دوسری شادی: دوسرا رخ


دو سال میں کتنی عیدیں گزریں؟

کوئی ایک ہی عید میرے ساتھ گزاری ہوتی؟

یہ ہے مطلب فیملی کا تمہاری نظر میں؟

میں نے سب چھوڑ دیا تمہاری خاطر طے کرلیا تھا جہاں تم خوش وہیں میں راضی۔

جو تمہاری خواہش وہی میری ضرورت۔ جیسے تم چاہو گے ویسی نظر آونگی۔

کیا میں نے تمہاری چاہت میں کوئی شریک بنایا؟

بتاؤ۔ کیا میری خالص محبت نے ہر بار تمہیں تازگی اور قوت نہ بخشی؟

سچ بتاؤ۔ جو پیار تم کو دیا کوئی دے سکے گا؟

بتاؤ نا۔ کیا یہی مطلب ہے فیملی کا تمہاری نظر میں۔ کہ جب تم چاہو۔ بس جب تم چاہو۔

حمیرا کی آواز نے ساتھ چھوڑ دیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

عاطف کو شرمندگی اور ندامت کے باعث سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح اسے تسلی دے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ عورت کی ساری ناراضگی کو مرد کی بانہیں محض ایک لمحے میں سمیٹ سکتی ہیں جب وہ اسے محبت کی گود میں بھر کر اس کو تحفظ کا احساس دیتا ہے۔

وہ پریشان کھڑا اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا جب سامنے کھڑکی سے نائلہ نے اسے اشارہ کیا کہ حمیرا کو تسلی دو۔ وہ جھٹ سے حمیرا کے پاس بیٹھ گیا۔

چپ ہو جاؤ حمیرا۔ پلیز مت رو ایسے۔ وہ اس کے چہرے سے آنسو پونچھنے لگا۔

حمیرا اور رونے لگی تو عاطف نے اپنی بانہیں اس کے گرد لپیٹ دیں۔ حمیرا عاطف کے سینے سے لگ کر بہت روئی۔

حمیرا اور عاطف کی شادی کو دو سال ہوگئے تھے۔ دونوں ساتھ پڑھتے تھے جب فائنل ائیر میں عاطف نے حمیرا کے گھر جاکر اس کے والد سے براہ راست رشتہ مانگا اور یہ بات حمیرا کو بھی بعد میں معلوم ہوئی کیونکہ دونوں نے پڑھائی کے دوران کبھی ایک دوسرے سے کسی قسم کی چاہت کا اظہار تک نہ کیا تھا۔

حمیرا کے والد سلجھے ہوئے انسان تھے انہوں نے عاطف کو اپنے والدین کے ساتھ آنے کا کہہ کر خوش دلی سے رخصت کردیا لیکن عاطف کے گھر والوں نے عاطف کی پسند کو ناپسند کرکے خاندان سے ہی شادی کرنے پر زور دیا جسے عاطف نے مسترد کردیا۔

یہ سلسلہ چار ماہ ایسے ہی چلتا رہا۔ اس دوران عاطف اور حمیرا کے درمیان محبت جنم لے چکی تھی۔ اب ان دونوں کے پاس اس سرزمین سے واپسی کا راستہ نہ تھا۔

بالآخر عاطف کے بڑے بھائی نے ہمت کی اور اپنی بیوی کے ساتھ جاکر بھائی کا رشتہ طے کیا اور چند ہفتوں میں شادی ہوگئی۔ عاطف حمیرا کو لے کر الگ گھر میں رہنے لگا۔

حمیرا کے والد کو عاطف نے یقین دلایا تھا کہ وہ بعد میں اپنے والدین کو منا لے گا اور حمیرا کو سسرال لے جائے گا۔

کچھ عرصہ بعد دونوں کی شادی کی پہلی عید آئی تو عاطف نے جو کئی بار پہلے بھی والدین سے مل کر راضی کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا حمیرا کو بتایا کہ امی نے شرط عائد کی ہے کہ عید پر ان کے بھائی کے گھر جاکر معافی مانگو گے تو ہماری ناراضگی ختم ہوگی۔ ماموں کی لڑکی کا رشتہ ٹھکرانے سے وہ خفا تھے۔ حمیرا نے سوچا کہ عاطف عید کی شام تک لوٹ آئے گا تو اس نے خاموشی سے اجازت دے دی۔ عاطف نے عید کے پہلے دوروز ماں کے ساتھ گزارے اور تیسرے روز شام کے وقت حمیرا سے ملنے جو عید پر تنہائی کے سبب والدین کے گھر آگئی تھی۔ اس کے والدین کے گھر پہنچا۔ حمیرا کے والد نے مروت میں کوئی بات نہ کی لیکن حمیرا کی امی نے عاطف سے پوچھا کہ پہلی عید پر حمیرا کو یوں تنہا گھر پہ چھوڑ کر والدین کے گھر جانے سے انہیں تکلیف پہنچی۔ عاطف نے یہ کہہ کر انہیں ٹال دیا کہ اگلی بار حمیرا بھی ساتھ ہوگی۔

اس کے بعد بڑی عید پر بھی عاطف والدین کی طرف چلا گیا یہ کہہ کر کہ بڑے بھائی عید اس بار سسرال کریں گے اور وہاں گھر پہ کوئی نہیں جو قربانی کی فرائض ادا کرسکے حتی کہ عاطف کے اپنے گھر میں قربانی تھی لیکن اس نے جانور ذبح کروا کے حمیرا کے حوالے کردیا کہ وہ خود ہی گوشت بنوا کر بانٹ دے۔

اس طرح پہلی دونوں عیدیں عاطف نے والدین کی طرف گزاریں۔ حمیرا نے گلہ کیا کہ آپ مجھے نہ لے کر گئے ساتھ۔ تو عاطف نے کہا کہ اس کی ماں ابھی ناراض ہے عنقریب جب منا لوں گا تو لے جاونگا۔ اس طرح سال بھر عاطف بلا ناغہ والدین کے گھر آتا جاتا رہا لیکن حمیرا کو اس گھر کی بہو بننے کا حق نہ ملا۔ حمیرا کے دل پہ کیا گزری عاطف کو احساس نہ ہوا۔ اسے لگتا تھا کہ حمیرا ہر دن ہنستی مسکراتی نظر آتی ہے تو اس کی زندگی میں کوئی غم نہیں۔

ایک مرد جو عورت کے اتنے قریب ہو وہ کیونکر عورت کے درد کو نہیں سمجھتا۔ شاید مرد سوچنا نہیں چاہتا۔ مرد کی زندگی میں سوچنے سے زیادہ عمل کرنا اہم ہوتا ہے اس لیے وہ سوچنے میں بہت وقت صرف نہیں کرتا اور جو کرنا چاہتا ہے کرلیتا ہے۔ جبکہ عورت عملی میدان میں تذبذب کا شکار رہتی ہے۔ حمیرا بھی چاہتی تو عاطف سے مطالبہ کرسکتی تھی کہ اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو تم بھی نہ جاؤ۔ لیکن وہ بڑے ظرف کی عورت تھی۔

اس واقعے کے بعد عاطف نے اپنی ماں سے پھر بات کی لیکن انہوں نے پھر انکار کردیا۔ اس دوران عاطف کی وہی کزن جس کو عاطف نے ٹھکرایا تھا۔ عاطف کے قریب ہونے لگی۔ حمیرا کو پہلے احساس نہ ہوا لیکن جب عاطف نے بہت زیادہ اپنے والدین کے گھر رہنا شروع کردیا تو اسے تشویش ہوئی۔

دوسال گزر جانے کے باوجود حمیرا کو پھل نہ لگا اور دونوں اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔

عاطف کی ماں نے اسی بے اولادی کو جواز بنا کر عاطف کو مجبور کیا کہ وہ دوسری شادی کر لے۔ پہلے پہل عاطف نہ مانا لیکن جب اس کی کزن اس کے گرد جال بننے لگی تو وہ بھی اس لائن پر سوچنے لگا۔

عاطف۔ عاطف۔ حمیرا عاطف کو جگارہی تھی جو رات بہت دیر سے گھر لوٹا تھا اور اب دن چڑھ گیا تھا۔ عاطف نے خماری میں ہمم ہمم کیا اور پھر حمیرا پہ بجلی آن گری جب اس نے سنا کہ عاطف اسے نورین کہہ رہا ہے۔ اس نے عاطف کو زور سے جھنجھوڑا۔

عاطف۔ اٹھو عاطف۔ کیا کہہ رہے ہو؟ کون ہے یہ نورین؟

وہ بھڑک اٹھی تھی۔ پہلے اسے صرف شک گزرا تھا کہ عاطف میں تبدیلی آرہی ہے لیکن پھر وہ غائب رہنے لگا اور آج وہ دوسری عورت کا نام لے رہا تھا۔

عاطف اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔

کیا ہوا؟ کیا کہا تم نے؟ وہ بوکھلا گیا تھا۔

کون ہے نورین؟ حمیرا نے تیز لہجے میں پوچھا۔

کون نورین؟ کس نے کہا؟ کیا کہا؟ اب وہ بالکل سٹپٹا گیا تھا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7