جائیے! ہم آپ سے نہیں مانگتے


چندے کی اپیل کرنا کسی وزیر اعظم کے شایانِ شان ہے یا نہیں مگر ہمارے وزیر اعظم نے یہ اپیل تقریباً حکومت سنبھالتے ہی کر دی تھی۔ اس سے بھی پہلے کہ وزیر اعظم یہ فیصلہ کر پاتے کہ انہیں وزیر اعظم ہاؤس کے اندر کس جگہ رہنا ہے اور لوگ یہ فیصلہ کر پاتے کہ اُن کے مقبول وزیر اعظم کا روزانہ دفتر آنے جانے کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال قوم کے لئے کتنے فوائد کا حامل ہو گا، جناب وزیر اعظم نے قوم کو ایک اور سوچ میں ڈال دیا۔

ادھر وزیر اعظم کے کہنے کی دیر تھی، ڈیم اکاؤنٹ میں پہلے سے موجود تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی رقم میں دھڑا دھڑ اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور لگتا تھا کہ دس ارب ڈالر کی خطیر رقم جمع ہونے تک یہ سفر جاری رہی گا اور کیوں نہ ہو وزیر اعظم کا چندہ دینے والوں کے ساتھ کم و بیش پچیس سال پرانا رشتہ ہے۔ مگر پھر اچانک یہ سلسلہ تھم گیا، شاید اس لئے کہ عالی جناب سابق چیف جسٹس جو اس فنڈ کے داعی تھے پاکستان سے ہی چلے گئے۔

البتہ حالیہ سال میں شوکت خانم کے لئے ریکارڈ چندا جمع ہونے سے کپتان کے چندا جمع کرنے کی صلاحیت اور چندا دینے والوں کی ثابت قدمی نے ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت کر ڈالی کہ چندا جمع کرنے والوں اور چندا دینے والوں کے درمیان رشتہ ہے اعتماد کا، بے غرضی کا، تسلسل کا۔

کپتان پراجیکٹ اناؤنس کرتے رہتے ہیں، چندے کے لئے کہہ دیتے ہیں اور چندہ آ جاتا ہے۔ اس سے پہلے، کپتان کا سب سے پہلا پراجیکٹ، شوکت خانم کینسر ہسپتال، ایک پہاڑ جیسا ادارہ، لاہور میں چندے پر ہی بنایا اور چندے پر ہی چلایا۔ زمین نواز شریف نے عطیہ کر دی اور ایک بڑی رقم کا چندہ بھی، بس پھر کیا تھا کام شروع ہا گیا، البتہ کپتان کے ایک نیک مقصد کے لئے نواز شریف کا دیا ہؤا چندہ اُس کی لوٹ مار کہ جو کپتان کا برانڈ سلوگن ہے کا کفارہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس نئی حکومت کی تو ساری عمارت ہی نواز شریف کی لوٹ مار کی کہانیوں پر کھڑی ہے۔ اس لئے بجا طور پر، کپتان کے سپورٹرز اس عطیے کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔

کپتان کے فلاحی منصوبوں کی بنیاد چندے پر ہی رہی ہے، کپتان کی سرگرمیوں میں چندہ اکٹھا کرنے کی وہی حیثیت رہی ہے جو ایدھی ٹرسٹ میں مولانا عبدالستار ایدھی مرحوم کی تھی۔ فرق یہ تھا کہ کپتان کا چندہ اکٹھا کرنے کا انداز جدید بنیادوں پر کارپوریٹ سیٹ اپ کے ساتھ ہے۔ کپتان اور اُس کے نمائندے دنیا بھر میں چندہ اکٹھے کرنے کے لئے تقریبات منعقد کرتے ہیں، اشتہارات چلواتے ہیں جبکہ ایدھی ٹرسٹ ایسا کچھ نہیں کرتا۔ ایدھی مرحوم خود کسی بھی سڑک پر اپنی سادگی سمیت ایک کپڑا بچھا کر یا اپنی بوسیدہ ٹوپی رکھ کر چندا مانگنا شروع کر دیتے یا لوگ خود ہی ایدھی سنٹرز میں نقد یا چیک جمع کرا آتے، اکثر تو جوتے کپڑے کھانے پینے کی اشیا بھی جمع کرا دیتے، اور اللہ پاک اتنے بڑے ادارے کا نظام چلا دیتے۔ یہ سلسلہ اُن کی وفات کے بعد ابھی بھی جاری ہے۔

البتہ کپتان کا اندازِ کار جدید خطوط پر اُستوار ہے۔ لاہور میں شاندار ہسپتال کے بعد، پشاور میں بھی شوکت خانم ہسپتال بنایا اور کراچی میں بھی ارادہ ہے۔ میانوالی کے دور افتادہ علاقے میں اعلیٰ درجے کی ایک یونیورسٹی بنائی۔ ایک سیاسی جماعت بنائی، اُس کے لئے چندے اکٹھے کیے، اس جماعت نے الیکشن لڑے اور الیکشن کے لئے چندے اکٹھے کیے اور مشہور و معروف ایک سو چھبیس دن کا مہنگا دھرنا دیا جو اُس وقت کی حکومت کو مذید مہنگا پڑا۔ مگر کپتان کے چندہ دینے والوں کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ چندہ دینے والوں نے اتنا چندہ دیا کہ احتجاجی دھرنے میں ہر روز روزِ عید اور ہر شب شب برات کا منظر نظر آنے لگا۔

ناشتے اور کھانے، اور نغمے اور ترانے، حقائق اور افسانے، سب ایک جگہ میسّر ہوئے تو مختلف طبقۂ ہائے فکر کے لوگ شاہراہِ دستور کی طرف کھِچے چلے آئے جہاں دن اور رات کے اوقات میں کوئی تمیز نہیں رہ گئی تھی۔ آپ مَن پسند ناشتہ کریں، پھر تھوڑی دیر سستا لیں، جاگیں تو مختلف قسم کے نغمے آپ کے کانوں میں رس گھولنے کو آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لنچ کیجئے اور تقریروں سے لطف اندوز ہوئیے۔ اگر آپ ایک جماعت کی تقریروں اور بجائے جانے والے نغموں کی یکسانیت سے اُکتا گئے ہیں تو ساتھ ہی کچھ فاصلے پر جناب طاہر القادری اپنی تمام تر روحانیت کے ساتھ دیدارِ عام کے لئے موجود ہیں۔

آپ اُس طرف تشریف لے جائیے، با جماعت نماز ادا کیجئے، مختلف علماء کے روحانی خطاب سے فیضیاب ہوئیے، علامہ صاحب کے مریدین کی وجدانی کیفیات کا مشاہدہ کیجئے، اور پھر رات گئے کپتان کے سٹیج پر رقص کے مظاہرے دیکھئے یا خود بنفسِ نفیس رقص کی اِن پاکیزہ محفلوں کا حصہ بنئے۔ اسی یادگار دھرنے میں جناب پرویز خٹک، ہمارے آج کے چٹان سے بھی زیادہ مضبوط وزیر دفاع اور اُس وقت کے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ کے جادؤوئی رقص تاریخ کا حصہ بنے۔ یہ تمام تقریباتِ پُر کیف، کپتان نے چندے کے باعث ہی ممکن بنائیں۔

ایسے میں کپتان کے نائب، ملک کے وزیرِ خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کہ جو خود بھی ایک عالی مقام درگاہ کے موجودہ پیشوا بھی ہیں اور جن کے لاکھوں عقیدت مند ان کی خدمت میں چندہ دینے کو کارِ سعادت سمجھتے ہیں، کا یہ کہا ہؤا کہ ہم یعنی وزیر اعظم پاکستان امریکہ کچھ مانگنے نہیں آئے، بہت معنے رکھتا ہے۔ اپوزیشن تسلیم کرے یا احتجاج کرے، اب کپتان ایک ملک کے باقاعدہ منتخب سربراہ ہیں اور ملک بھی ایسا کہ جس کی معیشت ڈانواں ڈول اور مبنی بر کشکول ہے۔ نہ مانگنے کا عزم اور پیشگی پیغام لے کر آنا کہ ہم مانگنے آئے ہی نہیں، پچھلے کئی غیر ملکی دوروں کے تسلسل کا انقطاع بھی ہو سکتا ہے یا پھر ایک عارضی وقفہ۔ اِس سے دنیا کو خودداری کا پیغام بھی جا سکتا ہے اور ایک شکایت بھی کہ اگر آپ ہمیں اپنا نہیں سمجھتے تو جائیے! ہم آپ سے نہیں مانگتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).