پاکستانی عدلیہ کی تاریخ



ہمارے گزشتہ کالم کا عنوان ’عجیب و غریب کرامات کا عہد‘ تھا۔ فی الواقع چشمِ فلک نے ایسی کرامات بہت کم دیکھی ہوں گی۔ انگریز جب 1857 میں ہندوستان کے اقتدار پر قابض ہو گئے، تو اُنہوں نے ہندو آبادی کے تعاون سے مسلمانوں کو ہر اعتبار سے بےحیثیت اور بےوقار کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر قدرت کا کمال دیکھیے کہ اقتدار چھن جانے کے صرف بیس بائیس برسوں بعد ہی جناب محمد علی جناح اور جناب محمد اقبال پیدا ہوئے جن کی تاریخ ساز کاوشوں سے مسلمانوں کے لیے آزاد وَطن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اُن کے علاوہ نابغہ روزگار شخصیتوں کا ایک گلزارِ کہکشاں کِھلا ہوا تھا۔ سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالیؔ،علامہ شبلی نعمانی، مولوی تمیزالدین خاں، علامہ سید سلیمان ندوی، سر شیخ عبدالقادر، محترمہ عطیہ فیضی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری، سید عطا اللّٰہ شاہ بخاری، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خاں، نواب وقار الملک، جناب اکبر الہ آبادی، علامہ عنایت اللّٰہ مشرقی، ڈاکٹر عمرحیات ملک، اے کے فضل الحق، سید حسین شہید سہروردی، سردار عبدالرب نشتر، جی ایم سید، قاضی محمد عیسیٰ، سر سکندر حیات، نواب آف ڈھاکہ سلیم اللّٰہ اور پیر مانکی شریف نے قومی بیداری اور اِسلام کے احیا میں قابلِ قدر حصّہ ڈالا تھا۔

قائدِاعظم کا تاریخ ساز کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے آزاد وَطن کے حصول کے لیے نہایت شفاف اور پُرامن سیاسی اور جمہوری راستہ اختیار کیا اور اَپنے عزمِ صمیم اور بےمثال قائدانہ صلاحیت سے انگریزوں اور ہندوؤں کو شکست دے کر آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان حاصل کیا۔ سخت جدوجہد کے اِس عہدساز دور میں سید ابوالاعلیٰ مودودی مسلم قومیت کے حق میں نہایت محکم دلائل بڑی جامعیت اور بے پناہ قوت کے ساتھ فراہم کرتے رہے جو پہلے تحریری شکل میں کہیں موجود نہیں تھے۔ وہ یہ احساس بھی دلاتے رہے کہ مسلم لیگ کی اخلاقی اور سیاسی تربیت پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان برطانوی حکومت کی طرف سے طےشدہ تاریخ سے پہلے ہی وجود میں آ گیا جس کے باعث مسلم لیگ تحریک سے ایک منظم سیاسی جماعت کے قالب میں نہ ڈھل سکی۔ تشکیلِ پاکستان کے ایک ہی سال بعد قائدِاعظم کے انتقال اور 1951میں قائد ِملت نوابزادہ لیاقت علی خاں کی شہادت سے سیاسی قیادت کا بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا۔ ملک غلام محمد جو ایک بیوروکریٹ تھے، وہ پاکستان کی بدولت وزیرِ خزانہ بن گئے۔ فنڈز کے لیے تمام وزارتیں اور دَستورساز اسمبلی کے جملہ ارکان اُن کی نظرِعنایت کے محتاج تھے۔ اُنہوں نے اِس منصب کے ذریعے فوج میں بھی اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا۔ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد اُنہیں مختارِ کُل بن جانے کی آرزو ستانے لگی، چنانچہ اُنہوں نے خود گورنرجنرل اور خواجہ ناظم الدین کو وزیر ِاعظم بنانے کا منصوبہ تیار کیا جو قائدِاعظم کی وفات کے بعد گورنرجنرل کے منصب پر فائز تھے۔ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ملک غلام محمد نے دستورساز اسمبلی کے ارکان کا اعتماد حاصل کرنے کی خاطر طرح طرح کے چکمے دیئے جن کے سبب تاجِ برطانیہ نے دستورساز اسمبلی کی سفارش پر اُنہیں گورنر جنرل مقرر کر دیا۔

1935 کے ایکٹ کے مطابق جسے پاکستان کے عارضی دستور کی حیثیت حاصل تھی۔ منصب داروں کے احتساب اور آئین کی تشریح کا اختیار اَعلیٰ عدالتوں کے پاس تھا۔ گورنرجنرل نے بڑی چالاکی سے اِس امر کا اہتمام کیا کہ اعلیٰ ترین عدالت کی سربراہی اُن کے معتمد ترین جج کو سونپی جائے تاکہ اُن کے کسی اقدام کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے فیصلہ نہ آ سکے۔ اِس کام کیلئے جو ڈرامے رچائے گئے، اُن کی تفصیلات پاکستان کے معروف قانون دان جناب حامد خان نے اپنی کتاب History of Judiciary in Pakistan کے تیسرے باب میں محفوظ کر دی ہیں۔ اُن کے مطابق ملک غلام محمد ککےزئی برادری سے تعلق رکھتے تھے جن کے زیادہ تر افراد بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ اتفاق سے جسٹس محمد منیر کا تعلق بھی اُسی قبیلے سے تھا، چنانچہ برادری عصبیت کے زیرِاثر جسٹس محمد منیر کو فیڈرل کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اِس تقرری میں یہ دشواری حائل تھی کہ 1954 میں چیف جسٹس میاں عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کےو قت فیڈرل کورٹ میں چار جج صاحبان اے ایس اکرم، شہاب الدین، اے آر کارنیلئس اور محمد شریف تعینات تھے۔ اُن میں سینئرموسٹ جناب اے ایس اکرم تھے جو ابتدا ہی سے اِسی عدالت سے وابستہ چلے آ رہے تھے۔ اِس سے قبل وہ مشرقی بنگال ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے تھے۔

مسلمہ روایت کی رو سے سینئرموسٹ جج جناب اے ایس اکرم کو فیڈرل کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا جانا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، بلکہ اُنہیں راستے سے ہٹانے کیلئے ایک ایسی چال چلی گئی کہ وہ خود ہی پاکستان کے چیف جسٹس بننے کے حق سے دستبردار ہو گئے۔ وزارتِ قانون کی طرف سے گورنرجنرل کی خدمت میں یہ نوٹ بھیجا گیا کہ دولتِ مشترکہ کے بعض ممالک برطانوی حکومت سے اپنی اعلیٰ ترین عدالت کیلئے انگریز چیف جسٹس مستعار لیتے رہتے ہیں۔ ہم بھی حکومتِ برطانیہ سے فیڈرل کورٹ کیلئے انگریز چیف جسٹس کیلئے درخواست کر سکتے ہیں۔ جناب جسٹس اکرم کو جب یہ معلوم ہوا، تو وہ بہت برافروختہ ہوئے، کیونکہ وہ کسی انگریز چیف جسٹس کے تحت کام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آزادی سے پہلے وہ کلکتہ ہائی کورٹ میں انگریز چیف جسٹس کے تحت کام کر چکے تھے جس کی تلخ یادیں اُن کے حافظے میں محفوظ تھیں، چنانچہ اُنہوں نے گورنرجنرل سے درخواست کی کہ انگریز چیف جسٹس ہرگز درآمد نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ پیشکش بھی کر دی کہ اُنہیں کسی بھی پاکستانی جج کے چیف جسٹس بننے پر اعتراض نہیں ہو گا۔ اِس پیشکش کے بعد گورنرجنرل غلام محمد کے لیے جسٹس منیر کو چیف جسٹس مقرر کرنے کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں رہی اور وُہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے براہِ راست فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس تعینات کر دیے گئے۔ یوں وزیرِاعظم محمد علی بوگرہ کے دور میں پاکستان کی عدلیہ کی فصیل میں جو گہری نقب لگائی گئی، وہ سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوئی۔ اُس کا کلیجہ چیر دینے والا احوال آگے آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments