چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی تبدیلی کا معاملہ: کیا سینیٹرز سے ملاقاتیں تحریکِ انصاف حکومت کی ’بوکھلاہٹ‘ ظاہر کرتی ہیں؟


صادق سنجرانی

اگر تعداد کو دیکھا جائے تو حکومتی اراکین کے پاس سینیٹ میں ووٹ دینے کے لیے صرف 36 ارکان موجود ہیں جبکہ حزبِ اختلاف کے پاس 66 ہیں

چند دنوں سے تحریکِ انصاف کے سینیٹ میں قائدِ ایوان شبلی فراز اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد رکوانے کے لیے حزبِ اختلاف کے اراکین سے باری باری مل رہے ہیں۔

ان ملاقاتوں کا مقصد حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی درخواست واپس لے لیں۔

یہ بھی پڑھیے

اپوزیشن 25 جولائی کو یومِ سیاہ منائے گی

اپوزیشن سینیٹ چیئرمین کو کیوں ہٹانا چاہتی ہے؟

کسی کے خلاف نہیں پاکستان کے حق میں جمع ہوئے: بلاول

اس حوالے سے بڑی پیش رفت بدھ کے روز ہوئی جب شبلی فراز اور جام کمال خان جمعیت علما اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان سے ملنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن یہ محض عارضی کامیابی ثابت ہوئی۔

عارضی اس لیے کیونکہ مولانا فضل الرحمان نے دو ٹوک الفاظ میں قائدِ ایوان اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کو واضح کر دیا کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ کُل جماعتی کانفرنس میں شامل نو جماعتوں کے اراکین نے کیا ہے، سو اب اس فیصلے سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔

’پیسے دو سینیٹرز لو‘

شبلی فراز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب سے ملتے رہیں گے، چاہے وہ شہباز شریف ہوں یا پیپلز پارٹی۔ لیکن بلاول بھٹو نے ’پیسے دو سینیٹرز خریدو‘ کا بیان دے کر اپنے سینیٹرز کی خود تضحیک کی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اُن سے ملنے کے فیصلے پر نظرِثانی کر رہے ہیں۔‘

یہاں شبلی فراز کا اشارہ بلاول بھٹو کے اس بیان کی طرف ہے جہاں انھوں نے سینیٹ میں ’ہارس ٹریڈنگ‘ کے بارے میں کہا کہ اس وقت رجحان ’پیسے دو اور سینیٹر لو‘ کی طرف جا رہا ہے۔ اسی بات پر شیری رحمان نے کہا کہ ’ہارس ٹریڈنگ کے نئے معیار طے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن حکومت ہمیں روک نہیں سکتی۔‘

اس وقت اگر نمبرز کو دیکھا جائے تو حکومتی ارکان کے پاس سینیٹ میں ووٹ دینے کے لیے صرف 36 ارکان موجود ہیں جبکہ حزبِ اختلاف کے پاس 66 ہیں۔

حزبِ اختلاف کے ارکان سے ملاقاتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ ’ہم اُن کے پاس ووٹ مانگنے نہیں بلکہ اپنا موقف رکھنے جا رہے ہیں۔ کیونکہ چییرمین سینیٹ کو ہٹانے کے دیرپا نتائج ہوں گے جس کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔‘

بدلتے محرکات اور چیئرمین سینیٹ

اس بارے میں ایک بات بار بار سننے میں آ رہی ہے اور وہ صادق سنجرانی کو ’لانے والوں‘ کے حوالے سے ہے۔

اب کہا جا رہا ہے کہ انھیں لانے والے اتنے طاقتور ہیں کہ شاید وہ اپنی پوزیشن سے نہ ہٹائے جائیں اور بات رفع دفع کر دی جائے۔

لیکن اگر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے بیانات اور اب تک کے عوامل پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا ہوتا ہوا مشکل نظر آتا ہے۔

یاد رہے کہ صادق سنجرانی کو منتخب کرنے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ جس کے بارے میں جب ان کی جماعت کی نفیسہ شاہ سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’تب محرکات مختلف تھے۔ آج ہم وقت کی مطابقت سے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے مطابق چییرمین سینیٹ کو تبدیل ہونا چاہیے۔‘

شبلی فراز

شبلی فراز کا کہنا ہے کہ وہ اِس وقت صادق سنجرانی کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے وقار کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں

شبلی فراز نے اس بارے میں کہا کہ ’یہ بات اپنی جگہ ہے کہ صادق سنجرانی نے سینیٹ بہت ہی باوقار طریقے سے چلایا ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ اُن کو لانے والوں میں ہم اکیلے تو شامل تھے نہیں۔ ہم اِس وقت اُن کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے وقار کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘

لیکن ان ملاقاتوں کی خبر سُنتے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن نے کہا کہ ’ملاقاتیں کر کے حکومت نہ صرف سینیٹ کے وقار کو مجروح کررہی ہے بلکہ اپنی بوکھلاہٹ کا بھی اظہار کررہی ہے۔‘

اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ یکم اگست کو اجلاس میں اپوزیشن اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے گی۔ اور اس میں ہونے والی ووٹنگ کے تحت چیرمین سینیٹ تبدیل ہوں گے۔

23 جولائی کو حزبِ اختلاف کی طرف سے جمع کروائی گئی درخواست پر بحث کرنے کے لیے بلائے جانے والا اجلاس آئین کی شِق 218 کی بنیاد پر غیر معینہ مدّت کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں سینیٹ کے قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ظفر الحق نے مطالبہ کیا کہ اجلاس میں زیرِ بحث موضوع پر آئین کی 218 کی شِق لاگو نہیں ہوتی۔

اب تمام تر فیصلے بیلٹ کے ذریعے یکم اگست کو ہوں گے۔

لیکن اس سے پہلے ہی تمام سینیٹرز اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طریقے سے ایک دوسرے کو اس بات کی یقین دہانی کرا رہی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ لیکن استعفیٰ دینے کا انحصار اس بات پر ہوگا اگر حکومت چیئرمین سینیٹ کو بچانے کے لیے ووٹرز جمع کرلیتی ہے۔

صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اگر نمبرز پورے نہیں کرپاتی تو اُن کو چاہیے کہ صادق سنجرانی سے استعفیٰ وصول کر کے اخلاقی بنیادوں پر جیت جاییں۔ جس کا اظہار پاکستان تحریکِ انصاف بارہا کرتی رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے ووٹرز کے درمیان ایک واضح اور خاصا بڑا فرق ہے۔ اگر آٹھ یا دس سینیٹرز دوسری جانب چلے بھی جاییں تب بھی یہ پورا نہیں ہوگا۔‘

’لیکن پاکستان تحریکِ انصاف اگر ایک سال صبر کرے تو 2021 میں ویسے بھی پچاس فیصد سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے اور نئے سِرے سے انتخابات ہوں گے۔ اور پاکستان تحریکِ انصاف پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی اکثریت استعمال کر کے نیا چییرمین سینیٹ لاسکتی ہے۔ لیکن ان ملاقاتوں سے حکومت جو توقع کررہی ہے وہ نہیں ہوپائے گا۔‘

اس بارے میں حزبِ اختلاف کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’حکومت اس وقت خود کو مطمئن کرنے کے لیے یہ اقدامات کررہی ہے جو دراصل وقت برباد کرنے کے مترادف ہے۔‘

اس وقت دو صورتحال ہوسکتی ہیں۔ یا تو چیئرمین سینیٹ یکم اگست سے پہلے استعفیٰ دے دیں۔ یا پھر سیکریٹ بیلٹ کے ذریعے نکالے جائیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ ان کو بتایا گیا ہے کہ ’یکم اگست کو شاید کچھ سینیٹرز حج کی غرض سے ملک سے باہر چلے جاییں۔ اب یا تو یہ صاحبان سینیٹ کا پاس رکھ لیں یا پھر اُسی دن ووٹنگ کرلیں۔‘

حج پر جانے کے حوالے سے اپوزیشن کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’ایسا ضرور سُننے میں آیا ہے کہ چند سینیٹرز حج کی غرض سے چلے جاییں گے۔ لیکن یہ بات حکومت کی طرف سے بھی پھیلائی جاسکتی ہے۔ تاکہ ہم آپس میں الجھ پڑیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp