شانتا بخاری۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی


سب سے پہلے تو مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ میں شانتا بخاری سے ان کی زندگی میں ملنے سے محروم رہی، یہ تو اب چند سالوں سے اخبار و جرائد میں ان کے بارے میں مضامین پڑھنے کا اتفاق ہواتو بارہا خود سے پوچھا کہ آخر کیوں میں ایسی بے لوث اور کمٹڈ ٹریڈ یونین رہنما کے بارے میں پہلے جان نہیں پائی۔ شاید یہ بھی اس نظریاتی تقسیم کا نتیجہ تھا جس نے ہمیں ڈبوں میں بند کر رکھا تھا۔ ریاض شیخ نے شانتا کے بارے میں بات کرنے کے لئے کہاتو ان کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کی۔ ان کے حالات زندگی پڑھنے کے بعد بے اختیار یہی خیال آیا :

یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی!

ذرا اس چھوٹی سی بچی کے بارے میں سوچئے جو پہلے ماں باپ کے سائے سے، پھر نانی کی شفقت سے محروم ہو گئی ہو اور پھر آٹھ سال کی عمر میں اپنی خالہ کے ساتھ رہتے ہوئے پڑھائی کے ساتھ کارخانے میں مزدوری کرنے لگی ہویعنی ایک ننھی منی پرولتاریہ اور سیلف میڈ کی تعریف پر پورا اترنے والی ہماری شانتا بخاری جو آنے والے دنوں میں پاکستانی کمیونسٹوں کی اماں کہلائیں۔ اسے خوبیء قسمت ہی کہیں گے کہ شانتا کے خالو کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی رکن اور خالہ بھی پارٹی کی سرگرم رکن تھیں بارہ سال کی عمر میں شانتا نے پڑھائی چھوڑ دی اور کل وقتی مزدوری کرنے کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کی سر گرمیوں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ 1942 میں ان کی کامریڈ جمال الدین بخاری سے شادی ہو گئی۔

پاکستان کی تاریخ میں بہت کم عورتوں نے ٹریڈ یونین رہنما کا کردار ادا کیا۔ ہم اپنے اسکول کے زمانے میں لائل پور کی صبیحہ شکیل اور یونیورسٹی کے زمانے میں کراچی کی کنیز فاطمہ اور صحافت میں آنے کے بعد اسٹیل مل کی گلزار بیگم کی جدو جہد کے بارے میں تو جانتے تھے لیکن شانتا کی انفرادیت اس میں ہے کہ انہوں نے بچپن سے ہی مزدور خواتین کے لئے اپنی جدو جہد کا آغاز کر دیا تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی ان کا شمار مقبول خواتین رہنماؤں میں ہونے لگا تھا۔

پاکستان آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ کے حوالے سے راولپنڈی سازش کیس ایسا ہمارے ذہنوں پر چھایا کہ اور کچھ یاد ہی نہ رہا۔ کسی نے ہمیں شانتا جیسی عورتوں کے بارے میں بتایا ہی نہیں جنہوں نے پاکستان بننے سے بھی پہلے کارخانوں میں کام کیا اور کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت اختیار کی۔ آج اتنے برسوں بعد ہم گھر مزدورخواتین اور گھریلو ملازماوئں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں، ان کے لئے پالیسیاں اور قوانین بنوا رہے ہیں لیکن شانتا نے تو نا مساعد حالات کے باوجود پاکستان کے ابتدائی زمانے میں ہی گھروں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتوں کے لئے ’خدمتگار یونین‘ بنوائی اور ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ انہوں نے چوڑیوں کی صنعت اور کپڑے کے کارخانوں میں کام کرنے والی عورتوں کو بھی منظم کیا۔ وہ ایسی کئی رفاہی تنظیموں کی بانی صدر رہیں۔ ان کی زندگی کا مشن عورتوں کو استحصال سے نجات دلانا اور عزت اور وقار کے ساتھ روزی کمانا سکھانا تھا۔

پاکستان کے ابتدائی سالوں میں پہلے تو ان کے شوہرجمال الدین بخاری کو کمیونسٹ ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور پھر رہائی کے بعد کراچی سے نکل جانے کا حکم دیا گیاچنانچہ یہ لوگ لاڑکانہ منتقل ہو گئے۔ لاڑکانہ جا کے بھی معاشرے میں عورتوں کے مقام کو بلند کرنے کے لئے شانتا نے اپنا کام جاری رکھا۔ اس زمانے میں لاڑکانہ میں گومی بائی لیڈیز کلب ہوا کرتا تھاجو امرا اور سرکاری افسران کی بیگمات کے لئے مخصوص تھا۔ عام عورتوں کو اس کلب میں جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن شانتا بائی نے کسی نہ کسی طرح دستکاری کی ماہر ہنر مند خواتین کو کلب میں داخلے کی اجازت دلوا دی۔ ان کی بنائی ہوئی اشیا کلب میں فروخت کے لئے رکھی جانے لگیں۔ یوں ان عورتوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور سندھ کی ثقافتی اشیا کو مقبولیت حاصل ہوئی۔

سوبھو گیان چندانی کہا کرتے تھے کہ شانتا بخاری کمیونسٹوں کے لئے یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کی ایک سچی اور بے لوث کارکن تھیں۔ انہوں نے ہندوستان میں احمدآباد میں ایک ٹیکسٹائل مزدور کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا اور آگے چل کر کمیونسٹ پارٹی کی ایک جانثار کارکن بنیں۔

1943 میں اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی کامریڈ جمال الدین بخاری سے شادی ہوئی۔ اور دونوں پاکستان چلے آئے۔ اس وقت جمال بخاری پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ شانتا اپنے شوہر کے شانہ بشانہ انقلابی آدرش کے لئے کام کرتی رہیں۔ سوبھو گیان چندانی کے بقول شانتا ایک کثیرا لجہتی شخصیت تھیں۔ ان کے دروازے غریبوں، مزدوروں، کارکنوں اور عورتوں کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں ان کے دکھ درد کی ساتھی تھیں۔ بقول شخصے شانتا جیسی خواتین صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ ہمت، جرات اور استقامت کی پیکر تھیں۔ زندگی میں آنے والے نشیب و فراز نے ان کے عقائد کو متزلزل نہیں کیا۔

انہوں نے گیارہ سال کی عمر میں احمدآباد (ہندوستان) میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی کے خواتین ونگ کی قیادت کی۔ وہ پیدائشی طور پر قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال تھیں۔ انہوں نے عمر بھر کارکنوں کو ٹریڈ یونین کی شکل میں منظم کرنے کے لئے کام کیا۔ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں راجپوتانہ کی ایک کاٹن فیکٹری میں مزدوری شروع کی تھی۔ اپنی ذہانت اور خواتین مزدوروں کی محرومیوں، مسائل اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے براہ راست مشاہدے کی وجہ سے انہیں لیبر یونین بنانے کی اہمیت کا احساس ہوا۔

پاکستان آنے کے بعد انہوں نے خاتون مزدوروں سے رابطے کیے اور ان کی یونینیں بنوائیں۔ مثال کے طور پر حیدرآباد میں چوڑیاں بنانے والی عورتوں کی یونین، دائیوں کی یونین، میونسپل سینٹری ورکرز کی یونین اور گھریلو ملازماؤں کی یونین۔ شانتا محنت کشوں میں بے حد مقبول تھیں اور محنت کش عورتیں انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتی تھیں۔

پاکستان میں راولپنڈی کیس کے بعد کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی تھی اور کمیونسٹوں کے لئے ترقی پسند ادیبوں کی تحریریں اور ٹریڈ یونین کا پلیٹ فارم ہی بچا تھا۔ دوسرے مارکس کے زمانے سے ہی ٹریڈ یونین کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے۔ کیونکہ یہ محنت کشوں کی براہ راست طبقاتی سرگرمی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم، روسی انقلاب اور عالمی ادارہء محنت کے قیام کے ساتھ ہی ٹریڈ یونینوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔

صنعتی تنازعات بھی بڑھنے لگے تھے۔ 1920 اور 1924 کے دوران ایک ہزار ہڑتالیں ہوئی تھیں۔ ہڑتالوں کی ان لہروں میں زیادہ ابھار کانپور سازش کیس 1924 میں ممتاز رہنماؤں کی گرفتاری کی وجہ سے آیا۔ یونینوں کے رہنماؤں پر برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے اور کمیونسٹ انقلاب لانے کی کوشش کا الزام تھا۔ 1926 میں ٹریڈ یونین ایکٹ منظور ہوا تاکہ ٹریڈ یونینوں کی نگرانی کی جا سکے اور ان کے لئے قوائد و ضوابط بنائے جا سکیں۔ اس وقت اٹھائیس یونینوں نے خود کو رجسٹر کروایا تھا اور ان کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ چھ سو انیس تھی۔ اس کے بعد یونینوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بہت کم پاکستانیوں کو یہ بات معلوم ہو گی کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح بھی ٹریڈ یونین لیڈر تھے، وہ 1925 ء میں آل انڈیا پوسٹل اسٹاف یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

کارل مارکس کے بقول بنی نوع انسان کی اب تک کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ نظام کو تبدیل کرنے کی پرولتاریہ کی جدوجہد ایک سیاسی جدوجہد ہے۔ اس کے ساتھ یہ اقتصادی جدوجہد بھی ہے کیونکہ پرولتاریہ اپنے معیار زندگی، حالات کار، اوقات کار اور معاوضہ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اس اقتصادی جدوجہد کو مربوط اور منظم بنانے کے لئے ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس پرولتاری تحریک میں عورتیں مرد محنت کشوں کے ساتھ ساتھ رہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد عورتوں کی اقتصادی سرگرمیوں میں زیادہ اضافہ ہوا۔ پاکستانی عورتوں کی بڑی تعداد اقتصادی شعبوں میں داخل ہو چکی ہے مگرعورتوں کو مردوں سے کم معاوضہ ملتا ہے۔ ٹریڈ یونین تحریک میں بھی عورتیں کم نظر آتی ہیں۔ ویسے تو عورتوں کو بہت سے شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے لیکن لیبر مارکیٹ میں عورتوں کے لئے حالات زیادہ ہی خراب ہیں۔ عورت اور مرد کے جسمانی فرق کو عورت کے اقتصادی استحصال کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

عورت گھر میں جو کام کرتی ہے اسے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ بچوں کی دیکھ بھال کرنا، کھانا پکانا، گھر کی صفائی کرنا صرف اور صرف عورتوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ مرد بھی یہ سارے کام کر سکتا ہے۔ معاشرے نے مرد اور عورتوں کے لئے جو کردار بنا رکھے ہیں، آپ کو ان ہی میں فٹ ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح پیشے بھی مردانہ اور زنانہ بنا دیے گئے ہیں۔ طاقت اور اختیارات کے ڈھانچے بھی غیر مساوی ہیں اور عورتوں کو محکوم رکھتے ہیں۔

اسی لئے لیبر مارکیٹ میں بھی عورتیں گھاٹے میں رہتی ہیں۔ آجر سمجھتے ہیں کہ گھریلو ذمہ داریوں کی بنا پر عورتیں کارخانوں یا اداروں میں اتنی اچھی طرح کام نہیں کر پائیں گی۔ مردوں جتنا کام کرنے کے باوجود عورتوں کو کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اکثر کام کی جگہ پر عورتوں کو تشدد، جنسی ہراسانی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں ٹریڈ یونینز اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ عالمگیریت کا دور ہے جو نیو لبرل ریفارمز، مارکیٹ اور تجارت کی لبرلائزیشن اور نجکاری سے جڑا ہواہے۔ صنفی مساوات اور کمزور طبقات کے مفادات کی حفاظت کے لئے کی جانے والی اصلاحات پر عمل درآمد ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست کا کردار کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جب ریاست کمزور ہو گی تو وہ یہ ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے گی۔

آج جب مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، کرپشن کی وجہ سے ریاست بحران کا شکار ہے، اس وقت ہمیں شانتا بخاری جیسے لوگوں کی پہلے سے بھی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ سماجی انصاف پر مبنی فلاحی ریاست ہی عوام خاص طور پر عورتوں کے مسائل حل کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).