر اس کے بارے میں تبصرے کر رہے ہیں۔ جلسے کا ذکر بھی کر رہے ہیں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو کپتان کا کیسا ہوا استقبال یہ تو بعد میں معلوم ہو گا کہ اس کے بدلے انہوں نے وزیراعظم سے کیا کیا لے لیا منوا لیا جو عوام پر برق بن کر گر سکتا ہے۔ جن تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کھنچاؤ کی کیفیت دور ہو سکے گی۔ وہ یہ بھی بتائیں اس کا عام آدمی کو کوئی فائدہ پہنچے گا یہ کہ کیا دو بڑی طاقتیں چین اور روس بہت کچھ سوچنے پر مجبور نہیں ہوں گے؟

بات کا رخ ذرا دوسری طرف مڑ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کارکنان جو سیاسی جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ انہیں اپنے سیاسی رہنماؤں کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ اب بھی روایتی طرز عمل سے اجتناب نہیں برتیں گے تو وہ ان سے الگ ہو جائیں گے۔ صعوبتیں وہ برداشت کریں۔ سڑکوں پر وہ نکلیں آنسو گیس کے شیل ان پر گریں لاٹھیاں وہ کھائیں اور جیلوں کی ہوا بھی ان کے حصے میں آئے مگر ان کا کوئی حال تک بھی نہ پوچھے۔ یہ وزارتیں اور یہ کرسیاں سب ان کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ لہٰذا ٹھنڈے ٹھار کمرے بھی ان کے لیے مختص ہونے چاہیں مگر نہیں مخصوص طبقہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا وہ کہتا ہے کہ ہم خاص لوگ ہیں اور خاص لوگوں کے ہی مرہون منت ہیں؟

یہ حال ہے ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کا لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکا کھلا مگر کہتی یہ ہیں کہ ووٹ کو عزت دو، جمہوریت مقدم ہے اور ہمیں کارکن بڑے عزیز ہیں سب کی سب مبالغہ آرائی کرتی ہیں محض اقتدار میں آنے کے لیے جوشیلے نعرے ایجاد کرتی ہیں پھر کہتی ہیں کہ ان کے کام میں مداخلت ہوتی ہے ایسا ہوتا رہے گا اس وقت تک جب تک عوام و کارکنان کو منظم نہیں کیا جاتا اور وہ خود چل کر اقتدار کے پنگھوڑے میں نہیں بیٹھتیں۔

حرف آخر یہ کہ اب سیاسی جماعتوں کو اپنا طرز فکر بدل لینا چاہیے کیونکہ ان کے کارکنوں میں بد دلی پھیل رہی ہے اور یہ سیاست کے لیے کسی طور بھی درست نہیں اگر ان کا یہ خیال ہے کہ وہ طویل عرصے تک یہ کھیل جاری رکھیں گی تا کہ ان کے اقتدار میں یہ حصہ دار نہ بنیں تو یہ ممکن نہیں رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ذہن جاگتے ہیں تو پھر تاریک راہیں روشن ہو جاتی ہیں آگے کچھ ایسا ہونے جا رہا ہے؟ حسب حال ناصر بشیر کا یہ شعر بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں دل توڑنے والے۔ اس کام کی اجرت ہے ضرورت سے زیادہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).