شکریہ کوک اسٹوڈیو۔۔۔ شاباش نوجوان فنکارو


\"umme-rubab\" اوہو اب یہ مہدی حسن کا گانا گائیں گے، ارے یہ نور جہاں پہ ہاتھ صاف کریں گی، ان کی اوقات کیا ہے کہ یہ امانت علی خان کا گیت گائیں۔

چند سال پرے کی بات ہے ٹیلی وژن پر کوک اسٹوڈیو نامی پروگرام شروع ہوا تھا۔ اس میں نئے اور پرانے فنکار اپنے فن کا جادو جگاتے ہیں۔ کچھ نئے گیت پیش کئے جاتے ہیں اور کچھ پرانے نغمے کو ری میک یا ٹریبیوٹ کا نام دیا جاتا ہے، یہ تمام تبصرے اس پروگرام کے شروع ہونے پر کئے گئے تھے اور مجھے یہ سچ کہنے میں عار نہیں کہ ابتدا میں، میں بھی انہی تنقید کرنے والوں میں شامل تھی۔ پھر اس پروگرام کے کئی سیزن آئے اور یہ مقبولیت کی طرف گامزن ہوتا گیا۔ نوجوانوں کے ساتھ بڑی عمر کے افراد نے بھی اسے دیکھنا شروع کیا۔ کچھ نے حسب معمول تنقید جاری رکھی اور کچھ نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ جیسا کہ میں نے اعتراف کیا کہ ابتدا میں، میں خود بھی تنقید کرنے والوں میں شامل تھی، لیکن جوں جوں وقت گزرا میرے خیالات میں یہ مثبت تبدیلی آنا شروع ہوئی کہ ایسے حالات میں جب ہر طرف دہشت گردی کا دور دورہ ہو، یہ نوجوان محبتیں، خوشیاں بانٹنے کا کام کر رہے ہیں۔

اس دور میں نوجوان فنون لطیفہ کے اور شعبوں کی بہ نسبت موسیقی کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں اور موسیقی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو آزما رہے ہیں بلکہ اس میں اپنا لوہا بھی منوا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں میں فنون لطیفہ کی کوئی خاص قدر نہیں بلکہ یہ معاشرہ تو فنون لطیفہ کو محض ایک لطیفہ ہی سمجھتا ہے۔ اب سے چند سال پہلے والدین اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہی بنانا چاہتے تھے، اب تو صورتحال کچھ بہتر ہے تا ہم اب بھی والدین اپنے بچوں کا فنون لطیفہ کے کسی شعبے سے وابستہ ہونے کو باعث عزت نہیں سمجھتے اور سچ کہوں تو بحیثیت ماں شاید میں بھی ایسا ہی سوچا کرتی تھی۔ لیکن اب وقت بدل چکا ہے اب بچے والدین کے ساتھ نہیں چلتے والدین کو بچوں کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ اس دور میں کوئی مہدی حسن، نورجہاں، غلام علی اور امانت علی خاں نہیں بن سکتا کیوں کہ یہ تمام استاد اپنے وقت میں اپنی \"meesha_shafi_4_boixf_pak101dotcom\"صبح وشام کی ریاضت سے اس مقام تک پہنچے تھے۔ اب اس دور میں ریاضت کا اتنا وقت شاید ان نئے گلوکاروں کے پاس نہیں اور یقینناًان میں سے شاید ہی کوئی اس پائے کا گلوکار بن پائے لیکن یہ بات تو آپ تسلیم کریں گے کہ انہی نوجوانوں میں سے چند ایک نے اس پروگرام کے ذریعے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ہم اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ ہمارا زمانہ بہت اچھا تھا اب جب کہ ہم خود اسی عمر کی اسی منزل کی طرف گامزن ہیں تو اکژ یہی بات ہم اپنے بچوں سے کہتے ہیں، شاید یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی جو زمانہ گذر گیا وہی اچھا تھا۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، تعریف نہیں کرتے، بڑھاوا نہیں دیتے۔ ہم صرف تنقید کرنا جانتے ہیں کسی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے حالانکہ حوصلہ افزائی کے چند لفظ معجزاتی طور پر کسی کی بھی زندگی بدل سکتے ہیں۔ تنقید معیار پر ضرور کی جا سکتی ہے، جہاں تک معیار کی بات ہے تو ممکن ہے مہدی حسن اور ملکہ ترنم نور جہاں نے بھی اپنے وقت میں اپنے معیار سے کم تر کوئی پرفارمنس دی ہو، کچھ فلمی گانوں کو مثال بنایا جا سکتا ہے۔ تنقید کا مقصد تربیت بھی ہوتا ہے مگر ہم لوگ تنقید میں بھی ایران وتوران اور انجیل و قرآن کی مثالیں پیش کر کے ہر چیز کو مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔

آنے والا وقت انہی نئے فن کاروں اور گلوکاروں کا ہے۔ پرانی موسیقی ہمیشہ زندہ رہے گی، کلاسیک کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہم بڑوں کو یہ چاہئیے کہ ہر وقت روک ٹوک، تنقیداور برے رویے اختیار کرنے کے بجائے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں، ممکن ہے انہی نوجونوں میں سے آگے چل کر کوئی مہدی حسن، نورجہاں، غلام علی یا امانت علی خاں بن جائے۔ تعریف کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے سے کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ رواداری، برداشت اور تحمل سے باہمی عزت و احترام سے پر ایک معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ میں تو دو ہی لفظوں میں کہنا چاہوں گی شکریہ کوک اسٹوڈیو، شاباش کوک اسٹوڈیو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments