کیا ادارے مریم کی بات مان جائیں گے؟


ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے گزشتہ برس 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے آج انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر یوم سیاہ منایا اور موجودہ حکومت کی کارکردگی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ۔ دوسری طرف حکمران پاکستان تحریک انصاف نے آج کے دن کو نئے پاکستان کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہوئے اسے یوم تشکر کے طور پر منایا۔ حکمران جماعت کے لیڈروں نے اپنے پیغامات میں 25 جولائی کو ’موروثی حکمرانی سے میرٹ اور منافقت سے جمہوریت کا سفر قرار دیا‘۔

وزیر اعظم عمران خان آج صبح ہی امریکہ کے تین روزہ دورہ سے وطن واپس پہنچے تھے۔ انہوں نے اسلام آباد ائیرپورٹ پر جمع ہونے والے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں کڑا احتساب جاری رہے گا۔ پاکستان کو لوٹنے والے چوروں نے جن اداروں کو تباہ کردیا تھا، ہم ان کی تعمیر نو کریں گے‘۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپوزیشن کے یوم سیاہ کے سلسلہ میں کوئٹہ میں منعقد ہونے والی احتجاجی ریلی سے خطاب کیا اور ملک کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ عمران خان کی ناکام حکومت کی حفاظت کے لئے سب صوبوں کے عوام کے ساتھ دشمنی مول نہ لیں۔

 عمران خان کی طرح مریم نواز نے بھی کسی ادارے کا نام نہیں لیا۔ تاہم ان دونوں لیڈروں کی باتوں سے یہ واضح ہے کہ ملک میں اقتدار کی جنگ دراصل بعض طاقت ور اداروں کی سرپرستی اور اعانت سے جیتی یا ان کے ساتھ اختلاف کی بنا پر ہاری جاتی ہے۔ عمران خان کا ’کامیاب دورہ امریکہ ‘ اور فوجی قیادت کا اس موقع پر ان کے ہمراہ موجودہ رہنا بھی طاقت ور اداروں کی سیاسی ترجیحات کا ایک نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں عمران خان کے ساتھ میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پاکستان کی سابقہ حکومتوں کو دھوکے باز قرار دیا اور کہا کہ اب پاکستان ٹھیک ہو گیا ہے اور وہ امریکہ کی مرضی کے مطابق کام کررہا ہے تو اس سے بھی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ جن پالیسیوں کی وجہ سے صدر ٹرمپ پاکستان کی سابقہ حکومتوں کو برا بھلا کہتے رہے ہیں ، اب انہیں تبدیل کیا جارہا ہے۔

آخر یہ پالیسیاں کیا ہیں جن کے تبدیل ہونے سے امریکہ کے صدر اس قدر خوش ہورہے ہیں کہ وہ پاکستانی وزیر اعظم کی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے گن گانے لگے ہیں اور وہ کون سی حکمت عملی تھی جس کی وجہ سے سابقہ حکومتیں امریکی صدر کی نظر میں دھو کے باز ار ڈبل گیم کرنے والی قرار دی جا رہی ہیں۔  وزیر اعظم عمران خان صدر ٹرمپ کے الزامات کو خاموشی سے سنتے ہوئے صرف یہ وعدہ کرسکے کہ ’پاکستان کی حکومت جھوٹ نہیں بولے گی اور جو وعدہ کرے گی، اسے پورا کیاجائے گا‘۔

 اس حوالے سے اہم ترین سول یہ ہے کہ تبدیلی واشنگٹن کے طرز عمل میں واقع ہوئی ہے یا اسلام آباد نے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کو یہ یقین ہونے لگا ہے کہ دہشت گردی کے قلع قمع، انتہا پسند لیڈروں کی سرکوبی اور افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے پاکستان اب سنجیدگی سے اقدامات کررہا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کا نمائیندہ ہونے کے باوجود سابقہ حکومتوں کے خلاف امریکی صدر کی نکتہ چینی پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بلکہ کانگرس کے ارکان سے ملاقات کے دوران انہوں نے یہ دعویٰ کرنا ضروری سمجھا کہ ’سابقہ حکومتیں قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھیں لیکن اب اس پر پوری سنجیدگی سے عمل ہورہا ہے‘۔

قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی بات کرتے ہوئے کیا ا س بات کو فراموش کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ نے دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گرد حملہ کے بعد اس وقت کی فوجی قیادت کی خواہش اور دباؤ کی وجہ سے ہی متفقہ طور پر اکیسویں آئینی ترمیم منظور کی تھی۔ یہی موقع تھا جب عمران خان نے اسلام آباد کے ڈی گرؤنڈ میں 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ’تاحیات‘ دھرنا دیا ہؤا تھا ۔ اس موقع پر عمران خان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ اگر سب لوگ بھی ان کا ساتھ چھوڑ جائیں تو بھی وہ تن تنہا دھرنا جاری رکھیں گے۔ پھر آرمی پبلک اسکول والا سانحہ ہوگیا اور ملک کی باقی سب جماعتوں کی طرح انہیں بھی فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کی ضرورت محسوس ہوئی اور دھرنا ختم کردیا گیا۔ اس پس منظر میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ جو فوج سب سیاسی جماعتوں کو اکیسویں ترمیم منظور کرنے اور فوجی عدالتیں قائم کرنے پر ’آمادہ‘ کرسکتی تھی ، اس کے ہوتے سابقہ حکومت کے دور میں  قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کیوں تساہل ہوتا رہا؟

قومی ایکشن پلان کے حوالے سے بات ہوگی تو یہ جاننے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ نواز شریف کی حکومت کے دور میں سامنے آنے والا ’ڈان لیکس ‘ اسکینڈل کیا تھا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس کی رپورٹنگ پر روزنامہ ڈان اور سیرل المیڈا کو کیوں کٹہرے میں کھڑا کیاگیا تھا اور اس میٹنگ میں کی جانے والی ایسی کون سی بات کی ’گمراہ کن رپورٹنگ‘ پر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو متعدد عہدیداروں کو علیحدہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ’ڈان لیکس‘ کی رپورٹ میں جن باتوں کا حوالہ دیا گیا تھا ، فوج کے ترجمان نے انہیں ’جھوٹ کا پلندہ اور من گھڑت کہانی‘ تو قرار دیا تھا لیکن کبھی یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی تھی کہ اس اجلاس کے بارے میں سیریل المیڈا نے اگر جھوٹی کہانی بیان کی تھی تو اصل کہانی کیا تھی۔ ایسی کون سی باتیں تھیں جنہیں بے بنیاد رپورٹ میں شامل کرنے سے فوج کا وقار اور قوم کا مفاد خطرے میں پڑ گیا تھا؟

امریکہ کو پاکستان کی دو باتوں پر اعتراض رہا تھا۔ ایک یہ کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے ذریعے افغانستان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ افغان طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنے میں سنجیدہ کوشش نہیں کرتا جس کی وجہ سے طالبان امریکہ کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے جو امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا سبب بن سکے۔ گزشتہ اکتوبر میں کئے جانے والے پاکستان دشمن ٹوئٹ پیغامات کے بعد صورت حال دسمبر 2018 میں امریکی صدر کی طرف سے وزیر اعظم عمرا ن خان کو لکھے جانے والے ایک خط کے بعد تبدیل ہوئی تھی۔

یہ خط موصول ہونے کے چند روز کے اندر ہی افغان طالبان کا وفد دوحہ میں امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ مذاکرات کے لئے پہنچ چکا تھا۔ اسی تبدیلی حالات پر ٹرمپ پاکستان کا معترف ہؤا ہے اور عمران خان کی وہائٹ ہاؤس میں پذیرائی کی گئی ہے۔ پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کیا وزیراعظم ہاؤس کے مکین کی تبدیلی کی مرہون منت ہے؟ یا اس کے کچھ دوسرے عوامل بھی تھے۔ کیا فیصلے کرنے میں اسلام آباد کی حکومت یک بیک اس قدر ’آزاد‘ ہوگئی ہے کہ فوج کو اس کی بات مانے بغیر چارا نہیں ہے یا اپوزیشن کی یہ پھبتی درست ہے کہ ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم نامزد کردیا گیا ہے جو قومی پالیسیوں کے بارے میں عسکری اداروں کی مکمل تابعداری کرنے پر آمادہ ہے۔ اسی تابعداری کو اس وقت ایک پیج پر ہونے کی سیاست کہا جا رہا ہے۔

قومی سلامتی کے اہم امور پر فیصلے کرنے کے بارے میں اس وقت اگر وزیر اعظم بااختیار ہے تو ماضی میں سویلین حکومتوں کا یہ اختیارات کون سلب کرتا تھا۔ اگر وزیر اعظم نامزد ہے اور ایک پیج پر رہ کر اسی پالیسی پر سر ہلاتا ہے جو جی ایچ کیو میں تیار ہوتی ہے تو وہ کون سے حالات ہیں جن کی وجہ سے قومی سلامتی سے متعلق اہم پہلوؤں پر حکمت عملی میں ایسا یو ٹرن لیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ جیسا شخص بھی الزام تراشی سے پاکستان کی توصیف پر مجبور ہوگیا ہے؟

کوئٹہ کے جلسہ میں مریم نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف اس وقت ووٹ کی عزت کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں قید ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کسی بھی ادارے کا نام لئے بغیر کہا کہ ’ادارے ایک نااہل حکومت کی حفاظت میں عوام کا سامنا نہ کریں۔ ملک کے ادارے سب کے لئے محترم ہیں۔ یہ ادارے ملک کے سب صوبوں کی نمائیندگی کرتے ہیں۔ یہ ادارے عمران خان کے ادارے نہیں ہیں۔ آپ ایک ایسے شخص کے نمائیندے نہیں ہوسکتے جس نے ملک کو تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا ہے‘۔ اس بیان میں اگرچہ کسی ادارے کا نام نہیں لیا گیا لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ گفتگو سیاست اور فوج کے تعلق کے حوالے سے کی گئی ہے۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ اگر عسکری ادارے موجودہ حکومت کی پشت پناہی بند کردیں تو وہ خود ہی اپنی غلطیوں کے بوجھ سے نیچے آگرے گی۔

سوال تو صرف اتنا ہے کہ کیا ادارے مریم نواز کی بات مان لیں گے؟ اور اگر انہوں نے من مانی کرنے کی موجودہ پالیسی جاری رکھی تو مریم نواز یا ملک کی اپوزیشن ’ووٹ کی عزت‘ کے لئے کس حد تک جاسکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali