فردوس عاشق اعوان صاحبہ ہماری ’’ویل‘‘ خراب نہ کریں


1975میں لاہور سے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد کئی برسوں تک اس شہر کی بارشوں سے لطف اٹھانے کی عادت اپنائی تھی۔ میرے آبائی شہر میں بارش نشیبی علاقوں کو تالابوں میں بدل دیتی تھی۔ گلیوں میں کئی روز تک کیچڑ سے محفوظ رہنے کی تگ و دو کرنا پڑتی۔ غریبوں کی ٹپکتی چھتیں دیکھ کر دل ادا س ہو جاتا۔ ان شاعروں کے بارے میں بُرا بھلاسوچتا رہتا جو ساون کے گیت لکھا کرتے تھے۔

اسلام آباد میں کئی روز تک مسلسل ہوتی بارشیں ایسے مناظر سے محفوظ رکھتیں۔ درخت دھل کر آپ سے گفتگو کرتے محسوس ہوتے۔ گھر بیٹھنے سے وحشت ہوتی۔ 1980کی دہائی کے شروع ہوتے ہی ایک چھوٹی کار خریدی تھی تو بارشوں کے موسم میں گھنٹوں اس میں اکیلا بیٹھا سڑکوں پر گھومتا رہتا۔

1990 کا آغاز ہوتے ہی مگر شہر ’’ماڈرن‘‘ ہونا شروع ہو گیا۔ بے تحاشہ بڑھتی آبادی کو کھپانے کے لئے نئے سیکٹر بنے۔ سگنل فری سڑکوں کا جنون طاری ہوا۔ اوور اور انڈرپاسز تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔ اس شہر کو ’’جدید‘‘ بنانے والوں نے مگر اس حقیقت کو بھلا دیا کہ اسلام آباد ایک پہاڑی شہر ہے۔ ایسے شہروں میں پانی کے نکاس کے لئے قدرت نے صدیوں سے فطری راستے بنائے ہوئے ہیں۔ سڑکوں کو ’’چوڑا اور سیدھا‘‘ کرنے کی وحشت میں وہ راستے اسلام آباد میں مٹادئیے گئے۔اب ذرا تیز بارش ہوتو مارگلہ جیسی ’’ایونیو‘‘ پر بھی پانی جمع ہوجاتا ہے۔ گاڑیوں کے انجن بند ہو جاتے ہیں۔ بارشوں میں گھر سے باہر نکلنے سے خوف آتا ہے۔

بدھ کی شام مگر گھر میں مقید ہوئے بھی خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کیا۔ چند ہی ماہ قبل میں نے اور میری بیوی نے برسوں کی مشقت کے بعد جو کچھ بچایا تھا نئے گھر کی تعمیر کے لئے خرچ کر دیا۔ ہمارا پلاٹ F-8/2 جیسے “Posh” علاقے میں لبِ سڑک ہے۔ گھر کی دیوار کے باہر CDA نے بارش اور سیوریج کے پانی کے نکاس کے لئے جو نظام بنا رکھا ہے وہ بدھ کی شام Chock ہو گیا۔ ہمارے گھر میں جمع ہوئے جس پانی کو باہر نکلنا تھا Reverse ہو کر سیلابی ریلے کی صورت ہم پر ’’حملہ آور‘‘ ہو گیا۔

اس سے بچت کا کوئی طریقہ دریافت نہ ہوپایا۔ گھنٹوں اس کی دہشت نے پریشان کیے رکھا۔ صبح ہوتے ہی گھر کی دیواروں سے چند اینٹیں باہر نکال کر خود کو سیلابی پانی سے بچانے کا طریقہ ’’ایجاد‘‘ کیا۔ ذرا اطمینان ہوا تو یاد آیا کہ یہ کالم بھی لکھنا ہے۔

مجھ جیسے کالم نگاروں سے قارئین ملکی سیاست پر تبصرہ آرائی چاہتے ہیں۔ عمران خان صاحب بدھ کی رات ہی امریکہ کے دورے سے واپس لوٹے ہیں۔ وزیراعظم کے وہاں قیام کے دوران ٹرمپ- عمران ملاقات کے حوالے سے ’’تجزیہ نگاری‘‘ کی دو کاوشیں کر بیٹھا ہوں۔ آج کا روز بھی اس ملاقات کے کسی اور پہلو پر توجہ دیتے ہوئے ’’ٹپایا‘‘ جا سکتا تھا۔ ذہن مگر مائوف ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کے دورئہ امریکہ کو نظرانداز کر دیا جائے تو جولائی کی 25 تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یاد آتا ہے کہ آج سے ایک سال قبل عام انتخابات ہوئے تھے۔ ان کے نتائج کی بدولت عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن کی کاوشوں سے یکجا ہوئی اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں نے اس روز کو ’’یومِ سیاہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے بڑے شہروں میں جلسوں کا اہتمام کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف کی نظر میں یہ روز ’’یومِ تشکر‘‘ ہے۔ وزیراعظم کے دورئہ امریکہ کے بعد وہ اس روز کو مزید گج وج سے منانا چاہے گی۔

حکمران جماعت کا خیال ہے کہ عمران خان کی بطور وزیراعظم وائٹ ہائوس میں ہوئی پذیرائی نے “Selected” کے الزام کو بے معنی بنادیا ہے۔ اپنے منصب کی حقیقت کو دُنیا کی واحد سپرطاقت شمار ہوتے ہوئے ملک سے تسلیم کروانے کے بعد عمران خان صاحب کو اب اپوزیشن میں جمع ہوئے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف احتسابی شکنجے کو مزید توانا بنانا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ آزادیٔ صحافت کی آڑ میں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو پارسادکھاتے ’’لفافوں‘‘ کے ’’اصل ذرائع آمدنی‘‘ کاپتہ بھی لگالیا جائے۔ قوم کو گمراہ کرنے والوں کی زبانیں خاموش ہوں۔ ان کے قلم روانی سے محروم ہوجائیں۔

اپنے احتساب کے خوف سے دہشت زدہ ہوئے صحافیوں کو لیکن اب اپوزیشن جماعتوں اور ان کے حامیوں نے بھی ’’غلام میڈیا‘‘ پکارنا شروع کر دیا ہے۔ ’’لفافے‘‘ اور ’’غلام‘‘ کے دو پاٹوں میں پھنسے مجھ جیسے ڈنگ ٹپائو کالم نگار لکھیں تو کیا لکھیں۔ ’’خونِ دل میں اُنگلیاں‘‘ ڈبونے کے بعد کالم نہیں شعر لکھے جاتے ہیں۔

کارکن صحافی تو دیہاڑی دار ہوتے ہیں۔ ’’خبر‘‘ ڈھونڈنا اور لکھنا کبھی ’’ہنر‘‘ شمار ہوتا تھا۔ ’’ہنر‘‘ کی اجرت ملتی ہے۔ یہ اجرت ملے تو ہنرمند کا چولہا جلتا ہے۔ صحافتی ادارے کا ’’چولہا‘‘ گرم رکھنے کے لئے مگر اشتہار درکار ہوتے ہیں۔ ٹی وی والوں کو Ratings چاہیے۔ Eyeballs۔ جن ’’آنکھوں‘‘ تک پہنچنا ہے اگر وہ ریموٹ گھماتے ہوئے آپ کو تلاش نہ کر پائیں تو کہاں کی Ratings۔

سمارٹ فونز نے اگرچہ اب ہرشہری کو صحافت کے حوالے سے ’’ہنرمند‘‘ بنادیا ہے۔ ٹویٹ لکھو۔جو دل میں ہے کھل کر بیان کردو۔ ٹی وی سکرین میسر نہ ہو تو یوٹیوب پر اپنا چینل بنالو۔سنا ہے اس پر مناسب Hits ملنا شروع ہو جائیں تو روزی کے حوالے سے دال دلیا بھی چل ہی جاتا ہے۔

بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ میں بھی ذرا ہمت پکڑوں اور یوٹیوب کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار شروع کردوں۔ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ مگر اب سوشل میڈیا کو بھی ’’ذمہ دار‘‘ بنانے کا ارادہ باندھ چکی ہیں۔ ربّ کا صد شکر کہ میں ’’غیر ذمہ داری‘‘ کی راہ پر پہلا قدم بھی اٹھا نہیں پایا۔

’’ذمہ داری‘‘ کی اصطلاح پر غور کرتے ہوئے نجانے کیوں یاد آگیا کہ ہمارے ہاں ’’بھانڈ‘‘ ہوا کرتے تھے۔ یہ دو افراد پر مشتمل ’’مخولیوں‘‘ کی ٹولی ہوا کرتی تھی۔ شادیوں پر ہاتھ میں دف جیسی ڈھولک بجاتے نمودار ہوتے۔ ’’بھاگ لگے رہن‘‘ کی فریاد کرتے ہوئے توجہ کے طلب گار ہوتے۔ وہ توجہ مل جاتی تو تماشہ شروع ہو جاتا۔ دف جیسی ڈھولک کے بجائے مخولیوں میں سے ایک چمڑے کا ’’چھتر‘‘ ہاتھ میں اٹھا لیتا۔ اسے ’’چپڑاس‘‘ کہا جاتا تھا۔

بھانڈوں کی ٹولی میں سے چپڑاس والا تماشائیوں میں موجود چند ’’معزز‘‘ افراد کا نام لے کر ’’ویل‘‘ کا طلب گار ہوتا۔ اس کا ساتھی مگر اس ’’معزز‘‘ فرد کے بارے میں کوئی طنز بھری ’’جگت‘‘ لگا دیتا۔ لوگ قہقہہ لگاتے تو چپڑاس والا جگت لگانے والے کو ’’سزا‘‘ دینا شروع ہو جاتا۔ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر چپڑاس کے وار سہتے ہوئے جگت لگانے والا اپنے کہے کی سزا پاتا۔

بھانڈوں کی روایت پر ذرا سنجیدگی سے غور کریں تو دریافت ہوگا کہ ان کا ’’تماشہ‘‘ درحقیقت یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’معززین‘‘ سے فقرے بازی کے ذریعے ’’پنگا‘‘ لو گے تو ’’سزا‘‘ بھگتنا ہو گی۔ چپڑاس کے وار سہتے ہوئے بھی مگر بھانڈوں کو ’’ویل‘‘ کی صورت اپنے ’’ہنر‘‘ کی اجرت مل جاتی۔وہ ’’بھاگ لگے رہن‘‘ کہتے ہوئے اپنا تماشہ دکھاکر رخصت ہوجاتے۔

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ پنجاب کی روایات سے مجھ سے کہیں زیادہ آشنا ہیں۔ ’’بھاگ لگے رہن‘‘ کی فریاد کرتے ہوئے ان سے دست بستہ عرض ہی کی جاسکتی ہے کہ مجھ جیسے بھانڈوں کو چپڑاس سے ماریں مگر ’’جگت‘‘ کا نشانہ بنے ’’معززین‘‘ کی طرح ’’ویل‘‘ بھی دیتی رہیں۔

’’جگت‘‘ لگاکر رزق کمانے کے عادی افراد کو ’’چپڑاس‘‘ کے استعمال کے بجائے ذرا تند آلے سے سزا دے کر خاموش کردیں گی تو ’’تماشہ‘‘ نہیں لگے گا۔ لوگ مسکرانا اور قہقہے لگانا بھول جائیں گے۔ بھانڈوں کی ٹولی’’شادیوں‘‘ کی وجہ سے رونق لگے پنڈالوں ہی میں نموار ہوتی ہے۔ ’’شادی‘‘ کا ماحول برقرار رکھیں جو لفظ ’’شاد‘‘ سے نکلا ہے۔ ہمارا قومی ترانہ بھی ’’شادباد منزلِ مراد‘‘ کی دُعا مانگتا ہے۔ آپ نے وزارتِ اطلاعات کی بدولت اپنی ’’منزلِ مراد‘‘ پائی ہے۔ ہماری ’’ویل‘‘ خراب نہ کریں جو چپڑاس کا وار سہنے کے بعد ہی ملتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).