عقل کا چراغ ضروری ہے


علامہ اقبال کا ایک شعر بہت لہک لہک کر پڑھا جاتا ہے:

گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چراغ گل کر دیا جائے تو اندھیرے میں راستہ کیسے طے ہو گا؟ جا بجا ٹھوکریں لگیں گی۔ من کی روشنی باہر اجالا کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اندھیرے میں ہم سانپ کو رسی سمجھ کر پکڑ سکتے ہیں۔ اگر چراغ کی روشنی ساتھ ہو گی تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ یہ رسی نہیں سانپ ہے۔ اگر آپ آگ میں ہاتھ ڈالنا چاہتے ہوں تو عقل آپ کو بتائے گی کہ ہاتھ جل جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی پہاڑ کی بلندی سے کودنا چاہے تو بھی عقل ہی بتائے گی کہ نیچے گہری کھائی ہے اور اتنی بلندی سے کھائی میں گرنے کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اگر عقل کے منع کرنے کے باوجود عشق ہر بار آگ میں چھلانگ لگا دیتا تو شاید بنی نوع انسان بہت پہلے فنا کے گھاٹ اتر چکی ہوتی۔

عقل اور روایت کی کش مکش بہت پرانی ہے اور تقریباً ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ تاہم ہر دور میں انسان اپنی عقل کو استعمال میں لا کر علم میں بھی اضافہ کرتے رہے ہیں اور زندگی کو سہل بنانے کی سعی بھی کرتے رہے ہیں۔ جب زراعت کا آغاز ہوا تو انسان کو بنیادی ضرورت یہ تھی کہ اسے معلوم ہو کہ موسم کب بدلتا ہے، بارشیں کب ہوتی ہیں۔ اس کے لیے اس نے اجرام فلکی کا مشاہدہ شروع کیا۔ کوئی چار ہزار سال قبل اس مشاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بابل کے ستارہ شناس سورج اور چاند گرھن کا اصل سبب دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ برٹرینڈ رسل کے بقول یہ انسان کی سب سے اولین اور عظیم سائنسی دریافت تھی۔

انسانی تفکر کا ایک بنیادی عنصر یہ ہے کہ وہ نتائج و عواقب پر غور کرتا ہے۔ جب یہ پتہ چل گیا کہ سورج اور چاند کو گرہن لگنے کا سبب ان پر زمین کا سایہ پڑنا ہے۔ جب انسان نے سایہ پر غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ گول ہوتا ہے۔ اب گول چیز کا سایہ ہی گول ہو سکتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ زمین کی ساخت گول ہے۔ ہمارے ہاں اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ زمین کے گول ہونے کا تصور شاید دور جدید کی دین ہے حالانکہ انسان کو ہزاروں سال سے اس بات کا پتہ ہے۔ مسلم روایت میں بھی جب زمین کی ساخت کا ذکر آتا ہے تو اسے گول ہی لکھا جاتا ہے۔ کرہ ارض کافی پرانی اصطلاح ہے۔

عام طور پر یونان میں فلسفہ اور سائنس کے آغاز کا ذکر کچھ اس انداز میں کیا جاتا ہے جیسے اس سے پہلے انسان تفکر اور تدبر سے ناآشنا تھا۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کارل پوپر کے نزدیک تھیلیز کا اصل امتیاز یہ نہیں کہ اس نے کون سے نظریات پیش کیے تھے بلکہ اس نے ایک ثانوی روایت کی بنیاد رکھی تھی اور وہ روایت تھی عقلی تنقید کی۔ تھیلیز کا کہنا تھا کہ زمین ایک چپٹی طشتری ہے جو سطح آب پر تیر رہی ہے۔ پوپر کا قیاس ہے کہ شاید وہ زلزلوں کی توجیہ پیش کرنا چاہتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے اپنے شاگرد انکسیمینڈر کو یہ چیلنج دیا ہو: کیا وہ اس کے نظریے کو بہتر بنا سکتا ہے؟ شاگرد نے استاد کا یہ چیلنج قبول کر لیا۔ اب اس کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ اگر زمین کی بنیاد پانی پر ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پانی کی بنیاد کس پر ہے؟ اگر اس کی بنیاد تلاش کریں گے تو بنیاد کی بنیاد تلاش کرنا پڑے گی اور یوں یہ سلسلہ لانہایت تک دراز ہوتا چلا جائے گا۔ فلسفہ کی زبان میں اسے تسلسل کہتے ہیں جو منطقی مغالطہ ہے۔ اس نے عقلی تفکر کو استعمال کرتے ہوئے جواب دیا زمین کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ پھر زمین اپنی جگہ پر کس طرح قائم ہے؟ یہ کسی طرف لڑھک کیوں نہیں جاتی؟ اب انکسیمینڈر کے جواب پر غور کیجیے کہ وہ دو ہزار سال پہلے نیوٹن کی پیش بینی کر رہا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ زمین چونکہ تمام اجرام فلکی سے یکساں فاصلے پر واقع ہے اس لیے ان کی کشش اس کو اپنے مقام پر قائم رکھتی ہے۔

عقلی تفکر کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایک مسئلے کا حل پیش کیا جاتا ہے تو وہ حل کئی اور مسائل کو جنم دے دیتا ہے۔ اب تمام اجرام فلکی سے یکساں فاصلہ ایک ہی صورت ممکن ہو سکتا ہے اگر زمین کی ساخت گول ہو کیونکہ ایک گول شے ہی دیگر اشیا سے یکساں فاصلے پر ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ بابل کے ستارہ شناس زمین کی ساخت گول قرار دے چکے تھے لیکن یہ نظریہ ابھی تک انسانی شعور کا حصہ نہیں بنا تھا۔ انسانوں کا چھوٹی چھوٹی گول چیزوں کا تجربہ تھا جن پر انسان چل نہیں سکتا تھا۔ کچھ اور معارضے بھی تھے۔ اس مسئلے کو انکسیمینڈر نے یوں حل کیا کہ زمین کی شکل ایک ڈرم جیسی ہے جس کی اوپری ہموار سطح پر ہم چل پھر رہے ہیں۔ اس پر کارل پوپر کا تبصرہ یہ ہے کہ اس کی عقل اسے ٹھیک راستہ بتا رہی تھی لیکن اس کے حواس اسے گمراہ کر رہے تھے۔

ان چند مثالوں سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ انسان کے لیے علمی اور عملی مسائل کا حل دریافت کرنے کے لیے عقل ایک بہترین آلہ اور وسیلہ ہے۔ نئے خیالات و افکار کی ایجاد میں عقل کا حصہ سب سے کم ہے۔ ان کا زیادہ تر انحصار تخیل اور وجدان پر ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی نیا خیال پیش کر جاتا ہے تو عقل اسے تنقید کی سان پر پرکھتی ہے اور اس کے کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرتی ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ عقل ہی سب کچھ نہیں۔ انسانی زندگی میں جذبات، وجدان اور تخیل سب کا اپنا اپنا رول ہے لیکن علم کی ترقی میں عقل کا حصہ فزوں تر ہے۔ کچھ عقل کو سود و زیاں میں الجھا ہوا قرار دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کے روزمرہ ادنیٰ مسائل کو عقل کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے لیکن اہم اور بڑے مسائل کے حل کے لیے ماورائے عقل وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ والٹر کافمین کے نزدیک یہ اس قسم کی نصیحت ہے کہ گاڑی کی رفتار چالیس میل سے کم ہو تو آنکھیں کھلی رکھو لیکن اگر رفتار بڑھ جائے تو آنکھوں کو بند کر لینا چاہیے۔ ظاہر ہے اس کے بعد گاڑی بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے گی۔

ایک اور خواہ مخواہ کی بحث ہے سائنس کی بنیاد حسی تجربے پر ہے۔ سائنس کا منہاج کیا ہے اور اس میں حواس کا کیا کردار ہے، اس پر بہت سے صفحات سیاہ کیے جا چکے ہیں۔ اس وقت سائنسی منہاج پر بحث کرنے کے بجائے میں قارئین کی جدید سائنس کے بانی، گیلی لیو کی رائے کی طرف توجہ دلا کر بات ختم کرنا چاہوں گا۔

میں ان اذہان کی عظمت کے لئے اپنے ستائشی جذبات کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں جنہوں نے اس (شمس مرکزی) فرضیہ کو وضع کیا اور اسے سچ قرار دیا۔ اپنے حواس کے فراہم کردہ شواہد کے بالکل برعکس اور اپنی عقل کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے انہوں نے عقل کی بات کو حواس کے مشاہدات پر ترجیح دی۔ میں اپنی بات کا اعادہ کروں گا کہ میری حیرانی کی کوئی حد نہیں رہتی جب میں اس پر غور کرتا ہوں کہ ارسٹارکس اور کوپرنیکس نے کیوں کر عقل کو حواس پر فتح یاب ہونے دیا اور حواس کے علی الرغم عقل کو اپنے اعتقادات کے لئے رہنما قرار دیا۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).