25 جولائی_ایک جہد مسلسل!


25 جولائی کا دن تحریک انصاف کے ووٹرز بالخصوص نوجوانوں کے لیے عید سے کم نہیں۔ اس دن کو دیکھنے کیلہے جتنے طعنے ہم نے سنے شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کے بھی سنے ہوں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب 2011 کے اوائل میں ریمنڈ ڈیوس کو زرداری حکومت نے راتوں رات ملک سے باہر بھیجا تو پاکستان کی ساری قیادت بلوں میں گھس گئی تھی۔ اس دن صرف ایک شخص اس کے خلاف باہر نکلا تھا ”عمران خان“۔ اسی دن دل نے کہا کہ یہی وہ بندہ ہے جو پاکستان کے مسائل حل کرسکتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل ایک ایسا لیڈر ہے جو نڈر ہو، جو مغرب میں بھی وہی بات کرے جو پاکستان میں کرتا ہو اور عمران خان کے بارے وکی لیکس نے بھی یہی انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کا واحد لیڈر عمران خان ہے جو امریکیوں کے سامنے بھی وہی بات کرتا ہے جو عوام میں کرتا ہے۔ جبکہ اسی وکی لیکس نے ”مولانا صاحب“ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ کونڈو لیزارائس کو کہتے تھے بس ایک بار مجھے وزیراعظم بنا دو میں وہی کروں گا جو امریکہ کہے گا۔

آج کے حالات دیکھ لیں امریکی صدر سے لے کر ولی عہد سعودی عرب، دبئی کے بادشاہ سے لے کر برطانیہ کے نئے وزیراعظم تک سبھی عمران خان کے سحر میں گرفتار ہیں۔ پاکستان کو وہ عزت مل رہی جو پچھلی کئی دہائیوں سے نظر نہیں آرہی تھی اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ مغرب اور عرب دونوں جانتے ہیں کہ یہ بندہ کرپٹ بھی نہیں اور دباؤ میں بھی نہیں آنے والا۔ بات لمبی ہو گئی، مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار میں نے 2011 میں اپنی موٹرسائیکل کے پیچھے عمران خان کے نام کی نمبر پلیٹ لگائی تو ماموں نے کہا یہ تم کس کے ساتھ مل گئے ہو اس کو تو گجرات میں کوئی بندہ بھی نہیں جانتا، اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ ہمارے ایک عزیز نے کہے تھے جنہوں نے 2018 ء میں نا صرف تحریک انصاف کو ووٹ دیا بلکہ لوگوں کو قائل بھی کیا۔ لوگوں کی اس وقت تنقید پر ہم صرف ہنس دیا کرتے تھے کہ

کیا حسن نے سمجھا ہے، کیا عشق نے جانا ہے

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر مین زمانہ ہے

اور پھر قدرت نے وہ وقت بھی دکھایا کہ 30 اکتوبر 2011 کے بعد تحریک انصاف میں آنے والوں کی لائنیں لگ گئیں۔ لوگوں کی امیدوں کا محور ایک ہی شخص تھا جسے لوگ تانگہ پارٹی کا طعنہ دیا کرتے تھے اور کچھ دو سیٹوں کا، اور وہ بھی ہنس کے ٹال دیتا تھا کہ میرا ووٹر ابھی جوان ہورہا ہے۔ اور جب اس کا ووٹر جوان ہوا تو اس نے بڑے بڑے مگر مچھوں کو اپنی محنت اور قائد کے اعتماد کے ساتھ 2018 کے الیکشن میں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔

انہی طعنہ دینے والوں میں سے آج ایک کیمپ جیل لاہور میں ہے اور دوسرا نیب کی تحویل میں، لوہے کے چنے بھی پگھل چکے ہیں اور گالیاں دینے والے بھی ”دھمال“ ڈال کر گزارہ کررہے ہیں۔ وہ جو ان کو برگر بچوں کا طعنہ دیتے تھے اور پچیس پچیس، تیس تیس سال سے جیتتے چلے آرہے تھے ان کی ضمانتیں بھی انہی برگر بچوں نے ضبط کروادیں۔ میڈیا کے وہ لوگ جن کی روزی روٹی انہیں کی تعریف کرنے سے چل رہی تھی ان کی چیخیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔

وہ صحافی جو کہتے تھے سوشل میڈیا کی پارٹی ہے، آج کل یوٹیوب پر اپنا چینل چلا رہے ہیں۔ وہ جو کہتا تھا سارا پنڈ مرجائے، میراثی کا بیٹا چودھری نہیں بن سکتا آج منہ چھپاتا پھررہا ہے۔ جو پھٹی پرانی کا ٹوٹا ہوا بٹن دینے کو تیار نا تھا آج منظر سے ہی غائب ہے۔ یہ بھی اللہ کے فیصلے ہیں جو غرور و تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ مجھے یاد ہے جب مذہبی جماعتوں کا دوبارہ نکاح ”مجلس عمل“ کی بحالی کی شکل میں ہو رہا تھا لفافہ صحافیوں نے کہا کہ اب تو پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ سے گئی، لیکن جب رزلٹ آیا تو قائد ملت اسلامیہ اود مجلس عمل اپنی دونوں سیٹیں بالترتیب 30,35 ہزار کی لیڈ سے ہارچکے تھے۔

واحد حل جماعت کے غریب قائد اپنی آبائی نشست سے ہار گئے۔ روٹی کپڑا مکان دینے والے بلاول لیاری سے ہار گئے۔ تمام مذہبی و لبرل جماعتیں ایک طرف تھیں اور تحریک انصاف کا نوجوان ایک طرف۔ اکیلی تحریک انصاف نے فضل الرحمان کا بھی مقابلہ کیا اور سراج الحق کا بھی۔ اے این پی سے لے کر آفتاب شیر پاؤ تک سب کو خیبرپختونخواہ میں دھول چٹا دی۔ پنجاب میں ن لیگ اور لبیک کا مقابلہ کیا، سندھ میں پی پی اور ایم کیو ایم، پی ایس پی کا۔ بلوچستان میں اچکزئی اور بزنجو کا۔ یہ تمام وہ جماعتیں ہیں جو پچھلی چار دہائیوں سے جیتتی آرہی تھیں لیکن اس سب کے باوجود اللہ تعالی نے عمران خان کو فتح دی۔

اب کوئی سلیکٹڈ کا رونا روئے یا دھاندلی کا، فوج کو گالی دے یا عدالتوں کو، حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ کے بعد عمران خان کو پاکستان کی عوام نے اس منصب کے لیے منتخب کیا ہے۔ میں اگر اپنے گاؤں کی بات کروں تو 2013 میں میرے ساتھ گاؤں کا کوئی دوسرا بندہ نہیں تھا لیکن اس بار الحمدللہ گاؤں سے ہماری لیڈ ہی 250 ووٹوں کی تھی۔ یہی حالات میرے سارے حلقے کے تھے۔ ان دیہاتیوں کو کسی فوجی نے یا جج نے نہیں کہا تھا کہ آپ نے ووٹ تحریک انصاف کو دینا ہے، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے دور میں ہر بندے تک سچ پہنچ رہا ہے، یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیتا ہے۔ ایسے میں اگر سوشل میڈیا کو کریڈٹ نے دیا جائے تو نا انصافی ہو گی۔ بھلا ہو مارک ذکر برگ کا جس نے اس سوئی ہوئی نوجوان نسل کو جگایا اور اس نوجوان نسل نے بڑے بڑے برج الٹ دیے۔

شروع میں جب کسی نوجوان سے بات ہوتی تو وہ یہی کہتا کہ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ووٹ دے کر عمران خان کو کامیاب کروادیں باقی وہ جانے اس کا کام۔ لیکن انتخابات کے بعد نوجوانوں کا کردار اور بھی بڑھ گیا۔ آئے روز کے جھوٹے پراپیگنڈے جو اس حکومت کے خلاف کیے جاتے ہیں وہ یہ سوشل میڈیا بریگیڈ بیس روپے کے پیکج میں ہی پلٹ دیتی ہے۔ عمران خان نے منتخب ہوتے ہی کہا تھا کہ میں جب ان پر ہاتھ ڈالوں گا تو یہ چیخیں گے اور اکٹھے ہو جائیں گے لیکن آپ نے میرا ساتھ نہیں چھوڑنا۔

ایک سال ہو گیا اور مولانا اب فرماتے ہیں کہ ہمیں اکٹھے ہونا پڑے گا ورنہ ہم سب جیل میں اکٹھے ہوں گے۔ اللہ کی قدرت دیکھیں کہ اے این پی جیسی لبرل پارٹی اور جے یوآئی جیسی خالصتا دینی جماعت اس حکومت کے خلاف اکٹھی چل رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے آنے والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگوں کے ساتھ مل گئے کیونکہ سب کی دیہاڑیاں عمران خان نے بند کردی ہیں بلکہ اب تو لوٹی دولت کا حساب بھی مانا جارہا ہے۔ آج بھی پوری اپوزیشن نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن پورے پاکستان سے چند ہزار لوگ ہی اکٹھے کر پائی۔

اب حالات بدل چکے ہیں اور جو کہتے تھے بن تو گیا ہے چھے مہینے نہیں نکالے گا، وہ غائب ہیں۔ لوگ بھی باشعور ہو چکے ہیں اور ان سے بس قیمے والا نان اور بریانی ہی کھانے جاتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی اپنی دکان، کاروبا ار چھوڑ کر ڈی چوک بیٹھے کی ب وقوفی نہیں کرے گا وہ عمران خان ہی تھا جو 126 دن کنٹینر پر گزار آیا، یہاں آج جیل سے اے سی اتروایا تو قائد انقلاب نے رونا شروع کردیا کہ مجھے ”پت“ ہو جاتی ہے۔ آخر میں تمام انصافیوں کو یوم تشکر مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).