محمد سلیم الرحمٰن کی ”نظمیں“


جدید اردو تنقید کی افقی، عمودی اور حرکی تعبیرات سے تنقیدی اسلوب کی تشکیل تو ہو گئی مگر اس کے تخلیقی مکاشفے کو جو نقصان پہنچا اس سے اردو کے وضاحتی نقاد بے خبر ہیں جو زمانی حدود اور تحریکی روابط کی تلاش میں اچھی خاصی تخلیق کو سپاٹ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے طفیل تو اردو تنقید کی دکان سے وہ کچھ مل رہا ہے جو اس میں ہے ہی نہیں۔

اردو شاعری میں یکساں تنقیدی پیمانے کتنی تحریکوں اور کتنے ہی شاعروں کو کھا گئے اور اچھے شاعر کے ساتھ ایک مسئلہ شروع سے ہی رہا ہے کہ وہ اپنے تنقیدی معیارات ساتھ لے کر آتا ہے جنھیں کسی مروج نظریے کی کھونٹی سے باندھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس پہ مستزاد جب ایک شاعر اپنی شاعری کو ”ایک حیرت زدہ اجنبی کی کسی دوسرے حیرت زندہ اجنبی سے ہم کلامی“ قرار دے تو پیشہ ور قلم کاروں کے قلم رُک رُک جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حیرت خریدی نہیں جا سکتی۔ افلاطون حیرت کو تمام علوم کی ماں کہتا ہے مگر موجودہ اشتہاری معاشرے میں یہ بانجھ نظر آتی ہے۔

مابعدالطبیعیاتی علوم میں باطنی سچ کی کیا اہمیت ہے یہ پارکھ اور گیانی لوگ خوب جانتے ہیں۔ اس باطنی سچ کی کوکھ سے جو دھلی، صاف اور نکھری ہوئی نظمیں نکلی ہیں یہ ہمارے ساتھ ہیں (الفاظ کا منہ دھو کر انھیں لباس پہنانا محمد سلیم الرحمٰن کے خانوادے کے لیے نیا نہیں۔ ”آوازِدوست“ والے مختار مسعود، محمد سلیم الرحمٰن کے والد مولانا عقیل الرحمٰن ندوی کے شاگرد رہے ہیں۔ وہ دارالعلوم علی گڑھ میں ابتدائی عمر میں ان سے پڑھتے رہے۔ خیر جس جگہ گھاڑ گھڑے جائیں کنکر گرتے ہی رہتے ہیں۔)

شاعری کی تفہیم میں ایک ٹھیراؤ اس وقت آتا ہے جب قاری اپنی اپنی جیب میں جمود اور تحرک کی چٹیں رکھ کر قرأت شروع کرتا ہے۔ وہ اس روحانی پھل سے تعصب کا چھلکا نہیں اتارتا اور اس کے ذائقے سے ناآشنا رہتا ہے۔ محمد سلیم الرحمٰن کی ساٹھ سالہ [1957تا2016] شعری ریاضت کا ثمر یہ دو سو پانچ نظمیں ہیں۔ ان نظموں کی باطنی کائنات جذبہ کس طرح لفظ بنا اور لفظ نے کس طرح اسرار اپنی گرفت میں لیے اس کی گواہی ”نظمیں“ کی متنی کائنات سے ملتی ہیں اور پتا چلتا ہے کہ کہنے والے کی ذات بیچ دریاؤ ذات کو کیسے بانٹتا ہے۔ دیکھیے:

ساون کی اندھیری رات سنسان

نمناک ہواؤں کے تھپیڑے

کھڑکی سے لگا ہوا کھڑا ہوں

بارش کے طلسم میں گھرا ہوں

کمرے میں ہوا کا شور اور پھر

بارش کی مہین سرد چلمن

اور دُور سڑک پہ قمقموں کے

دھندلائے ہوئے سفید ہالے

میں یاد کروں کسے بھلا اب؟

میرے لیے غم ہے نہ خوشی ہے

بارش میں بکھر گئے ہیں جذبات

اور رات پہاڑ سی کھڑی ہے

اگر تحیر کے اس حیرت کدے میں اس بھید خزانے کو ٹٹولیں تو لاحاصلی مقدر بنے گی۔ ایک احساس ہے اگر اپنی گرفت میں لیتا ہے تو یہ اس محسوس کرنے والے کی ذات ہے جو دھوپ کو ہاتھ میں پکڑنا چاہتی ہے۔ ڈی-ایچ-لارنس تنقید کو احساس اور جذبے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے راقم نے ”نظمیں“ سے پہلے یا اس کے ساتھ کی شعری روایت کو نہیں چھیڑا ورنہ کوئی تحقیقی مقالہ راقم کو اس معمے سے نکال سکتا تھا۔ محمد سلیم الرحمٰن لہجے یا کرافٹ کی سطح پر کسی بھی شاعر کے قریب نہیں۔ کیونکہ قربتیں ذات کو کاٹ دیا کرتی ہیں۔ ایک ذات کائناتی اسرار کی طرف متوجہ اور بحثی بھیڑیوں سے بچ کر ایک طرف رات کو دیکھ رہی ہے جو اہلِ دید کا رختِ سفر ہے:

رات اہلِ دید کا رختِ سفر، رزقِ خیال

وقت کی پیچاں رگوں میں خون کی پروانہ وار

گردشوں کا سوز و ساز

نیند اور امید کے مضموں سے خالی سرگراں

سردیوں کی سب سے بھاری اور طویل

رات میں تیور بدلتی ہے ہوا

شعری محاکمے میں ایک مسئلہ رہتا ہے کہ جب آنکھ تھوڑا سا ادھر اُدھر جھانک کر سانس لینا چاہتی ہے تو جذبہ ہاتھ جھٹک کر دوسری راہ لیتا ہے جس سے ابلاغ کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور داخلی حبس اندر ہی اندر کاٹتا رہتا ہے۔ ایسے میں محبوس معاشروں میں حیران لوگ یاد کی لکڑیاں جلا کر زیست نہ کریں تو کیا کریں۔ ایک شاعر کائناتی امن کو کس طرح فطری استعاروں سے تعبیر کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہی ہے جو درختوں کے کٹنے پر پیلا پڑ جاتا ہے۔ بظاہر یہ آسان محسوس ہوتا ہے مگر اصل میں یہ قافیہ پیمائی کبھی کر کے تو دیکھو۔“ محمدسلیم الرحمٰن کے شعری قبیلے میں کئی اور لوگ بھی ہیں جنھیں ریل کھا گئی اور وہ امر ہو گئے۔ کئی بستیاں چھوڑ کر پرندوں سے جی بہلانے لگے مگر ان کا یہ عمل انفرادی عمل نہیں تھا:

آدھی رات اُدھر، آدھی رات اِدھر

مدھم بلب کی روشنی میں

میرے بستر پر ایک چیونٹی چل رہی ہے

ننھی ساتھی!

تمھاری دنیا میں اس وقت دن ہے یا رات؟

تمھاری دنیا میں وقت ہے بھی یا نہیں

مجھے تو کچھ پتا نہیں

کہنے کو ہم ایک ہی دنیا کے رہنے والے ہیں                       (بیگانگی)

میرے کمرے میں یہ ناکارہ کلاک

سوئیاں رکی ہوئیں

چہرہ میلا کچیلا

یہ بھی دن کو ایک مرتبہ

صحیح وقت بتاتا ہے

اور ایک مرتبہ رات کو                          (ایک مایوس دوست کے لیے نظم)

”بیگانگی“ سے امن اور ”ایک مایوس دوست کے لیے نظم“ سے عمل کی تحریک مجھے تو مل رہی ہے اگر کوئی اونچا سنتا ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے:

رات گئے گزری کوئی رکتی چلتی ریل

کھڑکیوں کے شیشے تھرائے، فرش ہلے

کروٹ کروٹ رنج کی کان میں سیٹی گونجی تو

تھٹھک گیا رگ رگ میں بہتا خون پرانے دکھ چونکے

شاعری موت کا ذائقہ ہے اور حالت کی مزاج شناسی ہاری ساری کا کام نہیں۔ محمد سلیم الرحمٰن نے زندگی اور موت کے درمیان کچھ لکیریں کھینچی ہیں۔ یہ لکیریں ”نظمیں“ میں موجود ہیں۔ ”نظمیں“ کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے جسے قوسین نے چھاپا ہے اور یہ ریڈنگز پر دستیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).