دلّی دُور اَست


یہ ہے مغلوں کا فخر، موجودہ بھارت اور سابق ہندوستان کا بارعب دارالحکومت، مشرق کے کلاسیکی حُسن کو صدیوں سے سمیٹے ہوئے، تعمیرات خواہ شاہی شکوہ کے لحاظ سے لاہور کی بہن، دہلی (جس کو لکھا ’دہلی‘ اور پڑھا ’دلّی‘ جاتا ہے ) ، جس کے وسط میں ایک طرف جہاں شیر شاہ سُوری کے قلعے کی باقیات اپنے شاندار ماضی کی داستان سُنا رہی ہیں، تو دُوسری طرف جلال الدین محمّد اکبر کے والد اپنے پُر شکوہ مقبرے میں محو خواب ہیں، جس کا مقبرہ، اس کے اس دارِ فانی سے کُوچ کر جانے کے باوجُود اس کے شاہی رعب کی داستان سُنا رہا ہے۔

ایک طرف پُرانی دہلی میں ایک بڑے رقبے پر واقع جامع مسجد اور اُس کے عین سامنے لال قلعہ اپنے شاندار ماضی کے قصے سُنا رہا ہے، تو کسی کونے میں ادھ تباھ شُدہ پرانے قلعے کے باقی ماندہ نشان ہیں۔ ایک طرف حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کا مزار ہے، تو اُسی کے صحن میں برِ صغیر میں نیم کلاسیکی موسیقی کی داگ بیل ڈالنے والے عظیم شاعر، حضرت امیر خسروؒ، اپنے مرشد کے قدموں میں محو خواب ہیں۔ تو اُسی نواح میں اردُو اور فارسی کے شاعرِ یکتہ، دبیرالمُلک، میرزا اسدا للہ خان ’غالب‘ عرف میاں نوشہ محو خواب ہیں۔

وہی دہلی، جہاں افغانستان کے ”جامی مینار“ سے متاثر ہوکر قطب الدین ایبک نے 240 فٹ طویل ”قطب مینار“ تعمیر کرایا، جو آج بھی اُسی رعب اور دھج سے سَر اُڻھا کے کھڑا ہے۔ وہ دہلی، جس سے آج بھی خوشونت سنگھ اور کلدیپ نیّر کی تحریروں کی خوشبو آتی ہے۔ یہ ہے اکیسویں صدی کی دہلی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے آج موجود کافی سارے روڈ اور شاہراہیں اس پرانی عمارات کی باقیات کے اُوپر بنے ہوئے ہیں۔

اسی آج کی دہلی میں ہم بھی پچھلے دنوں شب و روز بھٹکتے رہے۔ کچھ کام کے سلسلے میں، تو کچھ تاریخ کی ورق گردانی کے جنُون میں! بہانہ تھا، امریکا کی ریاست ہوائی میں قائم ’اِیسٹ ویسٹ سنٹر‘ کی جانب سے منعقدہ چار روزہ بین الاقوامی صحافتی کانفرنس، جس میں بحیثیت ایک صحافی اور اِیسٹ ویسٹ سنٹر کے سابق طالب العلم کے، مجھے بھی شرکت کے لئے مدعُو کیا گیا تھا اور دنیا بھر کے صحافیوں سے ’جنُوبی ایشیا، مشرق کی طرف دیکھتے ہوئے’ کے موضوع پر گفت و شنید کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔

اس ضمن میں دنیا بھر کے میڈیا کے نمائندوں سے تبادلہء خیالات کرکے کون کون سے مقامی اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے میرا کون کون سا نقطہء نظر کس کس کروٹ بیٹھا، یہ تو ایک علیحدہ موضوع ہے (جس پر الگ سے لکھوں گا) ، لیکن میں یہاں پر فقط دہلی کے دیوار و در کے فُسوں کے ذکر کو قلمبند کرنے کی کوشش کررہا ہُوں۔ ایک ایسی کلاسیکیت، جس کے پیچھے صدیوں کا تاریخی پسمنظر موجود ہو، جس میں عام لوگوں سے لے کر شاہی امراء اور وزراء تک کی زندگیوں کی سرگزشت کی خاموش کہانیاں ہوں، ایسے جائے ہائے وقوعہ، محض کھوکھلی عمارات نہیں، بلکہ صدیوں کے تاریخی سفر کا بیان ہیں۔ ویسے تو ہر ملک کا کم و بیش ہر شہر گھومتے اور اس کے راستوں کی دھُول اُڑاتے یہ خیال آتا ہے، کہ اگر ان عمارتوں کے دیوار و در کی زبان ہوتی، تو یہ کیا کیا کہانیاں نہ بیان کرتے۔ لیکن یہ احساس لاہور خواہ دہلی جیسے شہروں میں بھڻکتے ہوئے کچھ زیادہ شدّت سے ہوتا ہے۔

شاہی قلعے کی فصیلیں کس کس استبداد کی گواہ نہیں ہوں گی! جمنا کا کنارہ اور پرانی دہلی کی پُر پیچ گلیاں کس کس دَور کی چشم دیدہ نہیں ہوں گی! نئی اور پرانی دہلی کے پانی، خمیر خواہ لوگوں کے مزاجوں میں واضح فرق آج کا تو نہیں ہوگا! اس کے پیچھے صدیوں کا سفر کارفرما ہوگا۔ پرانی دہلی میں، جہاں آج بھی ہر شخص کے چہرے پر ہر وقت ایک عجیب اطمینان دکھائی دیتا ہے، جیسے اُسے دنیا جہان کے کسی بھی مسئلے کی پرواہ نہ ہو۔

جہاں آج بھی تنگ گلیوں میں گُھومتے ہوئے کسی کو کسی کی ٹھوکر لگ جائے، تو وہ اُسے اُسی صدیوں پرانے پیار بھرے انداز میں کہتا ہے : ”اماں یار! جرا اور جور سے مار دیتے! “ اور مُسکراتے ہوئے چلا جاتا ہے، جہاں گھومتے ہوئے کیے بار آپ کے پاؤں کے اُوپر کسی سائیکل رکشہ کا ٹائر بھی چڑھ جائے تو آپ خفا نہیں ہوتے! جہاں آج بھی سائیکل رکشہ والے اُسی مخصوص انداز میں آواز لگاتے ہوئے آپ کو ایک سائیڈ پر ہونے کو کہتے ہیں : ”او! بھائی جان! جَرا سائیڈ پہ! “ جہاں آج بھی جامع مسجد کے آسپاس آپ کو بریانی اور نہاری کی بے تحاشا دُکانیں مسلمانوں کے روایتی پکوانوں کے درخشاں ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔

پاکستانی ہائی کمیشن میں جمعے کی دوپہر ہم سب پاکستانی صحافیوں کے اعزاز میں پاکستانی ہائی کمشنر کی جانب سے دیے گئے ظہرانے میں جب اُنہوں نے انفرادی طور پرمجھ سے دریافت کیا کہ: ’آپ کو دہلی کیسی لگی؟ ‘ تو میں نے جواب دیا کہ: ’بالکل اپنی اپنی۔ روایت سے معمُولات تک! تعمیرات سے مزاج تک! کوئی فرق محسُوس نہیں ہوا۔ ‘ میں اپنے بھارت میں مقیم دہلی کے مقامی صحافی دوست، پشویندرکُلشریستھا سے بات کرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی محسُوس نہ کر سکا کہ اس کو اردُو لکھنا یا پڑھنا نہیں آتی، کیُونکہ بولنے میں اُس کی اردو اتنی صاف اور ہندی الفاظ کی آمیزش سے پاک ہے کہ آپ محسُوس ہی نہیں کر سکتے کہ اُس کا تعلق دہلی سے ہے، یا لکھنؤ سے۔

اُس کی وجہ بذاتِ خود پشویندر نے یہ بتائی کہ وہ علی گڑھ کا جایا ہے۔ گویا دہلی کی گلیاں گھُومتے ہوئے کبھی مجھے لاہور کا گمان ہوتا تو کبھی کراچی کا! بالخصُوص پرانی دہلی کی گلیاں مجھے لاہور کے لوہاری گیٹ یا انارکلی جیسی لگیں۔ سوائے دہلی کی میٹروریل کے، دہلی کا باقی سب ہمارے شہروں جیسا ہے۔ دہلی کی لوکل انٹرسٹی میٹروریل، اُن کا بہت بڑا کارنامہ ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کی آمد و رفت کا بوجھ دہلی کی روڈ ٹرانسپورٹ پر نہیں ہے اور ہر عمر کے لوگ میٹرو کے ذریعے ایک سستے، صاف سُتھرے اور آرامدہ وسیلہء سفر سے مستفید ہو رہے ہیں۔ گوکہ دہلی کا شمار، عالمی ماحولیات کے لحاظ سے دنیا کے غلیظ ترین شہروں میں ہوتا ہے، جہاں سانس لینے تک کو مہلک قرار دیا گیاہے، مگر اُس کے باوجُود دہلی کا سبزہ قابلِ دید ہے۔

لاہور سے دہلی تک بذریعہء روڈ سفر کرنے سے مغربی پنجاب اور ہریانہ کے بیشتر شہروں کا مزاج بھی معلُوم ہوا اور بیشتر شہر اس مقولے کا عملی اظہار نظر آئے کہ ’ترقی وہ، جو نظر آئے! ‘ بھارت کی سب سے اچھی بات، جو کم از کم پنجاب، ہریانہ اور این سی آر (نیشنل کیپیٹل ریجن) میں واضح انداز میں نظر آئی، وہ اظہار و فکر و عمل کی آزادی ہے، جو یہاں ہر کسی کو حاصل ہے۔ گویا فاصلے کے لحاظ سے چاہے دہلی لاہور سے 10 گھنٹے کی مسافت پر ہے یا ہوائی جہاز کے سفر کے لحاظ سے چاہے کراچی سے ڈیڑھ گنٹے کی مُسافت پر ہے، مگر آزادیء اظہار، انسان شناسی، فن شناسی، قدر شناسی سمیت کئی اور حوالوں سے ہم سے ’دہلی ابھی بہت دُور اَست! ‘ اور ہم بھی ’دہلی سے بہت دُور است! ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).