چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی: اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی


پارلیمنٹ ہاؤس

حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان کی درخواست پر طلب کیا جانے والا سینیٹ کا اجلاس بدھ کو مختصر کارروائی کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کی جس کے جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق حزب اختلاف کی جماعتوں کو چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی قرارداد پر بحث کرنی تھی۔

اجلاس سے پہلے اس بات پر صحافتی اور سیاسی حلقوں میں بحث جاری تھی کہ آیا صادق سنجرانی کو آج کے اجلاس کی صدارت کرنی چاہیے یا نہیں؟ اور کیا اصولوں کو دیکھتے ہوئے انھیں استعفیٰ دے دینا چاہیے یا یکم اگست کا انتظار کرنا چاہیے؟ تاکہ تمام ‘کارروائی’ آئین اور قوانین کے مطابق ہو؟

سینیٹ اجلاس کا آغاز حسب معمول قرآنی آیت کی تلاوت سے کیا گیا۔ قرانی آیات کا انتخاب موقع کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔ آیت کا ترجمہ کچھ یوں تھا: ‘اور جب دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ کیونکہ تم سب آپس میں بھائی ہو اور کوشش کرو کے وہ لوٹ آئیں۔ اگر وہ لوٹ آئیں تو انصاف کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔’

جماعت اسلامی کے ارکان کے سوا حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں منگل کے اجلاس میں موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

حاصل بزنجو کے چیئرمین سینیٹ بننے کے کتنے امکانات؟

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد

اپوزیشن سینیٹ چیئرمین کو کیوں ہٹانا چاہتی ہے؟

سینیٹ کی اہمیت اور اہم قانون سازی

اجلاس میں شامل تمام ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے حزبِاختلاف کے لیڈر راجہ ظفر الحق نے کہا ‘ہم نے یہ کہا تھا کہ اجلاس میں چیئرمین کے خلاف ووٹنگ کرائی جائے اور عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کی جائے لیکن ہماری استدعا پر کارروائی کرنے کے بجائے تحریک کو شق نمبر 218 کے تحت زیرِ بحث رکھ دیا گیا جو اس پر لاگو نہیں ہوتی۔’

راجہ ظفر الحق نے مطالبہ کیا کہ ایوان کو ‘غیر معینہ مدّت کے لیے ملتوی کرکے یکم اگست کے اجلاس میں (چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے) معاملے کو زیرِ غور لایا جائے۔’

صادق سنجرانی

راجہ ظفر الحق کے مطالبے کو مانتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے رولنگ جاری کرتے ہوئے کہا ‘چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے نوٹس صرف سینیٹ کے جاری اجلاس میں دیا جاسکتا ہے۔ قرارداد کے طریقے سے متعلق مبینہ خدشات پھیلائے جا رہے ہیں۔ یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ چیئرمین کو ہٹانے کے حوالے سے آئین، قوانین اور چیئرمین کی رولنگ واضح ہے۔’

انھوں نے کہا ‘میں نے سینیٹ کے عہدے کا تقدس اور غیر جانبداری کا خیال رکھا۔ حالانکہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی قرارداد کا نوٹس شرائط پر پورا نہیں اترتا تھا، اس کے باوجود میں نے اپنے ضمیر کے مطابق کام کیا۔ کیونکہ میں سینیٹ آف پاکستان کو کمزور کرنے اور چیئرمین سینیٹ کی کرسی کو متنازع بنانے کی تمام کوششوں کو ناکام بنانا چاہتا ہوں۔’

اجلاس ختم ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ کے چیمبرز کے باہر صحافیوں اور سیاست دانوں کا رش لگ گیا۔ ہر آتے جاتے سے سوال کیا جانے لگا کہ کیا صادق سنجرانی استعفٰی خود دے دیں گے یا بیلٹ کےذریعے جانا پسند کریں گے؟

اس بارے میں بلوچستان سے منتحب ہونے والے سینیٹر کہدہ بابر نے کہا ‘کوشش تو کی جارہی ہے کہ معاملہ یکم اگست سے پہلے حل کیا جاسکے لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر تو نہیں آتا۔ معاملہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی حل ہو گا۔’

چیئرمین سینیٹ کے چیمبرز میں جاتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو صحافیوں نے کمرے کے باہر ہی روک لیا۔ انھوں نے کہا ‘حزبِ اختلاف کی جماعتیں کسی اور کا غصہ صادق سنجرانی پر نکال رہی ہیں۔ اپوزیشن کا غصہ دراصل حکومت پر ہے۔ وفاق کی طرف سے سخت احتساب کا غصہ اتارا جا رہا ہے۔’

جب ان سے کسی صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ بلوچستان سے آنے والے نئے امیدوار کی حمایت کریں گے؟ تو انھوں نے جواب دیا ‘بلوچستان کے معاملے کو سیاسی نہ بنائیں اور جب نتیجہ آجائے تب ہارس ٹریڈنگ کی بات کیجیے گا۔‘

اسی راہداری کے دوسری جانب سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے چیئرمین اور چیئرمین کو عہدے سے ہٹانے کا طریقۂ کار بتایا۔

رضا ربانی

رضا ربانی نے کہا ’سات دن کا نوٹس دیا جائے گا۔ سینیٹ پر اس کا اطلاق تب ہوتا ہے جب آپ اس کو آئین کی شق 61 کے ساتھ پڑھتے ہیں کیونکہ آرٹیکل 61 میں ہے کہ قومی اسمبلی کی شرائط کا اطلاق سینیٹ پر بھی ہوگا لہذا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئین سے جنم لیتی ہے۔’

یکم اگست کے اجلاس میں طریقۂ کار کے بارے میں بات کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ سب سے پہلے قرار داد پیش کرنے کی اجازت کی تحریک پیش کی جائے گی اور اس پر بحت ہوگی۔ اس پر بحث کے دوران تحریک پیش کرنے والے 26 ارکان کو اپنی اپنی نشست (کے سامنے) کھڑے ہونے کی ضرورت ہو گی جب ‘لیو گرانٹ’ ہوجائے گی پھر قرار داد زیرِ بحث آئے گی۔ قرار داد پر چند تقاریر ہو بھی سکتی ہیں اگر ارکان تقاریر نہیں کرنا چاہیں گے تو پھر براہِ راست ووٹنگ کی جائے گی۔

جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ تحریک واپس لینے کا طریقۂ کار کیا ہے؟ تو اس پر رضا ربانی نے کہا ‘کیا واپس لینا ہو گا؟ یہ آپ ان سے پوچھیں جنھوں نے تحریک واپس لینی ہو گی، ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’

ایک سینیٹر نے چیمبرز سے باہر نکلتے ہوئے بتایا کہ صادق سنجرانی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے بیچ صلاح صفائی کروانے کے لیے وٹس ایپ کے ذریعے بات چیت کروانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن دونوں گروہ اپنی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کے لیے راضی نہیں۔

اس وقت سینیٹ کے اراکین کی کل تعداد 104 ہے۔ سینیٹ چیئرمین کی تبدیلی کے لیے 53 اراکین کے ووٹ درکار ہوں گے۔

اس وقت سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 66 ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد صرف 36 ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp