پراسرار الیکٹریشن کا عزم


الیکٹریشن کا کورس کرنے والے طلبہ میں وہ سب سے مفرد تھا۔ الگ تھلگ، خاموش، اپنے ہی خیالوں میں گم۔ اس کی شرٹ کے کالر اوپر کو اٹھے ہوتے۔ سر پر پہنے ہیٹ نے چہرہ تک ڈھانپا ہوتا۔ شخصیت کے گرد اسرار کی دیوار کھڑی کر رکھی تھی اس نے۔ باقاعدگی سے کلاس اٹینڈ کرنے آتا۔ استاد جو کچھ بتاتا، اسے خاموشی سے سنتا، نوٹس لیتا، اور کلاس ختم ہونے کے بعد اسی خاموشی سے چلا جاتا۔ اس کا انہماک قابل رشک تھا۔ جب سرکٹ کے بارے میں پڑھایا جاتا، اس کے چہرے پر بھی سرکٹ کی طرح لکیریں سی بن جاتیں۔

کورس ختم ہوا، امتحانات ہوئے۔ کلاس بھر سے اس کے نمبر زیادہ تھے۔ یہی نہیں۔ اس نے ریکارڈ قائم کیا تھا۔ جب وہ اپنی ڈگری تھام کر خاموشی سے واپس جانے لگا تو استاد سے رہا نہ گیا۔ اس نے بلا کر پوچھ ہی لیا، ”اے پراسرار طالب علم! تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کیا کرنا چاہتے ہو؟ “ طالب علم نے ہنکارا بھرا، اور جواب میں کہا، ”دیکھیں حامد! پہلے دو سوالوں کا جواب تو میں آپ کو نہیں دے سکتا۔ بس اتنا بتا دوں، کہ میرا ایک عزم تھا۔ جسے پورا کرنے کے لیے میں نے الیکٹریشن کا یہ کورس کیا۔ “

”وہ کیا؟ “ استاد ،جس کا نام حامد نہیں تھا، سراپا سوال بن گیا۔ طالب علم بولا، ”آج یہ کورس مکمل ہو گیا۔ اب میں گھر جاو ٔں گا۔ مطلوبہ اوزار سنبھالوں گا۔ اور 55 روپے کلومیٹر والے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر کوٹ لکھپت جیل جاو ٔں گا۔ وہاں جا کر، نواز شریف کے کمرے میں لگا اے سی اور ٹی وی بند کر دوں گا۔ “ جواب دینے کے بعد پراسرار طالب علم کے چہرے پر طمانیت پھیل گئی۔ وہ چشم تصور سے نواز شریف کو پسینے میں نہایا پانی پانی پکارتے دیکھنے لگا۔ یہ سننے ہی استاد نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور بڑبڑایا، ”اس کام کے لیے تو صرف سوئچ بند کرنا ہوتا ہے۔ الیکٹریشن کا کورس نہیں! “

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood